قَالَ يٰۤـاِبۡلِيۡسُ مَا مَنَعَكَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِيَدَىَّ ؕ اَسۡتَكۡبَرۡتَ اَمۡ كُنۡتَ مِنَ الۡعَالِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 75
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ يٰۤـاِبۡلِيۡسُ مَا مَنَعَكَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِيَدَىَّ ؕ اَسۡتَكۡبَرۡتَ اَمۡ كُنۡتَ مِنَ الۡعَالِيۡنَ ۞
ترجمہ:
فرمایا : اے ابلیس ! تجھے اس کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا ؟ کیا تو نے (اب) تکبر کیا یا تو (پہلے سے ہی) تکبر کرنے والوں میں سے تھا ؟
حضرت آدم کو دونوں ہاتھوں سے بنانے کی توجیہ
اس کے بعد فرمایا : فرمایا : ” اے ابلیس ! تجھے اس کو سجدہ کرنے کس چیز نے روکا جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا ؟ کیا تو نے (اب) تکبر کیا یا تو (پہلے سے ہی) تکبر کرنے والوں میں سے تھا ؟ اس نے کہا : میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے “ (ص ٓ: ٧٦۔ ٧٥) حضرت آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : میں نے اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو لفظ ” کن “ سے پیدا فرماتا ہے، لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) کی عظمت اور کرامت کو ظاہر کرنے کے لیے فرمایا : میں نے ان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، ان کی پیدائش کے لیے ماں باپ کو واسطہ نہیں بنایا، نہ کسی ایک کے نطفہ کا ان کی تخلیق میں دخل ہے، ان کو اللہ تعالیٰ نے بلاوسطہ اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ ابلیس نے کہا : میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے، اس کے قول کا حاصل یہ ہے کہ اگر آدم کو آگ سے پیدا کیا جاتا تو میں پھر بھی اس کو سجدہ نہ کرتا کیونکہ وہ اس صورت میں میری مثل ہوتا، چیہ جائیکہ وہ مٹی سے بنایا گیا ہے اور مجھ سے کم تر ہے۔ کیونکہ آگ مٹی پر غالب ہوتی اور اس کو کھا جاتی ہے اور برتر کا کم تر سجدہ کرنا اور اس کی تعظیم کرنا درست نہیں ہے۔
مٹی کا آگ سے افضل ہونا
ابلیس کا یہ زعم تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے، حالانکہ حسب ذیل وجہ سے مٹی آگ سے افضل ہے۔
(١) مٹی آگ پر غالب ہے کیونکہ آگ پر مٹی ڈالنے سے آگ بجھ جاتی ہے اور آگ مٹی کو ختم نہیں کرسکتی۔
(٢) مٹی امین ہے، مٹی میں بیج دبا دیا جائے تو وہ اس سے درخت اگا کر بیج کو پھر کئی گنا کرکے لوٹا دیتی ہے اور آگ خائن ہے آگ میں جو کچھ ڈالا جائے آگ اس کو بھسم کردیتی ہے۔
(٣) آگ کی طبیعت میں جوش اور غضب ہے اور مٹی کی طبیعت میں سکون اور ثبات ہے۔
(٤) مٹی کی طبیعت میں تخلیق اور تکوین کی صلاحیت ہے، مٹی سے انسانوں اور حیوانوں کا رزق حاصل ہوتا ہے، روئی حاصل ہوتی ہے جس سے انسان کو لباس اور زینت فراہم ہوتی ہے، اس میں معدنیات ہیں جن سے مختلف آلات اور مشینیں بنتی ہیں اور آگ سے کسی چیز کا حصول نہیں ہوتا، بلکہ وہ حاصل شدہ چیزوں کو فاسد اور فنا کردیتی ہے۔
(٥) مٹی سے انسان اپنی رہائش کے لیے گھر بناتا ہے جو اس کو دھوپ اور بارش سے بچاتا ہے اور آگ سے گھر بنتا نہیں ہے، بگڑ جاتا ہے۔
(٦) آگ خود بہ خود قائم نہیں ہوسکتی، اس کو اپنے قیام کے لیے کسی محل اور جگہ کی ضرورت ہے اور وہ محل اور جگہ زمین اور مٹی ہے، سو آگ محتاج ہے اور مٹی محتاج الیہ ہے اور محتاج الیہ محتاج سے افضل ہوتا ہے۔
(٧) ہرچند کہ آگ سے بعض فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثلاً اس سے کھانا پکتا ہے، روشنی حاصل ہوتی ہے، لیکن اس کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے، کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ کھانا جلا دے اور ھگر جل کر راکھ ہوجائے، سو اس کی خیر میں بھی شر مضمر ہے اور مٹی سراپا خیر ہے، اس میں شر بالکل نہیں ہے۔
(٨) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مٹی کے بہت فوائد اور منافع بیان فرمائے ہیں، زمین کے متعلق فرمایا : ہم نے اس کو فراش، بساط اور قرار بنایا ہے اور زمین کے عجائبات میں انسان کو غور وفکر کی دعوت دی ہے اور آگ کا ذکر زیادہ تر ڈرانے، دھکانے اور عذاب دینے کے لیے فرمایا ہے اور مٹی کو اجر وثواب کا منبع بنایا ہے اور وہ جنت ہے جس میں باغات ہیں اور محلات ہیں اور یہ مٹی کے ثمرات ہیں اور آگ صرف دوزخ میں ہے اور جنت دوزخ سے افضل ہے تو مٹی آگ سے افضل ہوئی۔
(٩) مٹی کے لیے یہ فضیلت کافی ہے کہ اس سے اللہ کا گھر بنایا گیا، اور آگ کے لیے یہ مذمت بہت ہے کہ اس سے شیطان کو بنایا گیا ہے۔
