أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ فَالۡحَقُّ وَالۡحَقَّ اَقُوۡلُ‌ ۞

ترجمہ:

فرمایا : پس یہ برحق ہے اور میں حق بات ہی فرماتا ہوں

ص ٓ: ٨٥۔ ٨٤ میں فرمایا : ” فرمایا : پس یہ برح ہے اور میں حق بات ہی فرماتا ہوں کہ میں تجھ سے اور تیرے تمام پیروکاروں سے ضرور جہنم کو بھردوں گا “

امام رازی کے اس پر دلائل کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا…سے ہورہا ہے

امام رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ہمارے اصحاب نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قضاء اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اور اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا : ” تو اس جنت سے نکل جا، بیشک تو دھتکارا ہوا ہے بیشک تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے “ ص (ص ٓ: ٧٨۔ ٧٧) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ ابلیس ایمان نہیں لائے گا، پس اگر ابلیس ایمان لے آئے تو اللہ کی خبر صادق کا ذب ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں کذب محال ہے، پس ابلیس کا ایمان لانا محال ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان لانے کا حکم دیا ہے (یعنی ابلیس کا ایمان نہ لانا، اللہ ت عالیٰ کی قضاء اور اس کے حکم سے ہے) ۔

(٢) ابلیس نے کہا : ” پس تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو گمراہ کردوں گا “ (ص ٓ: ٨٢) اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ابلیس اس کے بندوں کو گمراہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا دعویٰ سنا اور وہ ابلیس کو اس سے منع کرنے اور روکنے پر قادر تھا اور جب کوئی شخص کسی کو کسی کام سے روکنے پر قادر ہو اس کے باوجود اس کہ منع نہ کرے تو وہ اس کام سے راضی ہوتا ہے (یعنی اللہ اس سے راضی ہے کہ ابلیس لوگوں کو گمراہ کرے) ۔

(٣) اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ جہنم کو کافروں سے بھر دے گا، پس اگر لوگ کفر نہ کرتے تو اس کے کلام کا صدق کذب سے بدل جائے گا اور اس کا علم جہل سے بدل جائے گا اور یہ محال ہے (یعنی لوگوں کا کفر کرنا اللہ کے حکم اور اس کی رضا سے ہے) ۔

(٤) اگر اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ ہوتا کہ کافر کفر نہ کرے تو واجب تھا کہ دنیا میں انبیاء اور صالحین ہی رہتے اور ابلیس اور شیطان مرجاتے اور جب کہ ایسا نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی ارادہ تھا کہ لوگ کفر کریں۔

(٥) اگر ان کافروں کو ایمان کا مکلف کیا جائے تو لازم آئے گا کہ وہ ان آیات پر بھی ایمان لائیں جن کا تقاضا ہے کہ وہ ایمان نہ لائیں اور اس وقت یہ لازم آئے گا کہ وہ ایمان لانے اور ایمان نہ لانے دونوں کے مکلف ہوں اور یہ تکلیف مالا یطاق ہے۔ یعنی انسان کو اس چیز کا مکلف کرنا ہے جس کی اس میں طاقت نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤١٦، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی کے دلائل کے جوابات اور بحث ونظر

امام فخر الدین رازی قدس سرہٗ العزیز علم اور حکمت میں ایک بحرناپیدا کنار ہیں اور میں ان کے علوم وافرہ کے سامنے بہ مشکل ایک قطرہ کی حیثیت رکھتا ہوں، اگر میں ان کے زمانہ میں ہوتا اور مجھے ان کے تلامذہ کی صف میں بھی بیٹھنے کی جگہ مل جاتی تو میں اس کو اپنے لیے باعث صدا افتخار گردانتا، میں نے اپنی اس تفسیر میں ان کی تحقیقات، تدقیقات اور نکات آفرینیوں سے بہت استفادہ کیا ہے اور میں ہمیشہ ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گورہتا ہوں، مجھے ان سے بہت محبت اور بےحدعقیدت ہے، اس کے باوجود بعض مسائل میں، میں نہایت ادب اور احترام کے ساتھ ان سے اختلاف کرتا ہوں، سو زیر بحث مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام رازی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حکم اور اس کی رضا سے ہورہا ہے، شیطان کا سجدہ نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا سے تھا، اس کا لوگوں کو گمراہ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا سے تھا۔ لوگوں کا کفر کرنا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا سے ہے اور یہی وہ تقریر ہے جو عام طور پر دہریے اور زندیق کرتے ہیں، ہم اس قسم کے عقائد اور نظریات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ اگر یہ نظریہ اور عقیدہ درست ہو تو پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کی اس قدر مذمت کیوں کی، اس کو لعنتی کیوں قرار دیا اور شیطان کو اور اس کے متعبین کو دوز خ کے دائمی عذاب کی وعید کیوں سنائی۔ انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کی تبلیغ کرنے کے لیے کیوں بھیجا۔ نیکی کرنے والوں کو دائمی اجروثواب کی بشارت کیوں دی اور بُرائی کرنے والوں کو ابدی عذاب کی وعید کیوں سنائی، جنت اور دوزخ کو کیوں بنایا، آسمانی کتابیں کیوں نازل فرمائیں۔ اگر دنیا میں کفر اور معصیت اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا سے عمل پذیر ہو تو ان سوالات کا جواب نہیں دیا جاسکتا، پھر شرعی نظام بالکل فضول او عبث ہوگا اور شدہ ہدایت کا کوئی معنی نہیں رہے گا۔

