أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

هٰذَا‌ ؕ وَاِنَّ لِلطّٰغِيۡنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ ۞

ترجمہ:

یہ (مؤمنین کی جزاء ہے) اور بیشک سرکشوں کا ضرور بُرا ٹھکانہ ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

یہ (مؤمنین کی جزاء ہے) اور بیشک سرکشوں کا ضرور بُرا ٹھکانا ہے (یعنی) جہنم، جس میں وہ داخل ہوں گے، کیا ہی بُرا بچھونا ہے یہ ہے، پس وہ کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کو چکھیں اور اسی طرح کا دوسرا عذاب ہے (وہ دیگر دوزخیوں کو دیکھ کر کہیں گے :) یہ ایک اور گروہ ہے جو تمہارے ساتھ داخل ہورہا ہے، ان کو خوش آمدید نہ کہو، بیشک یہ دوزخ میں داخل ہونے والے ہیں (آنے والے کہیں گے :) بلکہ تم ہی وہ ہو جن کے لیے خوش آمدید نہیں ہے، تم نے ہی عذاب ہمارے لیے پیش کیا ہے، سو وہ کیسی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! جس نے ہمارے لیے اس عذاب کو مہیا کیا ہے اس کے عذاب کو دوزخ میں دگنا کرکے زیادہ کردے دوزخی کہیں گے : کیا سبب ہے کہ ہم کو وہ لوگ نظر نہیں آرہے جن کو ہم (دنیا میں) برے لوگوں میں شمار کرتے تھے کیا ہم نے ان کا ناحق مذاق اڑایا تھا یا ہماری نگاہیں ان سے ہٹ گئیں ہیں بیشک دوزخیوں کا یہ جھگڑا ضرور برحق ہے (ص ٓ: ٦٤۔ ٥٥ )

اس پر دلائل کہ طاغین سے مراد کفار ہیں نہ کہ اصحاب کبائر

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے متقین کے ثواب کا ذکر فرمایا تھا اور اس کے بعد اب ان آیتوں میں سرکش کافروں کا ذکر فرمایا ہے، تاکہ وعدے کے بعد وعید کا اور ترغیب کے بعد ترہیب کا ذکر ہو۔ ص ٓ: ٤٩ میں فرمایا تھا : متقین کے لیے حسن مآب (اچھا ٹھکانا) ہے اور صٓ: ٥٥ میں فرمایا : طاغین (سرکشوں) کے لیے شرمآب (بُرا ٹھکانا) ہے۔ معتزلہ نے کہا ہے کہ طاغین (سرکشوں) سے مراد اصحاب کبیرہ یعنی فساق ہیں، خواہ وہ مومن ہوں یا کافر، ان کے نزدیک جو مومن بغیر توبہ کے مرگیا وہ بھی کافر کی طرح دائماً دوزخ میں رہے گا اور جمہور اہل سنت نے کہا : طاغین سے مراد کفار ہیں اور اس پر حسب ذیل دلائل ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے طاغین کے ٹھکانے کے متعلق فرمایا ہے، وہ شرمآب ہے یعنی سب سے بُرا ٹھکانا اور سب سے بُرا ٹھکانا اس کا ہوگا جس کا جرم سب سے بڑا ہو اور سب سے بڑا جرم کافر کا ہے اور مومن مرتکب کبیرہ کا گناہ بہرحال کافر سے کم ہے۔

(٢) اللہ تعالیٰ نے طاغین کے متعلق فرمایا کہ وہ دوزخ میں کہیں گے کہ ہم کو یہاں وہ لوگ (مسلمان) نظر نہیں آرہے جن کا ہم دنیا میں مذاق اڑاتے تھے اور مومن مرتکب کبیرہ کسی مسلمان کا اس کے اسلام کی وجہ سے مذاق نہیں اڑاتا، مسلمانوں کا ان کے اسلام کی وجہ سے کفار ہی مذاق اڑاتے تھے، اس لیے طاغین سے مراد کفار ہی ہیں۔

(٣) طاغین صفت کا صیغہ ہے اور جب صفت کا بغیر کسی قید کے اطلاق کیا جائے تو اس سے کامل فرد مراد ہوتا ہے اور طغیان (سرکشی) میں کامل کافر ہوتا ہے۔ مومن مرتکب کبیرہ کے صرف عمل میں طغیان ہے، عقیدہ میں طغیان نہیں ہے اور کافر کے عقیدہ میں بھی طغیان ہے اور عمل میں بھی طغیان ہے، اس لیے طاغین سے مراد صرف کفار ہیں۔

(٤) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس آیت کا معنی اس طرح ہے : جن لوگوں نے اللہ کے احکام سے تجاوز کیا اور سرکشی کی اور اللہ کے رسولوں کی تکذیب کی ان کے لیے سب سے بُرا ٹھکانا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 55