أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا كَانَ لِىَ مِنۡ عِلۡمٍۢ بِالۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰٓى اِذۡ يَخۡتَصِمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

جب ملائکہ مقربین بحث کررہے تھے تو مجھے (اس کا) کوئی علم نہ تھا

” الملاء الاعلیٰ “ سے مراد وہ فرشتے ہیں جن سے تخلیق آدم کے متعلق مشورہ لیا گیا

ص ٓ: ٧٠۔ ٦٩ میں فرمایا : ”(آپ کہیے :) جب ملائکہ مقربین بحث کررہے تھے تو مجھے (اس کا) کوئی علم نہ تھا میری طرف صرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ میں صاف صاف عذاب سے ڈرانے والا ہوں “

اس آیت میں ” الملاء الاعلیٰ “ کا لفظ ہے، املاء کا معنی ہے : وہ جماعت جو کسی ایک نظریہ اور ایک رائے پر متفق ہوجائے اور وہ جماعت دیکھنے والوں کے نزدیک عظیم ہو، جب وہ اس جماعت کو دیکھیں تو سیر ہو کر اور نظر بھر کر دیکھیں۔ (المفردات ج ٢ ص ٦١٢) اور ” الملاء الاعلیٰ “ کا معنی ہے : بہت بلند اور بہت عظیم جماعت اور اس کا مصداق ہے فرشتوں کی عظیم جماعت اور ملائکہ مقربین۔ یہ ملائکہ مقربین کس چیز میں اور کس سے بحث کررہے تھے، اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بحث کررہے تھے کہ آدم کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے اور اس کو پیدا کرنے کا کیا فائدہ ہے، تیری تسبیح اور تحمید کرنے کے لیے ہم کافی ہیں اور رہا یہ آدم تو اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زمین میں فتنہ و فساد کریں گے اور آپس میں ایک دوسرے کا خون بہائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا : میں ان چیزوں کو جانتا ہوں جن کو تم نہیں جانتے۔ امام رازی نے اللہ تعالیٰ کے جواب کی تقریر اس طرح کی ہے کہ عقلی اعتبار سے مخلوقات کی چار اقسام ہیں :

(١) وہ مخلوق جس کو عقل اور حکمت حاصل ہو اور اس کا نفس شہوانی نہ ہو اور نہ اس میں قوت غضبیہ ہو، یہ فرشتے ہیں۔

(٢) وہ مخلوق جس میں شہوت اور غضب کی قوت ہو اور اس میں عقل اور حکمت نہ ہو، یہ بہائم اور حیوانات ہیں۔

(٣) وہ مخلوق جس میں نہ عقل اور حکمت ہو اور نہ شہوت اور غضب ہو، یہ جمادات ہیں۔

(٤) وہ مخلوق جس میں عل اور حکمت بھی ہو اور شہوت اور غضب بھی ہو اور یہ انسان اور بسر ہیں۔

