کیا عمار بن یاسر کا قاتل جہنم میں ہوگا ؟

اس روایت کی تحقیق اور شیعوں کے محکک ابو طالب کو ایک تنبیح!!

(قسط اول و دوم)


تحقیق : اسد الطحاوی الحنفی

سب سے پہلے بنیای فرق کو یاد رکھنا چاہیے!

یہ جو ہم صحابی رسولﷺ ابو غادیہ کا دفاع کر رہے ہیں اور اہلسنت کے محدثین و ناقدین کا رد کر رہے ہیں ان میں کسی کا یہ مطلب نہیں تھا کہ معاذاللہ عمار بن یاسر کو قتل کرنے والا صحابی ابو غادیہ جہنمی ہوگا ۔

کیونکہ یہ جو روایت مروی ہے کہ ابو غادیہ کا قاتل جہنم میں ہوگا یہ روایت کسی بھی صحیح میں وارد نہیں

بلکہ یہ روایت ہر طریق سے ضعیف و مردود ہے جیسا کہ آگے ثابت کرینگے

لیکن ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قاتل عمار بن یاسر پر نبی اکرمﷺ نے صرف باغی کا اطلاق کیا ہے وہ بھی فقط انہی کے لیے جن لوگوں نے عمار کو قتل کیا

اس دفاع کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عمار کا قاتل جہنمی ہے اس لیے شیعوں کے محکک نے اپنی پچھلی قسطوں میں صحابی رسولﷺ ابو غادیہ کے بارے جہنمی ہونے کی بد دعا کی تھی اور یہ گستاخی اس مخطئ نے اپنی رافضیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کی تھی جس پر اسکو مطلع کیا گیا اور جوابا ہم نے انکی گھٹیا حرکت کے مطابق ان سے بات کی تو انکو اخلاق یاد آگیا

سب سے پہلے یہ ثابت کرتے ہیں کہ جن روایات میں مروی ہے کہ عمار بن یاسر کا قتل جہنم میں ہوگا یہ روایت باطل اور غیر ثابت ہے

سب سے پہلے اس روایت کی تحقیق پیش کرتے ہیں

امام طبرانی اپنی ایک سند سے روایت کرتے ہیں :

حدثنا محمَّد بن عثمانَ بن أبي شَيبة، ثنا سُفيان بن وَكيع، ثنا محمَّد بن فُضَيل، عن مسلم الأَعْوَر، عن حَبَّةَ العُرَنيِّ (1) ، عن عبد الله بن عَمرو، قال: سمعتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يقول: «قَاتِلُ عَمَّارٍ وسَالِبُهُ في النَّارِ» .

اس سند میں محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ضعیف ہے

اور مسلم الاعور متروک ہے

[المعجم الکبیر الطبرانی ، برقم 14430]

ایک روایت امام حاکم نے پیش کی ہے جسکی سند و متن درج ذیل ہے :

حدثنا أبو عبد الله محمد بن يعقوب الحافظ، ثنا يحيى بن محمد بن يحيى، ثنا عبد الرحمن بن المبارك، ثنا المعتمر بن سليمان، عن أبيه، عن مجاهد، عن عبد الله بن عمرو، أن رجلين أتيا عمرو بن العاص يختصمان في دم عمار بن ياسر وسلبه، فقال عمرو: خليا عنه فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «اللهم أولعت قريش بعمار، إن قاتل عمار وسالبه في النار» وتفرد به عبد الرحمن بن المبارك وهو ثقة مأمون، عن معتمر، عن أبيه «.» فإن كان محفوظا فإنه صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه ” وإنما رواه الناس، عن معتمر، عن ليث، عن مجاهد

[ مستدرک الحاکم التعليق – من تلخيص الذهبي] 5661 – على شرط البخاري ومسلم

اس روایت کو امام حاکم و ذھبی نے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے

اور البانی و شعیب الارنووط نے بھی حسن قرار دیا ہے

اور اسکی سند بظاہر صحیح لگتی ہے

لیکن یہ روایت معلول ہے اور اس میں علت قادعہ ہے اور اصول حدیث کے مطابق جب روایت میں علت قادعہ ثابت ہو جائے تو اسکی توثیق و تحسین باطل ہو جاتی ہے جب تک علت دور نہ ہو

جیسا کہ امام حاکم کی سند میں

یحییٰ بن محمد اپنے شیخ عبدالرحمن بن مبارک سے اور وہ معتمر بن سلیمان اور وہ اپنے والد کے زریعے مجاہد سے بیان کررہے ہیں

اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ معتمر بن سلیمان اپنے والد سے مجاہد کے طریق سے روایت بیان کر رہے ہیں

جبکہ اسکی سند شاذ ہے کیونکہ اوثق راویان نے اسکو معتمر بن سلیمان سے لیث کے طریق سے مجاہد سے بیان کیا ہے

جسکے دلائل درج ذیل ہیں ؛

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ، ثنا ‘’مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، سَمِعْتُ لَيْثًا يُحَدِّثُ، عَنْ مُجَاهِدٍ’’،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَتَى عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ فِي أَمْرِ عَمَّارٍ وَسَلَبِهِ، فَقَالَ: خَلِّيَاهُ وَاتْرُكَاهُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ أُولِعَتْ قُرَيْشٌ بِعَمَّارٍ، قَاتِلُ عَمَّارٍ وَسَالِبُهُ فِي النَّارِ»

