تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ-وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا(۱۰)

بڑی برکت والا ہے وہ کہ اگر چاہے تو تمہارے لیے بہت بہتر اس سے کردے (ف۲۱) جنّتیں جن کے نیچے نہریں بہیں اور کردے تمہارے لیے اُونچے اُونچے محل

(ف21)

یعنی جلد آپ کو اس خزانے اور باغ سے بہتر عطا فرماوے جو یہ کافِر کہتے ہیں ۔

بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ- وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ(۱۱)

بلکہ یہ تو قیامت کو جھٹلاتے ہیں اور جو قیامت کو جھٹلائے ہم نے اُس کے لیے تیار کر رکھی ہے بھڑکتی ہوئی آ گ

اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیْرًا(۱۲)

جب وہ انہیں دُور جگہ سے دیکھے گی (ف۲۲) تو سنیں گے اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا

(ف22)

ایک بر س کی راہ سے یا سو برس کی راہ سے دونوں قول ہیں اور آ گ کا دیکھنا کچھ بعید نہیں اللہ تعالٰی چاہے تو اس کو حیات و عقل اور رویت عطا فرمائے اور بعض مفسِّرین نے کہا کہ مراد ملائکۂ جہنّم کا دیکھنا ہے ۔

وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاؕ(۱۳)

اور جب اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے (ف۲۳) زنجیروں میں جکڑے ہوئے (ف۲۴) تو وہاں موت مانگیں گے (ف۲۵)

(ف23)

جو نہایت کرب و بے چینی پیدا کرنے والی ہو ۔

(ف24)

اس طرح کہ ان کے ہاتھ گردنوں سے ملا کر باندھ دیئے گئے ہوں یا اس طرح کہ ہر ہر کافِر اپنے اپنے شیطان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو ۔

(ف25)

اور واثبوراہ واثبوراہ کا شور مچائیں گے بایں معنٰی کہ ہائے اے موت آ جا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ پہلے جس شخص کو آتشی لباس پہنایا جائے گا وہ ابلیس ہے اور اس کی ذُرِّیَّت اس کے پیچھے ہوگی اور یہ سب موت موت پکارتے ہوں گے ان سے ۔

لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّ ادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا(۱۴)

فرمایا جائے گا آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں مانگو

قُلْ اَذٰلِكَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِیْرًا(۱۵)

(ف۲۶) تم فرماؤ کیا یہ (ف۲۷) بھلا یا وہ ہمیشگی کے باغ جس کا وعدہ ڈر والوں کو ہے وہ ان کا صلہ اور انجام ہے

(ف26)

کیونکہ تم طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کئے جاؤ گے ۔

(ف27)

عذاب اور اہوالِ جہنم جس کا ذکر کیا گیا ۔

لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ خٰلِدِیْنَؕ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔوْلًا(۱۶)

ان کے لیے وہاں من مانی مرادیں ہیں جن میں ہمیشہ رہیں گے تمہارے رب کے ذمہ وعدہ ہے مانگا ہوا (ف۲۸)

(ف28)

یعنی مانگنے کے لائق یا وہ جو مؤمنین نے دنیا میں یہ عرض کر کے مانگا ۔”رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیاحَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً ” یا یہ عرض کر کے ”رَبَّنَا وَ اٰتِنَامَا وَ عَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ ”

وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰۤؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَؕ(۱۷)

اور جس دن اکٹھا کرے گا اُنہیں (ف۲۹)اور جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں (ف۳۰) پھر ان معبودو ں سے فرمائے گا کیا تم نے گمراہ کردئیے یہ میرے بندے یا یہ خود ہی راہ بھولے (ف۳۱)

(ف29)

یعنی مشرکین کو ۔

(ف30)

یعنی ان کے باطل معبودوں کو خواہ ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول ۔ کلبی نے کہا کہ ان معبودوں سے بُت مراد ہیں انہیں اللہ تعالٰی گویائی دے گا ۔

