أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوۡا رَبَّنَا مَنۡ قَدَّمَ لَنَا هٰذَا فَزِدۡهُ عَذَابًا ضِعۡفًا فِى النَّارِ ۞

ترجمہ:

وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! جس نے ہمارے لیے اس عذاب کو مہیا کیا ہے اس کے عذاب کو دوزخ میں دگنا کرکے زیادہ کردے

ص ٓ: ٦١ میں فرمایا : ” وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! جس نے ہمارے لیے اس عذاب کو مہیا کیا ہے اس کے عذاب کو دوزخ میں دگنا کرکے زیادہ کردے “ کافروں کے پیروکار کہیں گے کہ چونکہ یہ سردار ہمارے کفر کا سبب ہیں، ہم نے ان کے کہنے کی وجہ سے کفر اور شرک کیا تھا لہٰذا تو ان کے عذاب کو دگنا کردے، اس کی نظیر یہ آیت ہے : وقالو ربنا انا اطعنا سادتنا وکبراء نافاضلونا الشبیلا ربنا اتھم ضعفین من العذاب والعنھم لعنا کبیر (الاحزاب : ٦٨۔ ٦٧ )

اور (پیروکار) کہیں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی پیروی کی جنہوں نے ہمیں گمراہ کردیا اے ہمارے رب ! تو انہیں دوگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ان سرداروں پر جو عذاب نازل کیا جائے گا اگر وہ ان کے جرم کے مطابق ہو تو دگنا نہیں ہوگا اور اگر ان کے جرم سے زائد ہو تو پھر یہ ظلم ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے سرداروں کو ایک عذاب تو ان کے کفر اور شرک کا ہوگا اور اس عذاب میں ان کے پیروکار بھی ان کے شریک ہوں گے اور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا ہوگا جس میں ان کے پیروکار شریک نہیں ہوں گے۔ اس اعتبار سے ان کے سرداروں کو پیروکاروں کی بہ نسبت دوگنا عذاب ہوگا۔ حدیث میں ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اسلام میں کسی ایک طریقہ کو ایجاد کیا اس کو اس نیکی کا اجر ملے گا اور جو اس کے بعد اس ایک طریقہ پر عمل کرے گا اس کی نیکی کا بھی اجر ملے گا اور ان کی نیکیوں میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو ایجاد کیا خود اس کو بھی اس برے طریقہ کا گناہ ہوگا اور جو بعد میں اس برے طریقہ پر عمل کریں گے ان کی بُرائی کا بھی اس کو گناہ ہوگا اور ان کے گناہوں میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٥٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٣، جامع المسانید والسنن مسند جریر بن عبداللہ رقم الحدیث : ١٤٧٢)

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 61