[ الآحاد والمثاني، أبو بكر بن أبي عاصم، (المتوفى: 287هـ)، برقم: 803]

حدثنا عبدُاللهِ بنُ محمدٍ قالَ: حدثني صالحُ بنُ حاتمٍ قالَ: حدثنا ”معتمرُ بنُ سليمانَ قال: سمعتُ ليثاً يحدثُ عن مجاهدٍ”،

عن عبدِاللهِ بنِ عَمرو / قالَ:جاءَ رجلانِ يختَصمانِ إلى عَمرو بنِ العاصِ في دمِ عمارٍ وسَلَبِهِ فقالَ عَمرو: اترُكاهُ، سمعتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يقولُ: «أُولعتْ قريشٌ بقتلِ عمارٍ، قاتِلُ عمارٍ وسالِبُهُ في النارِ

[المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص، برقم: 1042]

أَخْبَرَنَا الزَّاهِدُ أَبُو مَسْعُودٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي الْفَتْحِ الْمُؤَذِّنُ، إِجَازَةً , أنبا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْكِرْمَانِيُّ، أنبا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الصَّفَّارُ، وَأنا وَجِيهُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الشَّحَّامِيُّ.

ح وَأَنْبَأَتْنَا عَالِيًا زَيْنَبُ بِنْتُ أَحْمَدَ، عَنِ الضِّيَاءِ، أَنَّ أَنْجَبَ، عَنْ وَجِيهِ بْنِ أَحْمَدَ الصَّيْرَفِيِّ، أنبا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمَخْلَدِيُّ، أنبا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَرَ، ثنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ”ثنا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا لَيْثٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، ”

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَاتِلُ عَمَّارٍ وَسَالِبُهُ فِي النَّارِ» .

بِهِ خَوَاطِرُ مِنْ فِكْرِي، وَلَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ لَيِّنٌ

[الثالث من معجم الشيخة مريم، ابن حجر عسقلانی ، برقم: 15]

معلوم ہوا یہ روایت کی جو سند اصح ہے وہ معتمر بن سلیمان نے لیث بن ابی اسلم سے اور اس نے مجاہد سے بیان کی

جبکہ مستدرک کی سند میں معتمر بن سلیمان اپنے والد سے مجاہد کے طریق سے بیان کر رہے ہیں جو کہ شاذ سند ہے

یہی وجہ ہے کہ امام حاکم کو یہ کہنا پڑا کہ :

وتفرد به عبد الرحمن بن المبارك وهو ثقة مأمون، عن معتمر، عن أبيه «.» فإن كان محفوظا فإنه صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه ” وإنما رواه الناس، عن معتمر، عن ليث، عن مجاهد

[مستدرک الحاکم ایضا]

اور اس سند میں تفرد ہے عبد الرحمن بن مبارک کا لیکن وہ ثقہ مامون ہے معتمر بن سلیمان سے اپنے والد سے بیان کرنے میں

اگر یہ محفوظ ہے (یعنی اس میں کسی راوی سے خطاء نہیں ) تو یہ روایت شیخین کی شرط پر صحیح ہے

اور دیگر لوگوں ( راویان) نے اسکو معتمر عن لیث کے طریق سے مجاہد سے بیان کیا ہے

معلوم ہوا امام حاکم بھی اس روایت میں اگر کی شرط لگائی ہے اور امام حاکم کی یہ بات اصولا صحیح نہیں جب کہ وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت نے اسکو معتمر عن لیث عن مجاہد کے طریق سے بنایا ہے

اور جو سند انہوں نے بیان کی ہے اس سند میں انکے شیخ الشیخ یحییٰ بن محمد جو کہ صدوق درجے کے راوی ہیں اور یقینن یہ خطاء ان سے ہوئی ہے اور روایت میں عبدالرحمن بن المبارک پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے

اور جو اصل طریق ہے جس میں لیث ہے جو کہ ابن ابی اسلم ہے یہ بھی ضعیف و مضطرب الحدیث راوی ہے جیسا کہ اس پر جروحات مندرجہ ذیل ہیں :

• أبو أحمد الحاكم : ليس بالقوي

• أبو أحمد بن عدي الجرجاني : روى عنه شعبة والثوري وغيرهما من ثقات الناس ومع الضعف الذي فيه يكتب حديثه

• أبو بكر البيهقي : ضعيف، ليس بالقوي، ومرة وقال: غير محتج به

• أبو حاتم الرازي : يكتب حديثه، ضعيف الحديث، ومرة: لايشتغل به، مضطرب الحديث

• أبو حاتم بن حبان البستي : اختلط في آخر عمره، فكان يقلب الأسانيد ويرفع المراسيل، ويأتى عن الثقات بما ليس من حديثهم

• أبو حفص عمر بن شاهين : وهو به أعلم من غيره، لأنه من بلده، ولكن الكل أطلق عليه الاضطراب

• أبو زرعة الرازي : لا يشتغل به، هو مضطرب الحديث، ومرة: لين الحديث لا تقوم به الحجة عند أهل العلم بالحديث

• أبو عبد الله الحاكم النيسابوري : مجمع على سوء حفظه

• أحمد بن حنبل : مضطرب الحديث، ولكن حدث عنه الناس، ومرة: لا يفرح بحديثه، ومرة: يرفع أشياء لا يرفعها غيره فلذلك ضعفوه

