اگر لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے بغیر نکاح پڑھے اور تحریر کئے رہنا چاہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟
Pایک صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی وہ کہنے لگے علامہ صاحب عقلی اعتبار سے آپ کو کیا اعتراض ہے اگر لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے بغیر نکاح پڑھے اور تحریر کئے رہنا چاہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟
میں نے عرض کیا مسئلہ مجھے نہیں؛ انہی کے مسئلہ کی فکر ہے..
اسی طرح جس طرح دنیا کے کسی بھی ادارے کو فکر ہوتی ہے..
پارلیمنٹ کو فکر قانون بنانے کی
سیکورٹی اداروں کو فکر لوگوں کو سیکیور کرنے کی
پولیس کو فکر قانون لاگو کرنے کی
کسی ادارے کو فکر تجارت بڑھانے اور خسارہ کم کرنے کی…
آپ سے پوچھا جائے کہ اداروں کو فکر کرنا چاہیے یا نہیں…
تو جواب یہ آیا کہ کیوں نہیں ان کو فکر کرنا چاہیے ملک و ملت کی سلامتی اور معاشی بحران سے بچنے اور معاشی ترقی کے لیے
میرے بھائی اسی طرح ایک مذہبی رہنما کو فکر ہے معاشرتی نظام کے بگاڑ کو بچانے کی
میں نے ایک اور چھوٹا سا سوال کیا وہ نکاح پڑھنا اور لکھنا کیوں نہیں چاہتے…
جواب یہ تھا کہ ان کا اعتماد ہے ایک دوسرے پر
میں یہ کہتا ہوں کہ کیا یہ واحد جگہ ہے اعتماد کی باقی مقامات پر ایسا کیوں نہیں..
میرا سوال ہے؛ تمام بے نکاح کے حمایتیوں سے
زمین کی رجسٹری کیوں ضروری ہے؛ جو رہے زمین اسی کی
مکان کی ملکیت لکھنا کیوں ضروری ہے
حتیٰ کہ کرایہ نامہ بھی لکھا جاتا ہے
گاڑی کا مالک کون ہے یہ بھی لکھا جاتا ہے
قرض کے لین دین کا معاہدہ کرنے والوں کے درمیان معاہدہ کی شرائط بھی لکھی جاتی ہیں
کتنی تنخواہ ملے گی یہ بھی لکھا جاتا ہے
حکومت کہتی ہے تو نے سال میں کتنا کمایا یہ بھی لکھا ہوا دکھاؤ
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہر جگہ پر بے اعتباری ہے….
مگر لڑکی اور لڑکے کے رشتے میں مکمل اعتبار ہے کیا یہ دوہرا معیار نہیں اگر دنیا کے لوگوں پر اتنا ہی اعتبار ہے….
تو کوئی پلاٹ بغیر رجسٹری کے خرید کر دکھاؤ..
گاڑی بغیر نام کے رکھ کر دیکھاؤ…
کرایہ نامہ لکھے بغیر مکان لے دے کر دکھاؤ…
کسی بینک سے بغیر لکھے قرضہ لے کر دکھاؤ…
پھر وہ صاحب کہنے لگے
اگر ان کے اس رشتے سے کوئی نقصان ہوا تو ان کا ہی ہوگا آپ کا تو نہیں؟
میں نے کہا پولیس کو کیا اعتراض ہے اگر میں روڈ پر تیز رفتاری سے گاڑی چلاؤں گاڑی میری ٹوٹے گی؛ نقصان بھی میرا ہوگا پولیس مجھے کیوں جرمانہ کرے…..؟
تو صاحب کا جواب تھا؛ ساتھ آپ کسی اور کا بھی نقصان کریں گے اور نظام کی خرابی کا باعث بھی بنیں گے….
میں یہ کہتا ہوں کہ ایسے لوگ شریعت کا مذاق اڑاتے ہی ہیں معاشرتی نظام کی خرابی کا باعث بھی ہیں اس لیے ان کی حمایت کسی طرح بھی نہیں کی جاسکتی
تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی