أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

هٰذَا ۙ فَلۡيَذُوۡقُوۡهُ حَمِيۡمٌ وَّغَسَّاقٌ ۞

ترجمہ:

یہ ہے، پس وہ کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کو چکھیں

ص ٓ: ٥٧ میں فرمایا : ” یہ ہے، پس وہ کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کو چکھیں۔ “

” غساق “ کی تفسیر میں حدیث اور آثار

مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت میں بعض مقدم الفاظ کو مؤخر کردیا ہے اور بعض مؤخر الفاظ کو مقدم کردیا ہے، اصل عبارت اس طرح ہے یہ حمیم (کھولتا ہوا پانی ) ہے اور غساق (دوزخیوں کی پیپ) ہے۔ حمیم کا معنی ہے سخت گرم اور کھولتا ہوا پانی اور غساق اس کی ضد ہے، یعنی انتہائی ٹھنڈا پانی جس کی ٹھنڈک کی شدت کی وجہ سے اس پانی کو پیا نہ جاسکے، اس وجہ سے ص ٓ: ٥٧ میں فرمایا : ” اور اسی طرح کا دوسرا عذاب ہے۔ “ غساق کے متعلق یہ حدی ہے : حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر غساق کا ایک ڈول دنیا میں الٹ دیا جائے تو تمام دنیا بدبودار ہوجائے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٨٤، مسند احمد ج ٣ ص ٢٨، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ١٣٨١، المستدرک ج ٤ ص ٦٠٦، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعید الخدری رقم الحدیث : ٢٨٨)

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے غساق کی تفسیر میں حسب ذیل اقوال ذکر کیے ہیں :

(١) قتادہ نے کہا : دوزخیوں کی کھال اور ان کے گوشت کے درمیان سے جو پانی بہتا ہوا نکلے گا وہ غساق ہے۔

(٢) سدی نے کہا : دوزخیوں کی آنکھوں سے جو آنسو بہتے ہوئے نکلیں گے وہ غساق ہے۔

(٣) ابن زید نے کہا : دوزخیوں کی پیپ کو گرم کرکے ایک حوض میں جمع کردیا جائے گا اس کو غساق کہتے ہیں۔

(٤) حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا : وہ بہت گاڑھی پیپ ہے، اگر اس کا ایک قطرہ مغرب میں ڈال دیا جائے تو اس سے پورا مشرق بدبودار ہوجائے گا اور اگر اس کا ایک قطرہ مشرق میں ڈال دیا جائے تو اس سے پورا مغرب بدبودار ہوجائے گا۔

(٥) مجاہد نے کہا : وہ اتنا زیادہ ٹھنڈا پانی ہے کہ وہ ٹھنڈک کی وجہ سے پیا نہیں جاسکتا۔

(٦) عبداللہ بن بریدہ نے کہا : وہ سخت بدبودار پانی ہے۔

(٧) کعب نے کہا : وہ ہر زہریلے جانور مثلاً سانپ اور بچھو کا پسینہ ہے، یہ زہریلا پسینہ ایک چشمہ میں بہتا ہوا آئے گا۔ (جامع البیان جز ٢٣ ص ٢١٢۔ ٢٠٩، ملخصا، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 57