انسان کی تخلیق سے مقصود ایک دوسرے کی اندھی تقلید نہیں ہے، نہ تکبر اور سرکشی ہے۔ کیونکہ یہ حیوانات اور درندوں کی صفات ہیں، بلکہ اس کی تخلیق سے مقصود علم اور حکمت کے تقاضوں کا ظہور ہے اور انسان کی سرشت میں اگرچہ شہوت رکھی گئی ہے جس کے نتیجہ میں فساد کا ظہور ہوتا ہے اور اس کی سرشت میں غضب کو بھی رکھا جس کی وجہ سے وہ خون ریزی کرتا ہے، لیکن اس کی فطرت میں عقل بھی رکھی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اس کی اطاعت اور عبادت کرنے کی محرک ہے، گویا اللہ تعالیٰ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اے فرشتو ! تم نے انسان کی شہوت اور غضب کے تقاضوں کو دیکھا اور میں نے انسان میں جو عقل اور حکمت رکھی ہے تم نے اس کے تقاضوں کو نہیں دیکھا۔ میری اطاعت اور عبادت اور تسبیح اور تقدیس تم بھی کرتے ہو لیکن تمہارے خمیر میں اس سے کوئی مانع اور مزاحم نہیں ہے، سو تمہاری اطاعت اور عبادت سے اس کی عبادت اور اطاعت زیادہ قابل قدر ہے جس کی ضمیر میں اطاعت اور عبادت سے مانع اور مزاحم بھی ہے۔ حسب ذیل مفسرین نے یہ بیان کیا ہے ” الملاء الاعلیٰ “ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو تخلیق آدم کے متعلق اللہ تعالیٰ سے بحث کررہے تھے۔ امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت (ص ٓ: ٦٩) کی تفسیر میں فرمایا : الملاء الاعلیٰ سے مراد وہ فرشتے ہیں جن سے حضرت آدمی (علیہ السلام) کی تخلیق کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مشورہ لیا تو انہوں نے اس میں بحث کی، ان کی رائے یہ تھی کہ آدم کو پیدا نہ کیا جائے۔ سدی اور قتادہ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔ (جامع البیان جز ٢٣ ص ٢١٩، رقم الحدیث : ٢٣٠٩٩۔ ٢٣٠٩٨۔ ٢٣٠٩٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ) امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ، علامہ ثعلبی متوفی ٤٢٧ ھ، علامہ ماوردی متوفی ٤٥٠، علامہ ابن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ اور علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ غیرھم نے بھی اس آیت کی تفسیر میں اس روایت کو بیان کیا ہے۔

” الملاء الاعلیٰ “ کی دوسری تفسیر کہ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو گناہوں کے کفارے میں بحث کررہے تھے