• أحمد بن شعيب النسائي : ضعيف

• أحمد بن صالح الجيلي : جائز الحديث، ومرة: لا بأس به

• إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني : يضعف حديثه

• ابن حجر العسقلاني : صدوق اختلط جدا ولم يتميز حديثه فترك، وقال في المطالب العالية: ضعيف

• الحسن بن الصباح البزار : أصابه اختلاط فاضطرب حديثه، لا نعلم أحدا ترك حديثه، ولم يثبت عنه الاختلاط فبقى في حديثه لين

• الدارقطني : صاحب سنة، يخرج حديثه، ومرة: ليس بحافظ، ومرة: سيئ الحفظ، ومرة: ضعيف

• الذهبي : فيه ضعف يسير من سوء حفظه

• جرير بن عبد الحميد الضبي : أكثر تخليطا من عطاء بن السائب

• زكريا بن يحيى الساجي : صدوق فيه ضعف، سيئ الحفظ كثير الغلط

• سفيان بن عيينة : ضعفه

• عبد الرحمن بن مهدي : ليث أحسنهم حالا عندي من عطاء ويزيد

• عثمان بن أبي شيبة العبسي : صدوق، ولكن ليس بجحة، ومرة قال: أنه ثقة

• عيسى بن يونس السبيعي : رأيته وكان قد اختلط

• محمد بن إسماعيل البخاري : صدوق يهم، ومرة: صدوق

• محمد بن سعد كاتب الواقدي : رجل صالح عابد، ضعيف في الحديث

• يحيى بن سعيد القطان : كان سيئ الرأي فيه جدا

• يحيى بن معين : منكر الحديث، ومرة: ضعيف إلا أنه يكتب حديثه، ومرة: أضعف من عطاء ويزيد، ومرة: ليس به بأس، وعامة شيوخه لا يعرفون، ومرة: ليس حديثه بذاك ضعيف، وفي رواية ابن محرز عنه سئل عن كتابة حديثه قال: نعم

• يعقوب بن سفيان الفسوي : حديثه مضطرب

• يعقوب بن شيبة السدوسي : صدوق، ضعيف الحديث

تو ثابت ہوا کہ یہ روایت ان دو اسناد سے ضعیف ہے

اور باقی بچی روایت جسکو ابن سعد نے اور امام احمد نے بیان کیا ہے جو کہ کلثوم بن جبیر سے ہے

: حماد بن سلمة، عن كلثوم بن جبر، عن أبي غادية، قال:

سمعت عمارا يشتم عثمان، فتوعدته بالقتل، فرأيته يوم صفين يحمل على الناس، فطعنته، فقتلته.

وأخبر عمرو بن العاص، فقال:

سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: (قاتل عمار وسالبه في النار

اسکے متن پر جو ہم نے اضطراب پیش کیا اس پر اگلی قسط میں بیان کرینگے لیکن اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کلثوم بن جبیر کہتے ہیں

” وأخبر عمرو بن العاص،” اور کلثوم بن جبیر نے تصریح نہیں کہ کس نے انکو خبر دی عمرو بن عاص سے اور انکا سماع بھی نہیں ہے عمرو بن العاص سے

یہی وجہ ہے کہ امام ذھبی سیر اعلام میں اس روایت کو نقل کر نے کے بعد اس پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

إسناده فيه انقطاع.

اس روایت کی سند میں انقطاع ہے

[سیر اعلام النبلاء ، جلد 2، ص،544 ]

تو اس باب میں کوئی بھی ایک سند صحیح نہیں ہے جس میں یہ ثابت ہو کہ معاذاللہ عمار بن یاسر کا قاتل جہنمی ہوگا اور اہلسنت کے امام اسکے باوجود ابو غادیہ کو جہنمی تسلیم کرتے ہیں ہوں بلکہ جنکو روایت میں علت معلوم نہ ہونے پر خطاء ہوئی انہوں نے تاویل حق کی ہے کیونکہ اہلسنت کے نزدیک صحابہ مجتہد ہوتے ہیں

فقط نبی اکرمﷺ سے انتا صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عمار کو قتل کرنے والی جماعت (خارجی) باغی ہوگی

اور ہم اگلی قسط میں شیعوں کے محکک کی قلابازیاں اور اصل موضوع سے فرار ہونے کی نشاندہی بھی کرینگے

اور یہ بھی ثابت کرینگے کہ کیسے یہ روایت میں اضطراب دور کرنے میں ناکام رہا اور دیگر احادیث سے صحیہ سے عمار کا قاتل ایک تیسری پارٹی بنتی ہے

تنبیح!!!!!

اس لیے شیعوں کے محکک کو تنبیح کرتے ہیں کہ وہ اس موضوع پر لکھتے ہوئے اپنے قلم کو قابو میں رکھے

