أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ مَاۤ اَسۡئَــلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُتَكَلِّفِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے کہ میں تم سے اس پیغام کو پہنچانے پر کوئی معاوضہ طالب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

آپ کہیے کہ میں تم سے اس پیغام کو پہنچانے پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں یہ (قرآن) تو صرف تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے اور تم اس کو خبر کو ضرور کچھ عرصہ بعد جان لو گے (ص ٓ: ٨٨۔ ٨٦)

تکلف اور متکلفین کا معنی

اس آیت میں متکلفین کا لفظ ہے، یہ تکلف کا اس فاعل ہے، کسی مشکل کو ناگواری کے ساتھ برداشت کرنے کو تکلف کہتے ہیں جب کہ اس ناگوار کام کو کرتے وقت چہرہ پر بدنمائی کے آثار ظاہر ہوں، پھر اس کی دو قسمیں ہیں :

(١) کسی مشکل کام کو کرتے وقت چہرے پر بناوٹی دشواری اور ناگواری کے آثار نمایاں کرلینا، تکلف کی یہ قسم مذموم ہے اور اس آیت میں متکلفین کی نفی سے یہی معنی مراد ہے یعنی میں تصنع اور بناوٹ کرنے والا نہیں ہوں۔

(٢) بلند حوصلہ اور وسعت ظرف کی بناء پر کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے دشواری اٹھانا اور اس کام کی دشواری کی وجہ سے غیر اختیاری طور پر چہرے سے تکلیف اور مشقت اٹھانے کے آثار ظاہر ہوں تو یہ تکلف محمود ہے۔ بندے جب اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاتے ہیں تو اس کی مشقت کے آثار ان کے چہروں سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہ چیز قابل تعریف ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٥٦٥، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ ١٤١٨ ھ)

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشقت اٹھا کر جو پیغام پہنچایا اس کی تفصیل

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتے تھے کہ وہ یہ مانیں کہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہ واحد لاشریک ہے، اس کی اولاد نہیں ہے، نہ اس کی بیوی ہے، وہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، وہ ازلی ابدی ہے، وہ حیات، کلام، علم، قدرت، سمع، بصر اور ارادہ سے متصف ہے اور اس کی دیگر صفات کمالیہ میں سے رحمت، مغفرت، عطا اور نوال ہے اور آپ اس کی دعوت دیتے تھے کہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام مانو اور اس کے احکام پر عمل کرو، بتوں کی عبادت نہ کرو، وہ تم کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، فرشتوں کی اور نبیوں اور رسولوں کی تعظیم کرو، قیامت پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے، حساب، کتاب، سزا اور جراء اور جنت اور دوزخ پر ایمان لائو، نیک عمل کرو، نماز پڑھو، رمضان کے روزے رکھو، بہ قدر نصاب مال ہو تو زکوٰۃ ادا کرو، استطاعت ہو تو حج بیت اللہ کرو، پاک دامنی برقرار رکھو، جھوٹ، ظلم، شراب نوشی اور دوسروں کا مال کھانے کے قریب نہ جائو، دنیا سے بےرغبتی کرو اور آخرت میں رغبت کرو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پیغام کو سناتے تھے، اس میں کوئی بناوٹ نہیں تھی، کوئی تصنع نہیں تھا، کوئی دکھاوا نہیں تھا، ہر عقل سلیم اور طبع مستقیم اس بات کی شہادت دے گی کہ یہ پیغام صحیح اور برحق تھا، آپ اس پیغام کے پہنچانے پر لوگوں سے کسی اجر کے طالب نہیں تھے، محض اللہ کا فرض مجھ کر اس پیغام کو اخلاص کے ساتھ پہنچا رہے تھے اور اس پیغام کے پہنچانے میں آپ کو جو مشکلات پیش آرہی تھیں اور لوگ جو آپ کو اذیتیں پہنچا رہے تھے، ان سب کو آپ خندہ پیشانی سے برداشت کررہے تھے، کبھی آپ کی زبان پر حرف شکایت نہیں آتا تھا، ماتھے پر شکن نہیں آتی تھی اور چہرے سے ناگواری کا اظہار نہیں ہوتا تھا، بعض اوقات انسان سچائی کی راہ میں اخلاص سے مشکلات برداشت کرتا ہے، زبان سے کچھ نہیں کہتا، لیکن اس کے چہرے سے غیر اختیاری طور پر دکھ اور پریشانی کا اظہار ہوجاتا ہے، لیکن آپ تسلیم ورضا کے ایسے پیکر تھے کہ غیر اختیاری طور پر بھی آپ کے چہرے سے ناگواری کا اظہار نہیں ہوتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کہیے کہ میں تم سے اس پیغام کے پہنچانے پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔

تکلف اور تصنع کرنے کی مذمت میں احادیث

مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے، اسی دوران ایک شخص نے آکر کہا : اے ابو عبدالرحمان ! کندہ کے دروازوں پر ایک قصہ گو بیان کررہا ہے اور اس کا یہ زعم ہے کہ قرآن مجید میں جو دخان (دھویں) کی آیت ہے، وہ دھواں آنے والا ہے اور وہ کفار کے سانسوں کو روک لے گا اور مسلمانوں کو اس سے صرف زکام جیسی کیفیت ہوگی، حضرت عبداللہ بن مسعود غصہ سے اٹھ کر بیٹھ گئے، انہوں نے کہا : اے لوگوں ! اللہ سے ڈرو، تم میں سے جس شخص کو جس چیز کا علم ہو وہ اس کو بیان کرے اور جس کو علم نہ ہو وہ کہے ” اللہ زیادہ جاننے والا ہے “ کیونکہ علم کی یہی دلیل ہے کہ جس کو کسی چیز کا علم نہ ہو وہ کہے : ” اللہ زیادہ جاننے والا ہے “۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا :

قل ما اسئلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین (ص ٓ: ٨٦) آپ کہیے کہ میں تم سے اس پیغام کو پہنچانے پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٩٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٩٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٤) ارطاۃ منذر بیان کرتے ہیں کہ تکلف کرنے والے کی تین نشانیاں ہیں : وہ ان چیزوں میں کلام کرتا ہے جن کا اس کو علم نہ ہو، جو اس سے بڑے درجہ کا ہو اس سے جھگڑا کرتا ہے، جن چیزوں کو وہ لے نہیں سکتا ان کو دینے کی کوشش کرتا ہے۔ (شعب الیمان رقم الحدیث : ٥٠٦٤) شقیق بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک شاگرد حضرت سلمان (رض) کے پاس گئے، انہوں نے ہم کو روٹی اور نمک پیش کیا اور کہا : اگر ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکلف سے منع نہ کیا ہوتا تو میں تمہارے لیے تکلف کرتا۔ (المستدرک ج ٤ ص ١٢٣ قدیم، المستدرک ج، رقم الحدیث : ٧١٤٦، الدرالمنثور ج ٧ ص ١٨٠)

دوسری روایت میں ہے، شقیق بیان کرتے ہیں کہ میرے شاگرد نے حضرت سلیمان (رض) سے کہا : کاش ! آپ ہمارے لیے ایسا نمک لاتے جس میں پودینا ہوتا، پھر حضرت سلیمان (رض) نے بقال (سبزی فروش) کے پاس اپنا لوٹا رہن رکھوا کر پودینا منگوالیا اور نمک میں وہ پودینا ڈالا، جب ہم نے کھانا کھالیا تو میں نے اپنے شاگرد سے کہا : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو اپنے رزق پر قناعت کرنے والا بنادیا، تب حضرت سلیمان (رض) نے فرمایا : اگر تم اللہ کے رزق قر قناعت کرنے والے ہوتے تو میرا لوٹا رہن نہ رکھا ہوا ہوتا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٥٩٨، ج ٧ ص ٩٤) حضرت سلیمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی شخص مہمان کے لیے اپنی قدرت سے زیادہ کا تکلف نہ کرے۔ (شعب الایمان : ٩٥٩٩) حضرت سلیمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم مہمان کے لیے اس چیز کا تکلف نہ کریں جو ہمارے پاس نہیں ہے اور جو چیز ہمارے پاس موجود ہو اس کو پیش کردیں۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٦٠١) حضرت ابوبرزہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تمہیں اہل دوزخ کی خبر نہ دوں ؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : یہ جھوٹ بولنے والے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے والے ہیں اور تکلف کرنے والے ہیں۔ (الکامل لابن عددی ج ٤ ص ١٣٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١٦، المستدرک ج ١ ص ٦١، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٩٧) حافظ سیوطی بیان کرتے ہیں کہ امام محمد بن سعد نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا : جش شخص نے کوئی علم حاصل کیا ہے وہ اس علم کی تعلیم دے دے اور وہ بات نہ کہے جس کا اسے علم نہ ہو ورنہ وہ متکلفین میں سے ہوجائے گا اور دین سے نکل جائے گا۔ (الدرالمنثور ج ٧ ص ١٨١، داراحیاء التراث العربی، بیروت ١٤٢١ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 86