اِنۡ تَكۡفُرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنۡكُمۡ ۖ وَلَا يَرۡضٰى لِعِبَادِهِ الۡـكُفۡرَ ۚ وَاِنۡ تَشۡكُرُوۡا يَرۡضَهُ لَـكُمۡ ؕ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى ؕ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمۡ مَّرۡجِعُكُمۡ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۞- سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 7
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنۡ تَكۡفُرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنۡكُمۡ ۖ وَلَا يَرۡضٰى لِعِبَادِهِ الۡـكُفۡرَ ۚ وَاِنۡ تَشۡكُرُوۡا يَرۡضَهُ لَـكُمۡ ؕ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى ؕ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمۡ مَّرۡجِعُكُمۡ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۞
ترجمہ:
اگر ناشکری کرو تو بیشک اللہ تم سے بےپرواہ ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے شکر نہ کرنے کو پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ تم سے راضی ہوگا، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہارے رب کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے، پھر وہ تم کو ان کاموں کی خبر دے گا جن کو تم (دنیا میں) کرتے تھے، بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے
اللہ تعالیٰ کا تمام جہانوں سے بےپرواہ اور بےنیاز ہونا
الزمر : ٧ میں فرمایا : اگر تم ناشکری کرو تو بیشک اللہ تم سے بےپرواہ ہے۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تم دن رات اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کا مشاہدہ کرتے ہو، ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لائو اور اس کی اطاعت اور عبادت کرکے اس کا شکر ادا کرو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں تمام لوگوں سے عمومی خطاب ہو جیسا کہ اس آیت میں ہے :
وقال موسیٰ ان تکفروآ انتھم ومن فی الارض جمعیا لا فان اللہ لغنی حمید (ابراہیم : ٨) موسیٰ نے کہا : اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بیشک اللہ بےنیاز، حمد کیا ہوا ہے غنی اور بےنیاز کا معنی یہ ہے کہ اس کو اپنی ذات اور صفات میں کسی چیز کی کوئی احتیاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جو احکام شرعیہ کا مکلف کیا ہے وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے کوئی نفع حاصل کرنا چاہتا ہے یا اپنی ذات سے کسی ضرر کو دور کرنا چاہتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی علی الاطلاق ہے اور جو غنی علی الاطلاق ہو اس کا اپنے نفس کے لیے کسی نفع کو حاصل کرنا یا اپنے نفس سے کسی ضرر کو دور کرنا محال ہے، کیونکہ اگر وہ کسی چیز کا محتاج ہو تو اس کی حاجت قدیم ہوگی یا حادث ہوگی، اگر اس کی حاجت قدیم ہو تو وہ اس کو ازل میں پیدا کرے گا اور جو چیز پیدا کی جائے وہ حادث ہوتی ہے قدیم نہیں ہوسکتی اور اگر اس کی حاجت حادث ہو اور وہ حاجت اس کے ساتھ قائم ہو تو پھر اللہ محا حوادث ہوجائے گا اور یہ بھی محال ہے اور دوسری دلیل یہ ہے کہ محتاج ہونا نقص ہے، اگر اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج ہو تو پھر وہ ناقص ہوگا اور ناقص خدا نہیں ہوسکتا۔ نیز ہم کو بدابۃُ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے پر قادر ہے، اسی طرح سورج، چاند، ستاروں، سیاروں، عرش، کرسی، عناصر اربعہ اور موالیہ ثلاثہ کے پیدا کرنے پر قادر ہے اور جو اتنا عظیم قادر اور قاہر ہو اس کے حق میں یہ کہنا کس طرح جائز ہوگا کہ اس کے بندوں کے نماز پڑھنے، روزے رکھنے اور دیگر احکام پر عمل کرنے سے اس کو نفع ہوتا ہے اور ان احکام پر عمل نہ کرنے سے اس کو نقصان ہوتا ہے، حدیث میں ہے : حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ عزوجل سے یہ روایت کیا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کردیا، لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو ! تم سب گمراہ ہو سوا اس کے جس کو میں ہدایت دوں، تو سم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تم کو ہدایت دوں گا، اے میرے بندو ! تم سب بھوکے ہو سوا اس کے جس کو میں کھانا کھلائوں، پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تم کو کھلائوں گا، اے میرے بندو ! تم سب بےلباس ہو اس کے جس کو میں لباس پہنائوں، لہٰذا تم مجھ سے لباس مانگو، میں تم کو لباس پہنائوں گا، اے میرے بندو ! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں، تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تم کو بخش دوں گا، اے میرے بندو ! تم کسی نقصان کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم کسی نفع کے مالک نہیں کہ مجھے نفع پہنچا سکو، اے میرے بندو ! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہوجائیں تو میرے ملک میں کچھ اضافہ نہیں کرسکتے اور اے میرے بندو ! اگر تمہارے اوّل وآخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہوجائیں تو میرے ملک سے کوئی چیز کم نہیں کرسکتے اور اے میرے بندو ! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کروں گا تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہوگا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنے سے) اس میں کمی ہوتی ہے، اے میرے بندو ! یہ تمہارے اعمال ہیں جن کو میں تمہارے لیے جمع کررہا ہوں، پھر میں تم کو ان کی پوری پوری جزاء دوں گا، پس جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جس کو خیر کے سوا کوئی چیز (مثلاً آفت یا مصیبت) پہنچے وہ اپنے نفس کے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے۔ سعید بیان کرتے ہیں کہ ابو ادریس خولانی جس وقت یہ حدیث بیان کرتے تھے تو گھٹنوں کے بل جھک جاتے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٧٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦١٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٥٧، مسند احمد ج ٥ ص ١٥٤، جامع المسانید والسنن مسند ابوذر رقم الحدیث : ١١٣٩٥)
اس حدیث میں یہ فرمایا ہے : اگر میں ہر انسان کا سوال پورا کردوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہوگا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کرنکالنے سے کمی ہوتی ہے۔ یہ مثال لوگوں کو سمجھانے کے لیے دی ہے، کیونکہ ہمارے مشاہد میں سب سے بڑی چیز سمندر ہے اور سوئی کو ڈبو کر نکالنے سے اس کی وسعت میں کوئی اثر نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ اپنی پہلی مخلوق سے لے کر قیامت تک آخری مخلوق کو جو کچھ بتارہا ہے اور دیتا رہے گا اس سے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوگی، جیسا کہ ایک اور حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : تم (لوگوں پر) خرچ کرو، میں تم پر خرچ کروں گا اور آپ نے فرمایا : اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، خرچ کرنے سے اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی، رات اور دن کا مسلسل خرچ اس میں کمی نہیں کرسکتا۔ یہ بتائو کہ جب سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے وہ جب سے خرچ کررہا ہے اور اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے، جس (کے پلڑوں) کو وہ پست کرتا ہے اور بلند کرتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٨٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٩٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٤٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٧، مسند احمد ج ٢ ص ٢٤٢۔ ٥٠٠)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہمیشہ ایجاد کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کی قدرت میں عجز اور قصور جائز نہیں ہے اور ممکنات غیر منحصر اور غیر متناہی ہیں اور کسی ایک ممکن کے وجود میں آنے سے باقی ممکنات کے ایجاد کی قدرت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کو تمام افعال کا خالق ماننے پر معتزلہ کا اعتراض اور امام رازی کے جوابات
اس کے بعد فرمایا : ” اور وہ اپنے بندوں کے لیے شکر نہ کرنے کو پسند نہیں کرتا “۔ یعنی ہرچند کہ کسی بندہ کے ایمان لانے سے اللہ کو کوئی نفع نہیں ہوتا اور نہ کسی کے کفر اور ناشکری سے اس کو کوئی نقصان پہنچتا ہے، تاہم وہ اپنے بندوں کے لیے شکر نہ کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ معتزلہ نے اس آیت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ کفر اور ناشکری کو اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کیا، بلکہ ان افعال کو بندے خود پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اگر کفر اور ناشکری کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہوتا تو یہ اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر سے ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر سے راضی ہونا واجب ہے، تو پھر کفر سے بھی راضی ہونا واجب ہوتا، حالانکہ کفر سے راضی ہونا بجائے خود کفر ہے۔ امام رازی نے اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات دیئے ہیں :
(١) اس آیت میں جو فرمایا ہے : ” اللہ اپنے بندوں کے کفر اور ناشکری سے راضی نہیں ہوتا “ اس آیت میں بندوں سے مراد مؤمنین ہیں، کیونکہ قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ وہ عباد سے مراد مؤمنین لیتا ہے، جیسا کہ ان آیات میں ہے :
وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا۔ (الفرقان : ٦٣) اور رحمان کے بندے جو زمین پر وقار سے چلتے ہیں۔ ان عبادی لیس لک علیھم سلطن۔ (الحجر : ٤٢) (اے شیطان ! ) بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی تسلط نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٢٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام رازی کا یہ جواب اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کے کفر اور ان کی ناشکری سے راضی نہیں ہوتا اور کافروں کے کفر اور ان کی ناشکری سے راضی ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کفر اور ناشکری سے مطلقاً راضی نہیں ہوتا، خواہ وہ مومن کرے یا کافر۔ امام رازی نے معتزلہ کے اعتراض کا دوسرا جواب یہ دیا ہے :
(٢) ہم یہ کہتے ہیں کہ کفر اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ہے، اس کی رضا سے نہیں ہے، کیونکہ رضا کا معنیٰ ہے : کسی کام کی مدح کرنا اور اس کی تعریف وتحسین کرنا، قرآن مجید میں ہے :
لقد (رض) عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ۔ (الفتح : ١٨) بیشک اللہ مؤمنوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کفر اور ناشکری کی تعریف وتحسین نہیں کرتا، اس لیے وہ ان افعال سے راضی نہیں ہے۔
(٣) امام رازی فرماتے ہیں : میرے استاذ اور والدضیاء الدین عمر (رح) اس اعتراض کا یہ جواب دیتے تھے کہ رضا کا معنی ہے : کسی فعل پر ملامت نہ کرنا اور اعتراض نہ کرنا اور رضا کا معنی ارادہ کرنا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے کافروں میں کفر اور ناشکری کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا ہے، وہ ان افعال سے راضی نہیں ہے کیونکہ اس نے کفر کرنے اور شکر نہ کرنے پر ملامت کی ہے۔
(٤) چلو ہم مان لیتے ہیں کہ رضا اور ارادہ ایک ہے اور اس آیت کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کے لیے کفر کا ارادہ نہیں کرتا، لیکن اس عموم سے کفار کو خاص کرلیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کافروں کے کفر کا ارادہ کرتا ہے اور کافروں کے مخصوص اور مستثنیٰ ہونے کی دلیل یہ آیت ہے :
وما تشاء ون الا ان یشاء اللہ : (الدھر : ٣٠) اور تم کسی چیز کو نہیں چاہوں گے مگر یہ کہ اللہ اس چیز کو چاہے۔ یعنی تمہاری مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے، لہٰذا کافر کا کفر بھی اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٢٦۔ ٤٢٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
معتزلہ کے اعتراض کا مصنف کی طرف سے جواب اور رضا بالقدر کی تحقیق
امام رازی کے ان تینوں جوابوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰکسی بندہ کے کفر اور ناشکری سے راضی نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ جس بندہ میں کفر اور عدم شکر پیدا کرتا ہے تو اس کے کفر اور عدم شکر کا ارادہ فرماتا ہے اور کفر اور عدم شکر اللہ تعالیٰ کی قضاء اور اس کی تقدیر سے ہے اور اس سے معتزلہ کا یہ اعتراض دور نہیں ہوا کہ تقدیر پر راضی ہونا واجب ہے، لہٰذا کفر اور عدم شکر پر راضی ہونا بھی واجب ہے، لہٰذا مان لو کہ اللہ تمام افعال کا خالق نہیں ہے، بلکہ کفر اور ظلم کا خالق انسان ہے۔ مصنف کے نزدیک اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ تقدیر کا تعلق دو قسم کی چیزوں سے ہے : ایک تکوین اور دوسری تشریع۔ تکوین سے مراد ہے : وہ امور جن میں انسان کا اختیار اور ارادہ نہیں ہوتا اور جو خالص اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں جیسے انسان کا پیدا ہونا، مرجانا، صحت مند، خوبصورت اور قوی ہونا، بیمار، بدصورت اور کمزور ہونا، دولت مند یا مفلس ہونا، انسان کا مرد یا عورت ہونا، اسی طرح قدرتی آفات اور مصائب، بارش کا ہونا یا نہ ہونا، طوفانوں کا اٹھنا، زلزلوں کا آنا، فصل کا زرخیزہونا یا زرعی پیداوار کا نہ ہونا، اولاد کا ہونا یا نہ ہونا، اس قسم کی اور دوسری چیزیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں ان میں بندہ کا کوئی دخل نہیں ہے، اور ان میں تقدیر کے لکھے ہوئے پر راضی ہونا واجب ہے، اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں : حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحب زادی حضرت زینب (رض) نے آپ کو پیغام بھیجا کہ ان کا بیٹا فوت ہوگیا ہے سو آپ تشریف لائیں، آپ نے جواب میں ان کو سلام بھیجا اور فرمایا : اللہ ہی کی ملکیت ہے جو کچھ وہ لیتا ہے اور جو کچھ وہ عطا فرماتا ہے، اور اس کے نزدیک ہر چیز کی مدت معین ہے، اس کو چاہیے کہ وہ صبر کرے اور ثواب کی نیت کرے۔ الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٨٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٢٣، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١٢٥، سنن نسانئی رقم الحدیث : ١٨٦٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٨٨) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے حضرت سیدنا ابراہیم (رض) فوت ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اٹھایا، بوسہ دیا، سونگھا اور فرمایا، آنکھ سے آسو بہ رہے ہیں اور دل غمزدہ ہے اور ہم صرف وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو اور اے ابراہیم ! ہم تمہارے فراق سے غم زدہ ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٠٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣١٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١٢٦) حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ابن آدم کی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قضاء اور قدر پر راضی ہو اور ابن آدم کی شقاوت یہ ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ (خیر طلب کرنے کو) ترک کردے اور ابن آم کی شقاوت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قضاوقدر سے ناخوش اور ناراض ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٥١، مسند احمد ج ١ ص ١٦٨ )
اور تقدیر کا دوسرا تعلق تشریع سے ہے، تشریع سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے یا جن کاموں کے کرنے سے روکا ہے، اللہ تعالیٰ نے بندہ کو اختیار دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان احکام پر عمل کرے یا نہ کرے، ایمان لائے یا کفر کرے۔
