ملالہ یوسف زئی نوبل سے vogue کے کور پیج تک
ملالہ یوسف زئی نوبل سے vogue کے کور پیج تک.
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف
چئیرمین :تحریک علمائے بندیل کھنڈ
رکن: روشن مستقبل دہلی
امریکا کی مشہور، ماہانہ فیشن میگزین vogue (1892 سے شائع ہو رہی ہے) جو قریب 21 ملکوں سے شائع ہوتی ہے اس نے اپنے برٹین سے شائع ہونے والے جولائی 2021 کے شمارے کے لیے نوبل انعام یافتہ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کا انتخاب کیا ہے، میگزین نے کئی ٹوئٹ کئے ہیں جس میں ملالہ کی مختلف تصاویر شائع کیں ہیں اور ساتھ ہی کافی تعریف بھی کی ہے، اس میگزین کے جتنے بھی شمارے آپ دیکھیں گے، فیشن، ماڈلنگ، ایکٹنگ کے ماہرین کی نیم یا قریب عریاں تصاویر شائع کی ہیں، حال ہی میں ملالہ نے بھی فوٹو شوٹ کرایا ہے.
ملالہ اس میگزین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹوئٹ کرتی ہیں
I know the power that a young girl carries in her heart when she has a vision and a mission – and I hope that every girl who sees this cover will know that she can change the world. Thank you @BritishVogue.
میں اس طاقت کو جانتی ہوں جو ایک جوان لڑکی کے دل میں ہوتی ہے – جب اس کے پاس ایک مقصد اور ایک مشن ہوتا ہے – اور مجھے امید ہے کہ ہر وہ لڑکی جو اس “کَوَر” کو دیکھے گی وہ جان لے گی کہ وہ دنیا کو تبدیل کرسکتی ہے۔ (شکریہ برٹش ووگ)
کچھ ملالہ کے بارے میں.
ملالہ یوسف زئی 12 جولائی سنہ 1997 میں پاکستان کی وادی سوات میں پیدا ہوئ ۔ سنہ 2012 میں طالبان کی فائرنگ کی زد میں آئی اسے گولی لگی لیکن بچ گئی، اس کے بعد وہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدو جہد کی علامت بن گئی۔
سنہ 2013 میں ملالہ اور ان کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے لڑکیوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ملالہ فاؤنڈیشن قائم کیا ۔ ملالہ یوسف زئی 10 دسمبر 2014 میں دنیا کی سب سے کم سن نوبل امن انعام جیتنے والی شخصیت بنی تھیں۔ ملالہ اب تک نوبیل امن انعام، سخاروف اور ورلڈ چلڈرن پرائز سمیت 40 سے زیادہ بین الاقوامی اعزازات حاصل کر چکی ہیں۔ 4 جنوری 2021 کی خبر کے مطابق ملالہ اب پاکستان کے علاوہ افریقا، شام اور دیگر خطوں کے تعلیم سے محروم بچوں کی بھی آواز بن گئی ہیں۔
امریکا نے ملالہ اسکالر شپ بھی جاری کی ہے جس سے امریکا میں مقیم پاکستانی لڑکیوں کو تعلیم کے حصول میں آسانی ہوگی، 17 اگست 2020 کو کینیڈا کے ایک صوبے “انٹاریو” کے “برامپٹن” میں چھوٹے بچوں کے لیے قائم کیے گئے ایک نئے سرکاری اسکول کا نام امن کے لیے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی سے منسوب کیا گیا ہے.
امریکا، انگلینڈ اتنے مہربان کیوں؟
عراق، افغانستان، شام، لیبیا، مصر جیسے ممالک کو خون سے نہلانے والے یہ دونوں ملک ایک مسلم لڑکی پر اس قدر مہربان ہوتے ہیں کہ پاکستان سے لے جا کر انگلینڈ میں رکھتے ہیں، سارے خرچ اٹھاتے ہیں، نوبل انعام کے لیے منتخب بھی کرتے ہیں اور ہزاروں مہربانیاں کرتے ہیں کیا یہ بغیر کسی مطلب کے ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں! ہزاروں، بل کہ لاکھوں ملالاؤں کو ڈرون، جنگی طیاروں اور قسم قسم کے ہتھیاروں سے اس طرح ختم کرنا کہ انکے اعضا بھی جنازہ کے لیے نہ مل سکیں، ہزاروں بچوں کو جنھوں نے ابھی ٹھیک سے بولنا بھی نہ سیکھا تھا انھیں موت کی نیند سلادینا، ہنستے مسکراتے ملک کے ملک تباہ کردینے والے اتنے مہربان بلا سبب تو نہیں ہو سکتے……ع کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے.
……. پھر ایک ملالہ کو لے جاکر سیکولرازم کی گھٹی پلانا، پھر فیشن میگزین میں چھاپ کر یہ تاثر دینا کہ ہم مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے، ہم ان کی زندگیوں کو سنوارتے ہیں، جہاں یہ اپنی شبیہ کو سونے کے پانی سے چمک دار بنانا چاہتے ہیں وہیں یہ بھی تاثر دینا چاہتے ہیں کہ مسلمان بچیوں کو ملالہ کی طرح بن کر، اپنے مذہب سے بیزار ہو کر عریانیت، لادینیت کی ہر فیلڈ میں قسمت آزمانا چاہیے.
سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے
امریکا، انگلینڈ نے مسلم ممالک کو جس قدر تہس نہس کیا ہے اس کے بعد ان سے کسی بھلائی کی امید ایسی ہی جیسے گدھے کے سر میں سینگ اگنے کی امید، در اصل یہ سافٹ کلنگ ہے، پہلے تو زندگی چھین لو پھر جو زندگیاں بچ جائیں ان کو دوسرے طریقے سے استعمال کرو، دنیاوی سبز باغ دکھا کر ان کے ذریعے لاکھوں مسلم بچیوں کو ملالہ کی راہ پر ڈال دو، ان پر چند پیسے خرچ کرکے جھوٹی آزادی کا نعرہ دے کر قوم مسلم کو اندر اور باہر دونوں طرح سے کمزور کرنا ہی ان کا مقصد ہے.
ڈاکٹر اقبال نے اسی تھیوری کے لیے کہا تھا
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کے موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو (صلی اللہ علیہ وسلم)
ہم کیا کریں؟
آج ملالہ ایک آئیڈیل ہے اور یہ آئیڈیل امریکا، انگلینڈ بیسڈ ہے اس لیے جب ہمارے بچے اس طرح کے لوگوں کو دیکھ کر اس طرف راغب ہو رہے ہوں تو ہمیں اپنے بچوں کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی ضرورت ہے، جو رخ وہ دیکھ رہے ہیں پروپیگنڈہ ہے اور جو رخ ہم دکھا رہے ہیں وہ حقیقت ہے، پروپیگنڈہ تو پروپیگنڈا ہی ہوتا ہے اس کی اس قدر ململع سازی ہوتی ہے کہ کچھ وقت کے لیے اصل سے بھی دھیان بھٹک جاتا ہے مگر حققیت پسند لوگ پروپیگنڈہ کے پیچھے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں احساس ہو جاتا ہے کہ “ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی” پروپیگنڈہ أور جعل سازی کے اس دور میں ہمیں اپنے بچوں، بھائیوں، عزیز و اقارب کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارے ہی آس پاس ایک ایسی دنیا نہ بسے جسے ہم، ہمارا مذہب بالکل پسند نہیں کرتے اور نہ ہی وہ انسانیت کے لئے مفید ہے.
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہاے مسافر دم ميں نہ آنا مت کیسی مت والی ہے (اعلی حضرت)
2/6/2021