اب آئیے امام رازی کے دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں :

امام رازی کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے ایمان نہ لانے کی خبر دی ہے، اگر وہ ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ کی خبر کاذب ہوجائے گی اور اس کی خبر کا کاذب ہونا محال ہے، لہٰذا ابلیس کا ایمان لانا محال ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فی نفسہٖ ابلیس کا ایمان لانا ممکن ہے، یعنی اس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان لانے کی خبر دی ہے اور جب یہ محلوظ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان نہ لانے کی خبردی ہے تو پھر اس کا ایمان لانا محال ہے، سو اس کا ایمان لانا ممکن بالذات اور محال بالغیر ہے اور ابلیس فی نفسہٖ ایمان لانے کا مکلف ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خبر سے قطع نظر کرکے اور جب یہ لحاظ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان نہ لانے کی خبر دی ہے تو پھر اس کا ایمان لانا محال بالغیر ہے اور اس لحاظ سے وہ ایمان لانے کا مکلف نہیں ہے۔ امام رازی کی تقریر پر نقض اجمالی یہ ہے کہ اس طرح ہر شخص کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اس کا ایمان لانا محال ہوگا واجب ہوگا، مثلاً ازل میں اللہ تعالیٰ کا علم تھا کہ حضرت ابوبکر ایمان لائیں گے۔ اب اگر وہ ایمان نہ لاتے تو اللہ تعالیٰ کا علم جہل سے بدل جاتا اور اللہ تعالیٰ کا جہل محال ہے، پس حضرت ابوبکر (رض) کا ایمان لانا ضروری اور واجب ہوا اور ان کا ایمان نہ لانا محال ہوگیا اور واجب یا محال کا انسان کو مکلف نہیں کیا جاتا، بلکہ انسان کو اس کام کا مکلف کیا جاتا ہے جس کو کرنا اس کے لیے ممکن ہو۔ اسی طرح یہ محال ہے، پس اس کا ایمان لانا محال ہو اور اس کا ایمان نہ لانا ضروری اور واجب ہوا اور مکلف اس کام کا کیا جاتا ہے جو فی نفسہٖ ممکن ہو نہ کہ وہ جس کا ہونا ضروری ہو یا محال ہو، لہٰذا حضرت ابوبکر (رض) کو ایمان لانے کا مکلف کرنا صحیح ہوا نہ ابوجہل کو بلکہ کائنات میں کسی شخص کو بھی ایمان لانے کا مکلف کرنا صحیح نہ ہوا، کیونکہ ازل میں اللہ تعالیٰکو ہر شخص کے متعلق علم ہے کہ وہ ایمان لائے گا یا نہیں لائے گا اور اسکے علم کے اعتبار سے اس کا ایمان لانا ضروری ہے اور واجب ہوگا یا محال ہوگا اور مکلف ممکن کا کیا جاتا ہے اور اس کا حل یعنی نقص تفصیلی یہ ہے کہ ابلیس ہو یا کوئی اور شخص ہو، ہر شخص کا ایمان لانا نفسہٖ ممکن ہے یعنی اس سے قطع نظر کرکے کہ اللہ کے علم میں اس کا ایمان لانا ہے یا ایمان نہیں لانا۔ اسی طرح ابلیس ہو یا کوئی اور شخص ہو، ہر شخص کا ایمان لانا فی نفسہٖ ممکن ہے یعنی اس سے قطع نظر کرکے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان لانے کی خبر دی ہے یا ایمان نہ لانے کی۔ امام رازی کا دوسرا استدلال یہ ہے کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے کہا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو منع نہیں کیا اور روکا نہیں اور نہ روکنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گمراہ کرنے پر راضی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب ابلیس نے یہ کہا کہ وہ نفوس قدسیہ کے سوا سب لوگوں کو گمراہ کردے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ وعید سنائی کہ میں تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے ضرور جہنم کو بھردوں گا اور یہی روکنا اور منع کرنا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ روکنے اور منع کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو وسوسہ ڈالنے اور برائی کی ترغیب دینے کی قدرت سلب کرلیتا تو یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس کی حکمت یہ تھی کہ ابلیس انسان کو برائی کی ترغیب دے اور انبیاء اس کو نیکی کی ترغیب دیں اور انسان کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ چاہے تو ابلیس کی پیروی کرے اور چاہے تو نبیوں کی پیروی کرے، پھر جو ابلیس کی پیروی کرے گا وہ عذاب کا مستحق ہوگا اور جو نبیوں کی پیروی کرے گا وہ ثواب کا مستحق ہوگا اور جو نبیوں کی پیروی کرے گا وہ ثواب کا مستحق ہوگا، اب بتائیے اس میں کیا اشکال ہے۔ امام رازی کا تیسرا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ جہنم کو کافروں سے بھر دے گا، پس اگر لوگ کفر نہ کرتے تو اس کے کلام کا صدق، کذب سے بدل جاتا اور اس کا علم جہل سے بدل جائے گا، اس لیے لوگوں کا کفر کرنا ضروری اور ایمان لانا محال ہوا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ فی نفسہٖ ایمان لانے کے مکلف ہیں یعنی اس سے قطع نظر کرکے کہ ان کے ایمان کے متعلق اللہ کا کیا علم ہے اور اللہ نے ان کے ایمان لانے کے متعلق کیا خبر دی ہے۔ امام رازی کا چوتھا استدلال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہوتا کہ کافر کفر نہ کرے تو پھر ضروری تھا کہ دنیا میں انبیاء اور صالحین ہی رہتے اور ابلیس اور شیطان مرجاتے اور جب ایسا نہیں ہو تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی ارادہ تھا کہ لوگ کفر کریں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً مومن بنانا چاہتا ہے نہ جبراً کافر بنانا چاہتا ہے، انسان اگر ایمان لانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس میں ایمان پیدا کردیتا ہے اور اگر کفر کرنا چاہتا ہے تو وہ اس میں کفر پیدا کردیتا ہے اور اس کے ارادہ کے اعتبار سے ہی اس کو جزاء اور سزا ملتی ہے اور ازل میں اس کو علم تھا کہ کون ایمان کا ارادہ کرے گا اور کون کفر کا ارادہ کرے گا اور جن ایمان لانے یا نہ لانے کی اس نے خبر دی ہے وہ اپنے اس علم کے اعتبار سے دی ہے اور جزاء اور سزا کا ملنا ان کے ارادہ کے اعتبار سے ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً مومن بنانا نہیں چاہتا، اس لیے اس کو ابلیس اور شیطانوں کو مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام رازی کا پانچواں اعتراض یہ ہے کہ اگر ان کافروں کو ایمان کا مکلف کیا جائے تو لازم آئے گا کہ وہ ان آیات پر بھی ایمان لائیں جن کا تقاضا ہے کہ وہ ایمان نہ لائیں اور اس وقت یہ لازم آئے گا کہ وہ ایمان لانے اور ایمان نہ لانے دونوں کے مکلف ہوں اور تکلیف مالا یطاق ہے۔ اس کا جواب بھی حسب سابق یہی ہے کہ کفار جو ایمان لانے کے مکلف ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی دی ہوئی خبروں سے قطع نظر کرکے مکلف ہیں اور ہر شخص اسی طرح مکلف ہوتا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی توحید اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کا مکلف کیا ہے اور ہمیں کچھ علم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہمارا ایمان ہے یا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے ایمان لانے یا ایمان نہ لانے کی کسی کو خبر دی ہے، یا نہیں، اسی طرح کفار کو بھی ایمان لانے کا مکلف کیا ہے اور ان کو یہ علم نہیں ہے کہ ازل میں اللہ تعالیٰ کو ان کے ایمان لانے کے متعلق کیا علم تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان نہ لانے کی کسی کو خبردی ہے یا نہیں، اس لیے یہ اعتراض وارد نہیں وتا کہ اگر کفار ایمان لانے کے مکلف ہوں تو ضروری ہوگا کہ وہ ایمان لانے اور نہ لانے دونوں کے مکلف ہوں اور یہ تکلیف ملایطاق ہے۔ اللہ تعالیٰ امام رازی کے درجات بلند فرمائے، نجانے خیال کی کس رد میں اور کس موڈ میں انہوں نے اس مسلک پر دلائل قائم کیے، ورنہ مجھے یقین ہے کہ امام رازی کا یہ عقیدہ نہیں ہے، وہ توحید کے علم بردار ہیں اور شریعت کے پاسبان ہیں، امام رازی کے بعد کے مفسرین امام رازی کی فکری غلطیوں پر مواخذہ کرتے رہتے ہیں، ان میں علامہ علاء الدین خازن متوفی ٧٢٥ ھ، علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ اور علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ کے نام قابل ذکر ہیں، لیکن اس مقام سے سب خاموسی سے گزر گئے، ایک بار میرے دل میں خیال آیا کہ میں بھی یہاں سے خاموشی سے گزر جائوں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت اور دین اور شریعت سے وابستگی اس خیال پر غالب آگئی اور میں نے یہ عزم کیا کہ یہ بتائوں کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اس کو پیدا اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے لیکن وہ ہر چیز اور ہر کام سے راضی نہیں ہوتا، وہ کفر اور معصیت کا حکم دیتا ہے نہ ان سے راضی ہوتا ہے، وہ ایمان لانے اور عبادت اور اطاعت کرنے کا حکم دیتا ہے اور اسی سے راضی ہوتا ہے، اس نے تمام انسانوں اور جنات کو پیدا کیا اور ان کو اختیار دیا، وہ جس کام اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان میں وہی کام پیدا کردیتا ہے اور اسی اختیار کے اعتبار سے ان کو جزاء اور سزا دیتا ہے۔ وللہ الحمدعلی ذالک

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 84