(ف31)

اللہ تعالٰی حقیقتِ حال کا جاننے والا ہے اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ، یہ سوال مشرکین کو ذلیل کرنے کے لئے ہے کہ ان کے معبود انھیں جھٹلائیں تو ان کی حسرت و ذلّت اور زیادہ ہو ۔

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى نَسُوا الذِّكْرَۚ-وَ كَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا(۱۸)

وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو (ف۳۲)ہمیں سزاوار(حق) نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو مولٰی بنائیں (ف۳۳) لیکن تو نے اُنہیں اور اُن کے باپ داداؤں کو برتنے دیا (ف۳۴) یہاں تک کہ وہ تیری یاد بھول گئے اور یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے (ف۳۵)

(ف32)

اس سے کہ کوئی تیرا شریک ہو ۔

(ف33)

تو ہم دوسرے کو کیا تیرے غیر کے معبود بنانے کا حکم دے سکتے تھے ، ہم تیرے بندے ہیں ۔

(ف34)

اور انہیں اموال و اولاد و طولِ عمر و صحت و سلامت عنایت کی ۔

(ف35)

شقی ، بعد ازیں کُفّار سے فرمایا جائے گا ۔

فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَۙ-فَمَا تَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًاۚ-وَ مَنْ یَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیْرًا(۱۹)

تو اب معبودوں نے تمہاری بات جھٹلادی تو اب تم نہ عذاب پھیرسکو نہ اپنی مدد کرسکو اور تم میں جو ظالم ہے ہم اُسے بڑا عذاب چکھائیں گے

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِؕ-وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةًؕ-اَتَصْبِرُوْنَۚ-وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا۠(۲۰)

اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے (ف۳۶) اور ہم نے تم میں ایک کو دوسرے کی جانچ کیا ہے (ف۳۷) اور اے لوگو کیا تم صبر کرو گے (ف۳۸) اور اے محبوب تمہارا رب دیکھتا ہے (ف۳۹)

(ف36)

یہ کُفّار کے اس طعن کا جواب ہے جو انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرکیا تھا کہ وہ بازاروں میں چلتے ہیں کھانا کھاتے ہیں یہاں بتایا گیا کہ یہ امور منافیٔ نبوّت نہیں بلکہ یہ تمام انبیاء کی عادتِ مستمِرّہ تھی لہٰذا یہ طعن مَحض جہل و عناد ہے ۔

(ف37)

شانِ نُزول : شُرَفا جب اسلام لانے کا قصد کرتے تھے تو غُرَبا کو دیکھ کر یہ خیال کرتے کہ یہ ہم سے پہلے اسلام لا چکے ان کو ہم پر ایک فضیلت رہے گی بایں خیال وہ اسلام سے باز رہتے اور شُرَفا کے لئے غُرَبا آزمائش بن جاتے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابوجہل و ولید بن عقبہ اور عاص بن وائل سہمی اور نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی ان لوگوں نے حضرت ابو ذر و ابنِ مسعود و عمّار ابنِ یاسر و بلال وصہیب و عامر بن فہیرہ کو دیکھا کہ پہلے سے اسلام لائے ہیں تو غرور سے کہا کہ ہم بھی اسلام لے آئیں تو انہیں جیسے ہو جائیں گے تو ہم میں اور ان میں فرق کیا رہ جائے گا اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت فُقَراء مسلمین کی آزمائش میں نازِل ہوئی جن کا کُفّارِ قریش استہزاء کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِتّباع کرنے والے یہ لوگ ہیں جو ہمارے غلام اور ارذل ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازِل کی اور ان مؤمنین سے فرمایا ۔ (خازن)

(ف38)

اس فقر و شدت پر اور کُفّار کی اس بدگوئی پر ۔

(ف39)

اس کو جو صبر کرے اور اس کو جو بےصبری کرے ۔