جاری ہے

تحقیق دعاگو : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

شیعوں کی طرف سے پیش کردہ مضطرب روایت کہ عمار بن یاسر کا قاتل حضرت ابو غادیہ تھے اسکی حقیقت!!!
ازقلم اسد الطحاوی
ہم نے پچھی اقساط میں یہ ثابت کیا تھا کہ مستدرک اور مسند یعقوب بن شیبہ کی سند پیش کی تھی جو طبقات ابن سعد اور طبرانی کی المعجم الکبیر کی سند سے اوثق راویان پر مشتمل تھی
جسکا رد کرنے میں خیر طالب میاں نا کام رہے کیونکہ امام یعقوب بن شیبہ سے کوئی بھی ثقہ راوی نہیں مسلم بن ابراہیم سے بیان کرنے میں اور وہ خود ابراہیم سے سماع کرنے والے ہیں
جبکے انکے مقابل امام ابن سعد صدوق درجے کے ہیں
اور طبرانی کی سند میں دو راویان کا اضافہ ہے اور امام یعقوب کی سند مقدم ہوگی
اور مستدرک کی روایت میں ابراہیم بن مسلم کا متابع بھی بیان کیا اور سند میں یہ بھی ثابت کیا کہ نیزہ مارنے والا کوئی اور شخص تھا
اب ہم متن میں اضطراب پیش کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کے جس کے جواب میں موصوف قسطوں پر قسطیں چلاتے رہیں اور کبھی کدھر بھاگتے کبھی کدھر اور ایک بھی قسط میں صحیح جواب دینے سے قاصر رہے
طبقات ابن سعد کی جو تفصیلی روایت ہے ہم اس میں سے وہ متضاد متن نقل کرینگے فقط تاکہ صارفین کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔
طبقات ابن سعد کا مذکورہ متن :
فلما كان يوم صفين أقبل يستن أول الكتيبة رجلا، حتى إذا كان بين الصفين فأبصر رجل عورة فطعنه في ركبته بالرمح، فعثر فانكشف المغفر عنه، فضربته فإذا رأس عمار.
جنگ صفین کے دن ووہ (عمار) لشکر کے آگے ادھر ادھر دکیھتے ہوئے پایدہ آئے ، جب وہ دونوں لشکروں کے درمیان تھے تو انہیں ایک شخص نے تنہا دیکھ کر گٹھنے میں نیزہ مارا، جس سے وہ گر پڑے اور خود سر سے اتر گیا، میں نے اس تلوار ماری تو اتفاق سے عمار کے سار پر پڑی ۔
اہم نقات::
۱۔ عمار بن یاسر کو ایک مجہول شخص نے نیزہ مارا
۲۔ ابو غادیہ نے انکو دیکھا اور پہچانا جب انکے گٹھنے میں نیزہ لگا ہوا تھا جسکی وجہ سے انکا خود سر سے گر گیا اور ابو غادیہ نے پہچان لیا اور تلوار مار کے قتل کیا
۳۔ ابو غادیہ تلوار عمار کو جاننے اور پہچاننے کے بعد ماری اور قتل کیا
پھر یہی روایت اسی سند ہی سے ہے اور اسکا متن یوں ہے :
لما كان يوم صفين جعل عمار يحمل على الناس، فقيل: هذا عمار فرأيت فرجة بين الرئتين وبين الساقين، قال: فحملت عليه فطعنته في ركبته، قال: فوقع فقتلته،فقيل: قتلت عمار بن ياسر
یوم صفین میں عمار لوگوں پر حملے کرنے لگے تو کہا گیا کہ یہ عمار ہیں میں (ابو غادیہ) نے انکی زرہ میں سے ایک سوراخ دونوں پھیپھڑوں اور پنڈلیوں کے درمیان میں دیکھا ۔ ان پر حملہ کیا اور گٹھنے میں نیزا مارا جس سے وہ گر پڑے میں نے انکو قتل کر دیا اور کہا گیا کہ توں نے عمار بن یاسر کو قتل کر دیا
اہم نکات:
۱۔ یہاں نیزہ مارنے والے خود ابو غادیہ ہیں گٹھنے پر پھر قتل کیا نیزہ سے
۲۔ پھر ابو غادیہ انکو قتل کر دیتے ہیں (بغیر جانے کہ مقتول کون ہے)
۳۔ جب وہ قتل کر چکے ہوتے ہیں تو انکو بتایا جاتا ہے کہ توں نے ابو غادیہ کو قتل کر دیا یعنی غیر ارادی طور پر قتل کیا اور قتل کے بعد معلوم ہوا کہ مقتول عمار ہے
اب طبرانی والی روایت :
9252 ء حَدَّثَنَا النُّعْمَانُ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، نَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ، وَأَبِي حَفْصٍ، عَنْ أَبِي الْغَادِيَةِ
فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ صِفِّينَ وَعَلَيْهِ السِّلَاحُ، فَجَعَلَ يَحْمِلُ حَتَّى يَدْخُلَ فِي الْقَوْمِ، ثُمَّ يَخْرُجَ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا رُكْبَتُهُ قَدْ حُسِرَ عَنْهَا الدِّرْعُ وَالسَّاقُ، فَسَدَّدْتُ نَحْوَهُ الرُّمْحَ، فَطَعَنْتُ رُكْبَتَهُ، ثُمَّ قَتَلْتُهُ
اس روایت پر خیر طالب ہی کا ترجمہ پیش کرتے ہیں تاکہ کوئی اعتراض نہ رہے !
ابو غادیہ بیان کرتا ہے کہ حضرت عمارؓ کو عثمان کو کچھ کہتے۔۔(آگے کا مفہوم بیان کیا جاتا ہے) ابو غادیہ کہتا ہے کہ میں نے تہیہ کیا کہ یہ میرے قبضہ میں تو آئے اور صفین کی جنگ میں ابو غادیہ نے تیر مارا جس سے عمارؓ شہید ہوئے
(معجم الکبیر)
نوٹ : شیعو کے *محکک نے بریکٹ میں ترجمہ نہیں کیا روایت کا کیونکہ اسی روایت میں عمار بن یاسر حضرت عثمان خلیفہ کو یہودی کہتا ہے
اور اسی اصول پر خلیفہ برحق کو یہودے کہنے سے حضرت عمار بھی انکے ہاتھ سے جاتے ہیں
اس لیے اس متن کو چھپا لیا گیا
اہم نکات:
یہاں بقول خیر طالب کے ترجمہ کے مطابق ابو غادیہ نے عمار کو دیکھا اور اسکو تیر مارا اور جانتے پہچانتے قتل کیا
اب کسی میں تلوار سے مارنا آرہا ہے
کسی میں نیزے سے قتل ہونا بیان ہو رہا ہے
اور کسی میں تیر سے مارنے کا ذکر ہے
پھر دوسرا اختلاف
کسی روایت میں ابو غادیہ پہچاننے ہوئے حملہ کیا
کسی روایت میں بغیر پہچانے حملہ ہوا اور قتل ہونے کے بعد معلوم پڑا یہ ابو غادیہ ہے جب سر منکشف ہوا
اہم بات اب جو مختصر اور اصح سند سے ہوگی اس میں فیصلہ ہوگا کہ آیا اس میں قتل عمار
نیزے سے ہوئے
تیرسے ہوئے
یا تلوار سے
اور قتل ہونے کے بعد پہچان ہوتی ہے یا پہلے کہ مقتول عمار بن یاسر ہے
اب مستدرک کی روایت پھر سے پیش کرتے ہیں جسکی سند اوثق ہے اور مختصر :
5658 – حدثنا أبو جعفر محمد بن صالح بن هانئ، ثنا السري بن خزيمة، ثنا مسلم بن إبراهيم، ثنا ربيعة بن كلثوم، حدثني أبي قال: كنت بواسط القصب في منزل عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر، قال الآذن: هذا أبو غادية الجهني يستأذن، فقال عبد الأعلى: أدخلوه، فأدخل وعليه مقطعات، فإذا رجل طوال ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة، فلما قعد، قال: «كنا نعد عمار بن ياسر من خيارنا» قال: «فوالله إني لفي مسجد قباء إذا هو يقول – وذكر كلمة – لو وجدت عليه أعوانا لوطئته حتى أقتله» قال: «فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى كان بين الصفين طعن رجلا بالرمح، فصرعه، فانكفأ المغفر عنه، فضربه فإذا رأس عمار بن ياسر» ، قال: يقول مولى لنا: لم أر رجلا أبين ضلالة منه
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 5658 – سكت عنه الذهبي في التلخيص
)مستدرک الحاکم علی صحیحین ، روایت نمبر 5658)
ترجمہ:
ربعہ بن کلثوم اپنے والد (کلثوم بن جبر) سے بیان کرتے ہیں (وہ فرماتے ہیں) میں واسط القصب (نامی شہر) میں عبدالاعلیٰ بن عبداللہ بن عامر کے گھر تھا ، اجازت لینے والے نے کہا : ابو غادیہ جہنی اندر آنے کی عجازت مانگ رہا ہے ، عبدالاعلیٰ نے کہا : اسکو اندر آنے کی اجازت دے دو ، وہ اندر آئے ، اس وقت انہوں نے تنگ کپڑے پہنے ہوئے تھے ، وہ انتہائی دراز قد آدمی تھے وہ تو اس امت کا فرد نہیں لگتے تھے (دراز قد اتنا تھا )
جب اندر آکر بیٹھ گئے تو کہنے لگے : ہم عمار بن یاسر کو سب سے معتبر اور نیک جانتے ہیں
خدا کی قسم! میں مسجد قباء میں تھا وہ (عمار بن یاسر ) باتیں کر رہا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھی اللہ کی قسم!
اگر کبھی مجھے اس پر غلبہ بلا تو میں اس کو روند ڈالوں گا ، حتی کہ ان کو قتل کر ڈاوں گا
پھر جب جنگ صفین شروع ہوئی تو لشکر کی پہلی جماعت پیدل چلتے ہوئے آئی ، یہاں تک کہ وہ صفین کے درمیان پہنچ گئے ،
ایک آدمی (مجہول) نے ان(عمار بن یاسر ) کو نیزہ مارا جسکی وجہ سے وہ گر گئے ، ان کے خود نیچے گرا،
جب دیکھا تو حضرت عمار بن یاسر کا سر تھا
اہم نکات:
اصح سند سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ نیزہ مارنے والے ابو غادیہ نہیں تھے بلکہ مجہول ہی تھا جیسا کہ ابن سعد کی ایک ہی سند میں اضطراب ہے نیزہ مارنے والا اور بندہ بھی ہے اور اسی سند سے نیزہ ابو غادیہ سے بھی مروایا جا رہا ہے
لیکن ایک بات متابقت رکھتی ہے کہ قتل ہونے کے بعد ہی سر دکھا جا تا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ مقتول عمار بن یاسر ہے
اور اس روایت میں تصریح ہے کہ :
جب دیکھا گیا تو عمار بن یاسر کا سر تھا
اور ہم پچھلی روایت میں ثابت کر چکے کہ ابن سعد کی روایت جس میں نیزہ مارا گیا ابو غادیہ سے انہوں نے ہی قتل کیا (نیزے کے وار سے)
جبکہ یہاں نیزہ کسی اور نے مارا جس سے انکا سر منکشف ہوا اور جب دیکھا گیا قتل کے بعد تو وہ سر عمار بن یاسر کا تھا
کیونکہ پچھلی روایات میں تصریح ہے کہ قتل کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ مقتول کون ہے اور مذکورہ روایت میں نیزہ جس مجہول سے لگا ہے اسی سے ہی سر منکشف ہو جاتا ہے اور وہ سر عمار کا ہوتا ہے یعنی اسی نیزے سے قتل ہو چکے تھے تبھی تو عمار بن یاسر کے چہرے پر مطلع ہونا بیان کیا گیا
یہ ہوتا ہے اضطراب اور خیر طالب میاں جو مثالیں دے دے کر قسطیں چلاتے رہے وہ روایت مختصر اور تفصیل پر مثالیں دیتے رہے
جبکہ ہم نے اضطراب کی مثال پچھلی قسط میں بیان کی تھی جس میں ایک ہی امر مختلف لوگوں سے بیان ہوتا ہو جسکو تطبیق کرنا محال ہو
اب ہم نے ہمارے موقف پر اوثق راویان سے ابو غادیہ کو قتل سے بری زمہ قرار ثابت کیا
اور خیر طالب اپنی مذکورہ اسناد کو بھی اصح ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو انکے مطابق پھر تمام روایات میں اضطراب قائم ہے اور اسکو دور کرنا محال ہے
باقی انہوں نے ضعیف روایات جیسا کہ جابر جعفی جیسے ضعیف راویان سے ابو غادیہ کے قتل ہونے کی تصریح پیش کی تھی
تو ہم نے بھی ضعیف اسناد سے روایت پیش کی تھی جس میں تابعی اور دو صحابہ کا حملہ کرنا لکھا ہے
تو پھر ابو غادیہ بری زمہ ہوتا ہے
ہماری دلیل پھر خیر طالب میاں نے پھرکی لی اور کہا کہ اس روایت کے تحت دوسرے صحابی بھی جاتے ہیں
تو عرض ہے جب سند ضعیف ہے اور قتل میں تین لوگ ہیں اور قاتل پھر بھی مجہول ہے جب اس میں تابعی بھی موجود ہے تو صحابی پر کیسے آنچ آتی ہے کیونکہ قاتل کی تصریح نہیں
اور آخری بات اس پر ایڑی چھوٹی کا زور لگانے کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ
عمار بن یاسر کا قتل صرف باغی ہوگا نہ کہ جہنمی
اور اگر یہ بخاری کی روایت جس میں ایک راوی کا تفرد ہے کہ عمار انکو جنت کی طرف اور وہ انکو جہنم کی طرف بلائیں گے اگر اسی جملے کو آخری سہارا بنائے گا
تو یوں پھر تیسری پارٹی ثابت ہوتی ہے خارجی کیونکہ اگر عمار کا قاتل باغی ہے اور جہنم کی طرف بلانے والا ہے
تو صحیح حدیث سے عمار بن یاسر کے قاتل اور باغیوں کو مسلمان کا عظیم لشکر بھی قرار دیا ہے نبی اکرم نے
کیونکہ شیعوں رافضیوں کی چال یہ ہوتی ہے
کہ عمار کے قاتل کو باغی کے ساتھ جہنمی ثابت کیا جائے پھر چونکہ ان قاتلین کا آقا حضرت امیر معاویہ تھے تو یوں پوری جماعت کو جہنمی و باغی قرار دیا جا سکے
اگر یہی مان لیا جائے تو مولا علی کی طرف سے زبیر کا قاتل بھی جہنمی تھا اگر ہو جہنمی تو جنکی طرف سے وہ لڑ رہے تھے یعنی مولا علی کی طرف سے تو شیعوں کی منتق کے مطابق مولا علی پر بھی وہی الزام ائے گا (معاذاللہ )
جیسا کہ امام احمد نے اسکو سند صحیح سے بیان کیا ہے
حدثنا عفان، حدثنا حماد، أخبرنا عاصم بن بهدلة، عن زر بن حبيش، أن عليا قيل له: إن قاتل الزبير على الباب. فقال: ليدخل قاتل ابن صفية النار، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن لكل نبي حواريا، وإن الزبير حواري»
مسند احمد
إسناد. حسن. وأخرجه ابن سعد 3/105 عن عفان، بهذا الإسناد
ثقہ تابعی اور قراءت کے امام زر بن حبیشؒ کہتے ہیں کہ ابن جرموز نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی،اور میں بھی وہاں موجود تھا جناب علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے اندر آنے دو ، زبیر کے قاتل کوجہنم کی بشارت دو، ابن صفیہ کا قاتل جہنم میں جائے گا ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ “
(فضائل صحابہ 1271 ، الاحادیث المختارۃ ، المعجم الکبیر للطبرانی ، المتدرک للحاکم5578 ، السنۃ لابن ابی عاصم )
اور صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت زبیر کا جہنمی قاتل مولا علی کی طرف سے لڑنے والا تھا :
امام ذھبی سیراعلام النبلاء میں نقل فرمایا ہے کہ :
قرة بن حبيب: حدثنا الفضل بن أبي الحكم، عن أبي نضرة، قال:
جيء برأس الزبير إلى علي، فقال علي: تبوأ يا أعرابي مقعدك من النار، حدثني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن قاتل الزبير في النار “