(١٠) مٹی سے تواضع ہوتی ہے اور آگ سے سرکشی اور تکبر پیدا ہوتا ہے اور جو تواضع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سربلند کرتا ہے، حدیث میں ہے : حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ بلند کرتا ہے اور جو اللہ کے سامنے ایک درجہ تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دیتا ہے، حتیٰ کہ اس کو اسفل السافلین میں کردیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٧٢، مسند احمد ج ٣ ص ٧٦، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث ١١٠٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٦٧٨) حضرت عیاض بن حماد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے میری طرف یہ وحی کی ہے کہ تم انکسار اور تواضع کرو، حتیٰ کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٧٩، مسنداحمد ج ٤ ص ١٦٢، حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ١٧)
ابلیس کے اس زعم کا بطلان کہ وہ حضرت آدم سے افضل ہے
ہم نے پہلے یہ ذکر کیا ہے کہ ابلیس کا یہ زعم تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہوتی ہے اور وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور حضرت آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں، اس لیے وہ حضرت آدم سے افضل ہے اور افضل کو یہ حکم دینا صحیح نہیں ہے کہ وہ مفضول کو سجدہ کرے، اس لیے اس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ابلیس کا یہ زعم صحیح نہیں ہے کہ آگ مٹی سے افضل ہے، لیکن اگر بالفرض اس کا یہ زعم صحیح بھی ہو تو کسی مرکب کے تحقق کی چار علتیں ہوتی ہیں : علت مادی، علت صوری، علت فاعلی اور علت غائی اور مادہ کے علاوہ بقیہ تین علتوں کی وجہ سے بہرحال حضرت آدم (علیہ السلام) افضل ہیں۔ علت صوری کے اعتبار سے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے، حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) نہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
خلق اللہ آدم علی صورتہ۔ آدم کو اللہ نے اپنی صورت پر پیدا کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٢٢٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٤١، مسند احمد رقم الحدیث : ٨١٥٦، عالم الکتب، بیروت) اور علت فاعلی سے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ساری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے صرف لفظ ” کن “ سے بنایا اور حضرت آدم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، فرمایا : ” خلقت بیدی “ (ص ٓ: ٧٥) جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔
اور علت غائی کے اعتبار سے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنی خلافت اور نیابت کے لیے بنایا، فرمایا : ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ (البقرہ : ٣٠) ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) ہر اعتبار سے ابلیس سے افضل تھے اور اس کا ” اناخیرمنہ “ کہنا بےجا غرور اور جھوٹا تکبر تھا۔
تکبر کی مذمت میں احادیث
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے تکبر کا ذکر کیا ہے اور اس کے تکبر کی وجہ سے اس کو ملعون اور مردود قرار دیا، حسب ذیل احادیث میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٩٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٧٣، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٤٧٩) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سبحانہ، فرماتا ہے کہ کبریا میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے، جو ان میں کسی ایک کو مجھ سے چھینے گا میں اس کو جہنم میں ڈال دوں گا۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٧٤، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ١١٤٩، مصنف ابن ابی شبیہ ج ٩ ص ٨٩، مسند احمد ج ٢ ص ٢٤٩) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ میں سے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو مدینہ میں جہاں چاہتے لے جاتے اور اپنی حاجت پوری کرتے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٧٧، مسند احمد ج ٢ ص ١٧٤، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٩٨٢، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ١٢٩٠) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیماروں کی عیادت کرتے تھے، جنازہ کے ساتھ جاتے تھے، نوکر اور خادم کی دعوت قبول کرلیتے تھے، جنگ قریظہ اور نضیر کے دن آپ دراز گوش پر سوار تھے اور جنگ خیبر کے دن دراز گوش پر سوار تھے اور کھجور کی چھال کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور آپ کے نیچے کھجور کی چھال کی گدی تھی۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٧٨، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٣١٧٤)
القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 75
[…] تفسیر […]