الملاء الاعلیٰ کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اس چیز میں بحث کررہے تھے کہ وہ کون سے نیک کام ہیں جو گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج راب میرے پاس میرا رب تبارک وتعالیٰ بہت حسین صورت میں آیا، حضرت ابن عباس نے فرمایا : یعنی خواب میں، پس فرمایا : محمد ! کیا تم کو معلوم ہے کہ الملاء الاعلیٰ (ملائکہ مقربین) کس چیز میں بحث کررہے ہیں ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : پھر اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا، حتیٰ کہ میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی، پھر مجھے ان تمام چیزوں کا علم ہوگیا جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمینوں میں ہیں، فرمایا : یا محمد ! کیا آپ جانتے ہیں کہ الملاء الاعلیٰ کس چیز میں بحث کررہے ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! کفارات میں، اور نماز کے بعد مسجد میں ٹھہرنا کفارات ہیں اور زیادہ قدم چل کر مسجد میں جانا اور تکلیف اور مشقت کے وقت کامل وضو کرنا کفارات ہیں اور جس نے یہ کام کیے وہ خیریت سے زندہ رہے گا اور خیریت سے مرے گا اور وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجائے گا جس دن وہ اپنی ماں سے پیدا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یا محمد ! جب تم نماز پڑھو تو یہ دعا کرو : اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے اور برائیوں کے ترک کرنے کا اور مساکین سے محبت کرنے کا سوال کرتا ہوں اور جب تو اپنے بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو میری روح کو اپنی طرف اس حال میں قبض کرنا کہ وہ فتنہ میں مبتلا نہ ہو اور فرمایا : بلند درجات ان کاموں سے حاصل ہوتے ہیں : سلام کو پھیلانا، کھانا کھلانا اور رات کو اٹھ کر اس وقت نماز پڑھنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٣٣، تفسیر عبدالرزاق ج ٢ ص ١٦٩، مسند احمد ج ١ ص ٣٦٨، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٣٢٠، الشریعہ للاجری ص ٣٩٦، السنۃ لا بن ابی عاصم رقم الحدیث : ٤٦٩، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ١٣٥١) امام ترمذی نے اس حدیث کو ایک اور سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، اس میں مذکور ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس میرا رب بہت حسین صورت میں آیا، پس فرمایا : یا محمد ! میں نے کہا : میرے رب ! میں حاضر ہوں اور تیری اطاعت پر کمر بستہ ہوں، فرمایا : الملاء الاعلیٰ (ملائکہ مقربین) کس چیز میں بحث کررہے ہیں ؟ میں نے کہا : میرے رب ! مجھے معلوم نہیں، پھر اس نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا، میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی، پھر مجھے مشرق اور مغرب کے درمیان کی تمام چیزوں کا علم ہوگیا، پھر فرمایا : اے محمد ! میں نے کہا : میں تیرے سامنے حاضر ہوں اور تیری اطاعت پر کمر بستہ ہوں، فرمایا : الملاء الاعلیٰ کس چیز میں بحث کررہے ہیں ؟ میں نے کہا : درجات میں اور کفارات میں اور جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے جل کر جانے میں اور مشقت کے وقت کامل وضو کرنے میں اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں اور جو ان کاموں کی حفاظت کرے گا وہ خیریت سے زندہ رہے گا اور خیریت سے مرے گا اور وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا، جیسے اس دن وہ اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٣٤، السنۃ لابن ابی عاصم رقم الحدیث : ٤٦٩، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٦٠٨، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢١٧، الشریعہ للجری ص ٤٩٦، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ١٣٥١) امام ترمذی نے اس حدیث کو زیادہ تفصیل کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت کیا ہے : حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبح کی نماز کے لیے آنے میں کافی تاخیر ہوگئی، حتیٰ کے قریب تھا کہ ہم سورج کو دیکھ لیتے، پھر آپ جلدی جلدی تشریف لائے، پس نماز کی اقامت کہی گئی، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختصار کے ساتھ نماز پڑھائی، سلام پھیر نے کے بعد آپ نے ہم سے بلند آواز میں فرمایا : جس طرح بیٹھے ہو اسی طرح اپنی صفوں میں بیٹھے رہو، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کس وجہ سے مجھے نماز فجر کے لیے آنے میں تاخیر ہوگئی، میں رات کو اٹھا، میں نے وضو کیا اور جتنی نماز میرے مقدر میں تھی میں نے اتنی نماز پڑھی، پھر مجھے اونگھ آگئی تو اچانک میرے سامنے میرا رب تبارک وتعالیٰ نہایت حسین صورت میں تھا۔ پس فرمایا : یا محمد ! میں نے کہا : اے میرے رب ! میں حاضر ہوں، فرمایا : الملاء الاعلیٰ (ملائکہ مقربین) جس چیز میں بحث کررہے ہیں ؟ میں نے کہا : اے میرے رب ! مجھے معلوم نہیں، یہ مکالمہ تین بار ہوا، پھر میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا، حتیٰ کہ میں نے اس کے پوروں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی، پھر ہر چیز میرے لیے منکشف ہوگئی اور میں نے اس کو پہچان لیا، پس فرمایا : یا محمد ! میں نے کہا : لبیک اے میرے رب ! فرمایا : الملاء الا علیٰ کس چیز میں بحث کررہے ہیں ؟ میں نے کہا : کفارات میں، فرمایا : وہ کیا ہیں ؟ میں نے کہا : وہ جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے چل کر جانا ہے اور نمازوں کے بعد مساجد میں بیٹھنا ہے اور مشقت کے وقت کامل وضو کرنا ہے۔ فرمایا : پھر کس چیز میں کفارہ ہے ؟ میں نے کہا : کھانا کھلانے میں اور نرمی سے بات کرنے میں اور رات کو جب لوگ سوئے ہوں اس وقت نماز پڑھنے میں، پھر فرمایا : سوال کرو، تو میں نے کہا : اے اللہ ! میں تجھ سے نیک کام کرنے کا اور برے کاموں کے ترک کرنے کا اور مساکین سے محبت کرنے کا سوال کرتا ہوں اور یہ کہ تو میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما اور جب تو کسی قوم کو فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ فرمائے تو مجھے بغیر فتنہ میں ڈالے اٹھا لینا اور میں تجھ سے تیری محبت کا اور جو تجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی محبت کا اور جو عمل تیری محبت کے قریب کردے اس کی محبت کا سوال کرتا ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کلمات برحق ہیں، تم ان کو یاد کروخ، پھر ان کو پڑھائو۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے، میں نے امام محمد بن اسماعیل سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقمالحدیث : ٣٢٣٥، مسند احمد ج ٥ ص ٢٤٣، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢١٥٣، المعجم الکبیر ج ٢٠، رقم الحدیث : ٢١٦، الکامل لا بن عدی ج ٦ ص ٢٣٤٤، مسندالبزار رقم الحدیث : ٢٦٦٨، المستدرک ج ١ ص ٥٢١، شرح السنہ رقم الحدیث : ٩١٩) مفسرین میں سے الحسین بن مسعود البغوی متوفی ٥١٦ ھ، علامہ خازن متوفی ٧٢٥ ھ، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ اور قاضی شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ، نواب صدیق بن حسن بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ، وغیرھم نے بھی حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٧٧، لباب التاویل للخازن ج ٤ ص ٤٧، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٤٧، الدرالمنثور ج ٧ ص ١٧٦، فتح القدیر ج ٤ ص ٥٨٤، فتح البیان ج ٦ ص ٤١ )

اللہ تعالیٰ کی صورت اور اس کے ہاتھوں کی تفسیر میں متقدمین اور متاخرین کے نظریات

اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں اپنے رب عزوجل کو نہایت حسین صورت میں دیکھا، اس پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صورت کا کیا معنی ہے ؟ اس میں امام ابوحنیفہ اور دیگر متقدمین کا مذہب یہ ہے کہ ہم صورت میں کوئی تاویل نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی صورت سے مراد اس کی وہ صورت ہے جو اس کی شان کے لائق ہے اور مخلوق میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے، لیکن متاخرین نے جب دیکھا کہ مخالفین اسلام نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ صورت تو کسی جسم کی ہوتی ہے، اس سے لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کا جسم ہو اور جسم مرکب ہوتا ہے اور اپنے تحقق اور وجود میں اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے تو اللہ کی صورت ماننے سے اس کا محتاج ہونا لازم آئے گا تو متاخرین نے اس کے دو جواب دیئے : ایک جواب یہ ہے کہ حدیث میں جو ہے کہ میں نے اپنے رب کو نہایت حسین صورت میں دیکھا اس سے مراد اللہ عزوجل کی صورت نہیں ہے، بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی صورت ہے، یعنی جب میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا تو میری بہت حسین صورت تھی، دوسرا جواب یہ ہے کہ صورت کا معنی صفت ہے یعنی اس وقت اللہ تعالیٰ بہت حسین و جمیل صفت میں تھا، یعنی وہ حسن و جمال عطا کرنے والا تھا اور اکرام اور افضال کرنے والا تھا۔ اسی طرح اس حدیث میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا، متقدمین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو اس کی شان کے لائق ہے اور متاخرین کے نزدیک اس میں تاویل ہے اور ہاتھ سے مراد اس کی قوت اور اس کا جودوکرم اور اس کی عطا ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزوں کا علم دیاجانا

اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کلی عطا فرمایا اور تمام حقائق اشیاء پر آپ کو مطلع فرما دیا، کیونکہ بعض احادیث میں یہ الفاظ ہیں : پس میں نے آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزوں کو جان لیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٣٣) اور بعض میں یہ الفاظ ہیں : مجھے مشرق اور مغرب کے درمیان کی تمام چیزوں کا علم ہوگیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٣٤) اور بعض میں یہ الفاظ ہیں : پس ہر چیز میرے لیے منکشف ہوگی اور میں نے (ہر چیز کو) جان لیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٣٥) وجہ استدلال یہ ہے کہ پہلی دو حدیثوں میں لفظ ” ما “ ہے ” فعلمت مافی السموت وما فی الارض “ اور ” فعلمت مابین المشرق والمغرب “ اور تیسری حدیث میں لفظ ” کل “ ہے (فتجلی لی کل شیء وعرفت) اور ” ما “ اور ” کل “ کے الفاظ کی وضع عموم کے لیے کی گئی ہے اور ان کی عموم پر دلالت قطعی ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کی اس آیت میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کلی اور علم کے عموم پر دلیل ہے :