یعنی ایک اعرابی (ابن جرموز سیدنا زبیر بن عوام کو قتل کرکے ان کا سر مبارک ) جناب علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا ،تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا :اے اعرابی ! تو اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے ،کیونکہ مجھے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ زبیر کا قاتل جہنم میں جائے گا “
نیز اسکے سارے رجال ثقہ ہیں اور اس روایت کی تحقیق میں علامہ شعیب الارناؤط اس روایت کے تحت لکھتے ہیں : رجال الإسناد ثقات )
اسی لیے ہم کتہے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ کی پارٹی اور حضرت مولا علی کی پارٹی میں تیسرا ایک خارجی گروہ شامل تھا
اسکی دلیل درج ذیل ہے :
جیسا کہ صحیح بخاری میں یہ روایت متعدد اسناد و متن سے آئی ہے
3629 – حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الجُعْفِيُّ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَخْرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:205] ذَاتَ يَوْمٍ الحَسَنَ، فَصَعِدَ بِهِ عَلَى المِنْبَرِ، فَقَالَ: «ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ»
نبی پاکﷺ ایک دن منبر پر تشریف فرما تھے اور امام حسن کے بارے میں فرمایا میرا یہ بیٹا سید یعنی امت کا سردار ہے یقینن جب مسلمانوں کے دواعظیم گروہ کی صلح کرائے گا
نبی پاک نے دونوں گروہ کے لیے اعظیم مسلمین کا لفظ استعمال کیا ہے
بخاری میں دوسری جگہ یون فرمایا:
ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ
کہ یہ (حسن) سردارہے جو صلح کرائے گا دو اعظیم گروہوں کی جب وہ آپس میں ٹکرائیں گے
پھر ان الفاظ سے مروی ہے
إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ
یعنی یقینا ایک وقت آئے گا جب مسلمانوں کے دو بڑے گروہ آپس میں ٹکرائیں گے اور امت میں ایک بہت بڑا انتشار ہو گا۔ میری امت ٹکڑے ہو رہی ہوگی، دو بڑے گروہوں میں بٹ چکی ہوگی، دونوں طرف مسلمان ہوں گے اور میرا یہ بیٹا اُن میں صلح کرا دے گا، صلح کرانے کی وجہ سے اپنی قربانی کے ذریعے امت کو وحدت اور یکجہتی دے دے گا۔
(صحیح البخاری)
نبی پاک عمار بن یاسر کے قاتلوں کو باغی قرار دے رہے ہیں
اورعمار بن یاسر حضرت علی کی پارٹی میں تھے
اور نبی پاک زبیر کے قاتل کو جہنمی قرار دے رہے ہیں
جنکا قاتل حضرت علی کی پارٹی میں تھا
جبکہ امام حسن کے بارے فرمارہے ہیں یہ دو اعظیم مسلمین کے گروہ کی صلح کرائیں گے جب خون کی ندیاں بہہ چکی ہونگی اور امت مسلمہ دو بڑے گروہ میں تقسیم ہو چکی ہوگی تو امام حسن آگے بڑھے گیں اور ان دو مسلمین کے اعظیم بڑے گروہوں کی صلح قائم کرائیں گے
اور یہ بات سورج کی طرح عیاں ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے امیر معاویہ کے ساتھ صلح کی اور جو قتال اور لڑائیاں چل رہی تھیں وہ سب ختم ہوئیں
اور نا صرف صلح کی بلکہ بیعت بھی اور اپنے بھائی کو کرائی
اب یہ کیسے ہو سکتا ہے نبی پاک دو گروہ جنکے لیڈران مولا علی اور انکے مقابل امیر معاویہ تھے لیکن خطاء پر
ان دونوں کے گروہ کو مسلمین اور اعظیم گروہ بھی کہہ رہے ہیں اور امام حسن کو انکی صلاح کروانے کی بشارت بھی دے رہے ہیں
اور ان دونوں گروہ میں موجود دو اصحاب رسول
جن میں ایک عمار بن یاسر جو مولا علی کی طرف سے تھے
اور ایک حضرت زبیر جو امیر معاویہ کی طرف سے تھے
ان دونوں کے قاتلوں کے بارے فرمایا انکو باغی گروہ قتل کریگا اور ایک کے بارے فرمایا اسکو جہنمی قتل کریگا
معلوم ہوا نبی پاک نے ان دوگروہ میں نشاندہی کےطور پر یہ بشارت فرمائی کہ دونوں گروہ تو اعظیم مسلمین کے ہونگے
لیکن ان دوں میں کو قتل کرنے والا ایک باغی ہوگا اور ایک جہنمی ہوگا
اب کہا جاتا ہے کہ تیسری پارٹٰی کون تھی ؟
ہم تو حدیث رسول سے ثابت کر دیا کہ تیسری پارٹی وہی تھی جو ان دو اعظیم گروہ میں شامل ہوچکی تھی
اگر وہ واقعی ہی ان گروہ کا حصہ ہوتے اور اپنے لیڈران کے لیے لڑ رہے ہوتے تو پھر نبی حضرت زبیر اور حضرت عمار کے قاتلین کو باغی اور جہنمی نہ کہتے
