فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 72
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ ۞
ترجمہ:
سو جب میں اس کا پتلا بنالوں اور اس میں اپنی طرف سے (خاص) روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گرجانا
روح کا معنی، روح پھونکنے کا محمل اور ہماری شریعت میں سجدہ تعظیم کا عدم جواز
ص ٓ: ٧٢ میں فرمایا : سو جب میں اس کا پتلا بنالوں اور اس میں اپنی طرف سے (خاص) روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا ” سویتسہ “ کا لغوی معنی ہے : میں اس کو درست بنالوں اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ میں اس کا پتلا بنالوں اور اس کو انسانی صورت میں ڈھال لوں۔ اس کے بعد فرمایا : اور اس میں اپنی طرف سے خاص روح پھونک دوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب قالب پوری طرح درست اور مکمل ہوجائے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پہلے رحم میں نطفہ ہوتا ہے، پھر چالیس دن بعد وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے، پھر چالیس دن بعد گوشت بن جاتا ہے، پھر چالیس دن بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٠٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٤٣) اور عارفین نے کہا ہے کہ اسی طرح انسان میں حقیقت کی روح اس وقت پھونکی جاتی ہے جب وہ شریعت اور طریقت کے تقاضوں پر حمل کرکے درست اور کامل ہوجاتا ہے۔ روح پھونکنا ایک استعارہ ہے، حقیقت میں کوئی پھونک نہیں ہوتی، بلکہ روح کو جسم میں جاری کردیا جاتا ہے اور جسم کے تمام اعضاء میں روح کا نفوذ اس طرح ہوتا ہے جس طرح انگارہ میں آگ کا حلول ہوتا ہے یا جس طرح پتے میں پانی کی نمی کا حلول ہوتا ہے یا پھول میں خوشبو کا حلول ہوتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے روح کی اپنی طرف اضافت کی ہے، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ روح ہے اور یا اس روح کا مرتبہ بڑھانے اور اسکی تعظیم اور تکریم ظاہر کرنے کے لیے اپنی طرف اضافت کی ہے۔ روح کے دو معنی ہیں : ایک معنی یہ ہے : وہ ایک جسم لطیف ہے جس کا بخار کی شکل میں تمام جسم میں حلول ہے، وہ حواس ظاہرہ، حواس باطنہ اور جسم کی تمام قوتوں کی حامل ہوتی ہے۔ بدن کے فانی ہونے سے یہ روح بھی فانی ہوجاتی ہے اور روح کام دوسرا معنی ہے : نفس ناطقہ اور لطیفہ ربانیہ، یہ نفس حیوانی کی قوتوں کی حامل ہوتی ہے، اس روح پر فنا نہیں ہے، یہ بدن کے فانی ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ اس کی مکمل تفصیل اور تحقیق ہم نے بنو اسرائیل : ٨٥ میں کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں بتیان القرآن ج ٦ ص ٧٩٣۔ ٧٨٦۔
اس کے بعد فرمایا : تو تم سب سجدہ میں گرجانا، سجدہ کا اطلاق حد رکوع تک جھکنے پر بھی ہوتا ہے اور زمین پر چہرہ رکھنے پر بھی سجدہ کا اطلاق ہوتا ہے، چونکہ اس آیت میں فرمایا ہے : تم سب سجدہ میں گر جانا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں سجدہ سے مراد حد رکوع تک جھکنا نہیں ہے بلکہ زمین پر چہرہ رکھنا مراد ہے۔ یہ سجدہ تعظیم تھا، سجدہ عبودیت نہیں تھا، سجدہ تعظیم سابقہ شریعتوں میں جائز تھا، جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں اور ان کے والدین نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کیا تھا اور سجدہ عبودیت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ عبودیت کرنا جائز نہیں ہے اور ہماری شریعت میں مخلوق کے سامنے سجدہ تعظیم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ قیس بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں حِیَرَہ (کوفہ سے تین میل دور ایک شہر جس کو آج کل نجف کہتے ہیں) میں گیا، میں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں، تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : آپ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے، آپ نے فرمایا : یہ بتائو کہ اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اس کو سجدہ کرو گے ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو پھر نہ کرو، اگر میں کسی کو دوسرے کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر ان کے خاوندوں کا حق رکھا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٤٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٥٣، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٤٧٠، مسند احمد ج ٤ ص ٣٨١، ج ٥ ص ٢٢٧، ج ٦ ص ٧٦)
القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 72