علمک ما لم تکن تعلم۔ (النساء ١١٣) آپ کو ان تمام چیزوں کا علم دے دیا جن کو آپ پہلے) نہیں جانتے تھے۔

اس آیت میں بھی لفظ ” ما “ ہے اور ” ما “ کی عموم پر قطعی دلالت ہے، مخالفین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے عموم پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آ کو علم کلی حاصل ہوتا تو پھر جب حضرت عائشہ (رض) پر حضرت صفوان بن معطل (رض) کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو آپ فوراً اس کا رد کردیتے، حالانکہ جب تک وحی نازل نہیں ہوئی تقریباً ایک ماہ تک آپ اس معاملہ میں پریشان اور غمگین رہے، اسی طرح جب ایک سفر میں حضرت عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا تو آپ اس کو تلاش نہ کراتے اور فوراً بتا دیتے کہ ہار فلاں جگہ پڑا ہوا ہے۔ ان کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام واقعات اخبار احاد سے ثابت ہیں جو ظنی ہیں اور ہمارا استدلال اس آیت سے ہے جو قطعی ہے اور اس آیت میں اور جن احادیث سے ہم نے استدلال کیا ہے ان میں لفظ ” ما “ ہے اور اس کا عموم قطعی ہے اور قطعی کے خلاف ظنی سے معارضہ کرنا باطل ہے۔

منکرین عموم علم رسالت کا آپ کے علم کلی پر اعتراض

ہم نے جن احادیث سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے علم کے عموم پر استدلال کیا ہے اس پر اعتراض کرتے ہوئے منکرین عموم علم رسالت یہ کہتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی پشت پر ہاتھ رکھا تو آپ کو سب چیزوں کا علم ہوگیا اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی پشت سے ہاتھ اٹھایا تو پھر وہ سب علم زائل ہوگیا۔ جیسے جب اندھیرے میں بجلی چمکے یا ٹارچ جلائی جائے تو ہم کو چیزیں دکھائی دیتی ہیں اور جب بجلی غائب ہوجائے یا ٹارچ بجھ جائے تو پھر اندھیرا ہوجاتا ہے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا، اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :

اعتراض مذکور کے جوابات

(١) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا ہے۔

وللاخرۃ خیرلک من الاولی (الضحیٰ : ٤) آپ کے بعد والی ساعت پہلے والی ساعت سے افضل اور بہتر ہے اور جب پہلی ساعت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزوں کا علم دے دیا گیا تو بعد والی ساعت میں اس سے زیادہ علم دیا جائے گا، اس سے کم علم ہونا اس آیت کے خلاف ہے۔

(٢) علم اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور نعمت کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ اس نعمت میں زیادتی فرماتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

واذ تاذن ربکم لئن شکرتم لاریدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید (ابراہیم : ٧) اور جب تمہارے رب نے تمہیں بتادیا ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بیشک میرا عذاب بہت سخت ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سید الشا کرین ہیں، کائنات میں سب سے زیادہ شکر ادا کرنے والے ہیں، اس لیے یہ تو ممکن ہے بلکہ واقع ہے کہ بعد کی ساعت میں آپ کو اور علم عطا کیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے کہ دیا ہوا علم بھی واپس لے لیا جائے جیسا کہ مخالفین کا قول ہے، کیونکہ یہ اس وقت ہوگا جب آپ شکر گزار نہ ہوں اور آپ سید الشاکرین ہیں۔

(٣) اللہ تعالیٰ فرمایا ہے : وقل رب زدنی علما (طٰہٰ : ١١٤) آپ یہ دعا کیجئے کہ اے میرے رب ! میرا علم زیادہ کر اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا مطلوب یہ ہے کہ آپ کے علم کو زیادہ کرے اور علم عطا فرما کر اس کو واپس لے لینا اس آیت اور اس مطلوب کے خلاف ہے۔

(٤) یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے جب آپ کی پشت سے ہاتھ اٹھا لیا تو آپ کا علم جاتارہا، ان احادیث کے صراحت کے خلاف ہے، کیونکہ ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ فرشتے کس چیز میں بحث کررہے ہیں اور اللہ کے ہاتھ رکھنے کے بعد آپ کو علم ہوگیا کہ فرشتے ان کاموں کے متعلق بحث کررہے ہیں جو گناہہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں اور آپ کا یہ علم برقرار رہا کیونکہ بعد میں آپ نے صحابہ کرام کو وہ کام بتائے جو گناہوں کا کفارہ ہیں۔

(٥) ان احادیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ کو آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزوں کا علم دیا گیا ہے، اب منکرین وہ حدیث بیان کریں جس میں یہ تصریح ہو کہ آپ سے یہ علم واپس لے لیا گیا۔

(٦) منکرین نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی پشت پر ہاتھ رکھا تو آپ کو علم ہوگیا اور جب آپ کی پشت سے ہاتھ اٹھایا تو آپ کا علم چلا گیا، ان کا یہ قول بالکل اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منافقین کا حال بیان فرمایا :

فلما اضاءت ماحولہ ذھب اللہ بنور ھم و ترکھم فی ظلمت لایبصرون (البقرہ : ١٧)

پس جب آگ نے ان کے ارد گرد کی چیزوں کو روشن کردیا، تو اللہ ان کے نور کو لے گیا اور ان کو ایسے اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ نہیں دیکھ سکتے منکرین عموم علم رسالت نے اپنے اس قول میں، جو آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چسپاں کیا ہے اور یہ بہت سخت جسارت ہے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری اپنی صحیح میں فرماتے ہیں : حضرت ابن عمر (رض) خوارج کو اللہ کی بدترین مخلوق قرار دیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ جو آیات کفار کے متعلق نازل ہوئی ہیں یہ ان کو مسلمانوں پر منطبق کرتے ہیں۔

(صحیح البخاری باب قتل الخوارج ص ٤٦٢، دارارقم بیرو، صحیح البخاری ج ٢ ص ١٠٢٤، اصح المطابع، کراچی)

خوارج تو صرف کفار کی آیات کو مؤمنون پر منطبق کرتے تھے تو ان کا کیا درجہ ہوگا جو منافقین کی آیات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر منطبق کریں۔

اگر آپ کو علم کلی دے دیا گیا تھا تو پھر بعد میں قرآن مجید کیوں نازل ہوتا رہا ؟

ہم نے النساء : ١١٣ (علمک مالم تکن تعلم) سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کلی پر استدلال کیا ہے، اس پر اعتراض کرتے ہوئے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ اگر اس آیت کا یہ معنی ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ بھی نہیں جانتے تھے اللہ تعالیٰ نے وہ سب آپ کو بتلا دیا اور آپ کو علم کلی حاصل ہوگیا اور تمام احکام شرعیہ آپ کو معلوم ہوگئے، تو چاہیے تھا کہ اس کے بعد مزید قرآن مجید نازل نہ ہوتا، کیونکہ آپ کو تمام احکام شرعیہ معلوم ہوچکے تھے، پھر باقی قرآن مجید کیوں نازل ہوتا رہا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول صرف احکام شرعیہ کی تعلیم کے لیے ہوتا بلکہ اس کی اور بھی بہت حکمتیں ہوتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہیجانتے ہیں۔ دیکھئے قرآن مجید میں نماز کی فرضیت سے متعلق ” اقیموالصلوٰۃ “ بارہ مرتبہ نازل ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ ایک آیت کے نازل ہونے سے ہی نماز کی فرضیت کا علم ہوگیا تھا، اب باقی گیارہ مرتبہ یہ آیت، دیگر وجہ کی بنا پر نازل ہوئی ہے، اس لیے ” علمک مالم تکن تعلم “ کے نزول کے بعد باقی قرآن کا نازل ہونا اس کے منافی نہیں ہے کہ اس آیت سے علم کلی حاصل ہوگیا تھا۔ اس کی اور بھی بہت نظائر ہیں۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے عموم پر امت کے علم کے عموم سے معارضہ اور اس کا جواب