اگر انکے قاتلین باغی اور جہنمی ہیں تو پھر سید حسن علیہ السلام کے لیے یہ نہ کہتے کہ یہ دو اعظیم مسلمین کے گروہ کی صلح کروائے گا
بلکہ یہ کہتے کہ سید حسن مسلمین اور باغیون کی صلح کرائے گا یا مسلمین یا گمراہوں کی صلح کرائے گا
اگر تیسری پارٹی نہ ہوتی یا انکا وجود نہ مانا جائے تو نبی پاک کے اقوال میں تضاد ثابت ہوتا ہے جبکہ نبی پاک کی بشارت برحق ہے
اور واقعی یہ تیسرا خارجی گروہ وہی تھا جس نے حضرت عثمان خلیفہ سوم کو قتل کیا تھا
ان قاتلین کا تعلق نہ حضرت مولا علی سے تھا نہ ہی امیر معاویہ سے انکی یہ حرکت ہی انکو باغی بنایا اور پھر مولا علی اور امیر معاویہ میں جنگ چھیڑوائی
اور جان بوجھ کر یہ تیسرا خارجی گروہ چن چن کے ان صحابہ کو قتل کیا جسکی وجہ سے ثابت ہو سکے کہ امیر معاویہ کی طرف سے عمار بن یاسر کو قتل کیا تو امیر معاویہ کو مجروح قرار دیں
اور حضرت علی کی جانب سے انکے بندے نے حضرت زبیر کو قتل کیا اس سے انکی شان میں کمی کی جائے معازاللہ
لیکن اس مسلے پر اہلسنت کے علماء نے جب تفضیلوں کا تحقیقی اور مدلل رد کیا تو بالکل اسی صحیح نتیجے پر پہنچے جس پر متاخرین نے توجہ نہ فرمائی
کیونکہ اہلسنت میں جن اماموں سے تسامح ہوئے ہیں وہ جو حضرت علی پر بغاوت کا اطلاق کرتے بھی ہیں تو لفظی اور عرفی طور پر کرتے ہیں نہ کہ شرعی جسکی دلیل حضرت ملا علی قاری سے پچھلی پوسٹ میں ثابت کی تھی
لیکن پھر اہلسنت کہتے ہیں جب صلح امیر معاویہ اور امام حسن کی قرار پا گئی اب بغاوت کا اطلاق بھی جائز نہ ہوگا کیونکہ وہ ایک خاص وقت تک جب تک مولا حسن سے صلح نہ ہوئی تھی اس وقت تک عرفی بغاوت جاری تھی
لیکن تفضیلی کہتے ہیں امیر معاویہ صلح کرنے کے بعد شروئط توڑ دی اس طرح کے ہیلے بہانے باطل بناتے ہیں جبکہ یہ اعتراض امام حسن پر آتا ہے
جو بڑے ہوئے جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے امیر معاویہ اور اپنے والد کی جنگ دیکھی
اگر وہ امیر معاویہ کو سمجھنے میں غلطی کر گئے اور امت محمدی انکے حوالے کر دی اور بیعت کر لی تو بھی اس میں امام حسن کی سوجھ بوجھ اور سمجھ پر ضرب لگتی ہے
یا اگر وہ امیر معاویہ کو صحیح طرح جانتے تھے تو پھر بھی انکو امت محمدیہ کا امیر بنا دیا تو بھی امام حسن پر اعتراض بنتا ہے کہ انہوں نے معاذاللہ ایسے بندے کے ہاتھوں بیعت کر لی اور امت کا امیر بنا دیا جو معاذاللہ دشمن اہل بیت ہے
جب کہ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ ہم حضرت علی کے ساتھ ہونگے جو بھی انکے مخالف آیا ہمیشہ خطا پر تھا
اور جب مولا حسن پاک نے ان سے صلح کر لی بیعت کر لی توچونکہ ہم تب بھی حضرت حسن کی پارٹی والے ہیں تو انکی صلح ہماری صلح
کیونکہ ہمارا لڑنا بھی امیر معاویہ سے حضرت علی اور حضرت حسن کی وجہ سے تھا
اور ہماری صلح بھی حضرت حسن کی وجہ سے ہے انکی صلح تو ہماری صلح
ہم کون ہوتے ہیں مولا حسن کے فیصلے پر اعتراض یا کیڑے نکالنے والے
البتہ امام حسن کی صلح اور بیعت ان بدعتی بد بختوں کے لیے لٹکتی تلوار ہے تا قیامت تک جو یا تو مولا حسن پاک کو تقیہ باز ثابت کرتے مرے گیں یا انکو اس فیصلے میں خطاء ثابت کرتے مرے گیں
جبکہ جو تحقیق اہلسنت کی ہے مدلل اس میں نہ صحابہ پر آنچ آتی ہے نہ ہی قرآن کی نص قطعی کا انکار آتا ہے کہ تمام صحابہ جنتی ہیں اور بیشک یہ نبی کی امت میں سے بہترین لوگ ہیں
لیکن رافضی شیعہ اور تفضیلی ہمیشہ اہل بیت کی آر میں صحابہ پر بھی بکتے رہیں گے اور انکی شان میں گستاخیاں بھی کرتے رہیں گے اور یہ انکی بد بختی ہے جو انکی قسمت میں لکھی جا چکی ہے
اس لیے معلوم ہوا کہ طالب خیر میاں کبھی قسطیں چلا کر علامہ تفتازانی پر جاتا
کبھی جابر جعفی کی روایت پر
کبھی کہتا ہے کہ مستدرک کی روایت میں تحریف ہے
کبھی کہتا ہے ہم نے عمار بن یاسر کے قتل پر ابو غادیہ کو قیاس کے ساتھ ضعیف روایات سے تقویت دی ہے
کبھی کہتا ہے روایات میں تصریح ہے
تو جناب جتنی قسطیں چلا چکے ہیں کسی بھی ایک روایت میں مستدرک اور انکی پسند کی روایات میں جو متن میں اضطراب ہے اسکو دور کرنے کی طرف نہ آسکے