اس دلیل پر مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق النساء ١١٣ میں ہے کہ آپ کو ان تمام چیزوں کا علم دے دیا جن کو آپ (پہلے) جانتے تھے، اسی طرح عام مسلمانوں کے متعلق ہے :

ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون (البقرہ : ١٥١) (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں ان تمام باتوں کی تعلیم دیتے ہیں جن کو تم (پہلے) نہیں جانتے تھے پس اس سے یہ لازم آئے گا کہ امت کا علم، آپ کے علم کے مساوی ہوجائے۔

اس کا ایک جواب یہ ہے کہ یہاں پر ” ما “ عموم کے لیے نہیں ہے، بلکہ مجاز اً خصوص کے لیے ہے، یعنی آپ نے ان کو احکام شرعیہ اور بدقدر ضرورت غیب کی خبروں کی تعلیم دی اور اگر یہ کہا جائے کہ جب یہاں ” ما “ کو عموم پر محمول نہیں کیا تو النساء ١١٣ میں بھی اس کو اس عموم پر محمول نہ کیا جائے، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی قرینہ کی بناء پر کسی لفظ کو حقیقت پر محمول نہ کیا جائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر جگہ اس کو مجاز پر محمول کیا جائے، حدیث میں ہے :

لاصلوۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٧ )

جو شخص سورة فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کامل نہیں ہوتی۔

لا نفی جنس کے لیے آتا ہے، اس لیے اس حدیث کا معنی یہ ہونا چاہیے کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز بالکل نہیں ہوتی، لیکن چونکہ سورة فاتحہ کا نماز میں پڑھنا فرض نہیں ہے اس لیے اس حدیث میں لامجاز اً نفی کمال پر محمول ہے، یعنی سورة فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آئے گا کہ اب ہر جگہ لا نفی کمال کے لیے ہو حتیٰ کہ کوئی شخص یہ کہے کہ لا الہ الا اللہ میں بھی لا نفی کمال کے لیے ہے اور اس کا معنی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کامل خدا نہیں ہے اور ناقص خدا موجود ہیں، بلکہ یہاں پر اپنی اصل کے مطابق لا نفی جنس کیلیے ہے اور اس کا معنی ہے : اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔

اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ” یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون “ میں ضمیر خطاب ” کم “ جمع ہے اور ” مالم تکونوا تعلمون “ میں ما بھی عموم کے لیے ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جب جمع کے مقابلہ میں جمع ہو تو احاد کی تقسیم احاد کی طرف ہوتی ہے۔ جیسے عرب کہتے ہیں : لبس القوم ثیابھم، قوم نے اپنے کپڑے پہن لیے، اسی طرح اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ نے تمام امت کو مجموعی احکام شرعیہ سکھا دیئے اور النساء : ١١٣ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تنہا آپ کو تمام چیزوں کا علم عطا فرمادیا، اس سے امت کی آپ کے ساتھ مساوات لازم نہیں آتی۔

اس جواب کی زیادہ تفصیل ” مقام ولایت ونبوت “ ص ١٠٥۔ ٦٨ میں ملاحظہ فرمائیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 69