فمن شاء فلیئومن ومن شآء فلیکفر۔ (الکہف : ٢٩) سو جو چاہے وہ ایمان لائے اور جو چاہیے وہ کفر کرے۔ اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ وہ انسان کو اختیار دے گا تو وہ اپنے اختیار سے ایمان اور اعمال صالحہ کو اختیار کرے گا یا کفر اور اعمال سیئہ کو اختیار کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے اسی علم کا نام وہ تقدیر ہے جس کا تعلق تشریح سے ہے اور تقدیر کی اس قسم پر رضا مطلوب نہیں ہے بلکہ کفر اور ناشکری پر غیظ وغضب مطلوب ہے اور جو شخص کافروں اور ظالموں سے محبت اور میل جول رکھے اس پر عذاب کی وعید ہے، قرآن مجید میں ہے : ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار۔ (ھود : ١١٣) اور ظالموں سے میل جول نہ رکھو ورنہ تمہیں بھی دوزخ کی آگ جلائے گی۔ اور حدیث میں ہے : حضرت ابو عبیدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل میں اللہ کی نافرمانی کا ظہور ہوا تو ایک آدمی اپنے بھائی کو کوئی گناہ کرتے ہوئے دیکھتا تو اس کو اس گناہ سے منع کرتا، پھر دوسرے دن اس کے ساتھ کھانے، پینے اور میل جول سے اس کو کوئی چیز مانع نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ایک دوسرے کے مشابہ کردیئے اور ان کے متعلق قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی : لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان دائود و عیسیٰ ابن مریم ط ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون کانوا الا یتناھون عن منکر فعلوہ ط لبئس ما کانوا یفعلون (المائدہ : ٧٩۔ ٧٨) بنو اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا ان پر دائود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے وہ ایک دوسرے کو اس برے کام سے نہیں روکتے تھے جو انہوں نے کیا تھا، وہ کیسا بُرا کام تھا جو وہ کرتے تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو پڑھا، آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ کھڑے ہوگئے، پھر فرمایا : نہیں ! حتیٰ کہ تم اس کو حق کی طرف موڑ کر پھیردو اور اس کو گناہوں سے روک دو ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٤٨، ٣٠٤٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٣٧۔ ٤٣٣٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٠٦، مسند احمد ج ١ ص ٣٩١، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٥٠٣٥، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٢٦٤، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٥٢٣) کفر ظلم اور معاصی بھی اللہ کی تقدیر میں ہیں اور لوح محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں، قرآن کریم میں ہے : کل شیء فعلوہ فی الزبر وکل صغیروکبیر مستطر (القمر : ٥٣۔ ٥٢) ہر وہ کام جو انہوں نے کیا ہے لوح محفوظ میں ہے ہر چھوٹی اور بڑی بات لکھی ہوئی ہے لیکن کفر، ظلم اور معاصی پر راضی ہونا بھی کفر ہے، یہ اللہ کی وہ تقدیر ہے جس سے ناراض ہونا اور غضب ناک ہونا مطلوب ہے، یعنی ان مقدرات سے ناراض ہونا مطلوب ہے جو کفر اور ظلم ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس تقدیر کا تعلق تکوین سے ہے یعنی ان امور سے جو بندہ کے اختیار میں نہیں ہیں جیسے پیدائش اور موت وغیرہ، اس تقدیر اور مقدر سے راضی ہونا مطلوب ہے اور اس سے ناراض ہونا شقاوت ہے اور جس تقدیر کا تعلق ان مقدمات سے ہے جو کفر اور ظلم ہوں، ان سے ناخوش اور ناراض ہونا مطلوب ہے، لہٰذا اب معتزلہ کا یہ اعتراض وارد نہیں ہوگا کہ ” جب تمام افعال کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تو کفر اور ظلم کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے، پھر یہ اللہ کی تقدیر میں ہیں اور مقدرات سے ہیں اور اللہ کی تقدیر سے راضی ہونا واجب ہے، لہٰذا کفر اور ظلم سے بھی راضی ہونا واجب ہے، حالانکہ کفر سے راضی ہونا بھی کفر ہے اور یہ خرابی اس لیے لازم آئی کہ تم جماعت اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ تمام افعال کا اللہ تعالیٰ خالق ہے، سو اس خرابی سے چھٹکارے کے لیے یہ مان لو کہ ایمان اور اعمال صالحہ کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور کفر اور ظلم کا خالق انسان ہے۔ “ اور مصنف کی تقریر سے معتزلہ کا یہ اعتراض ساقط ہوگیا کیونکہ ہر مقدر سے راضی ہونا واجب نہیں ہے، صرف اس مقدر سے راضی ہونا واجب ہے جس کا تعلق تکوین سے ہو اور جس مقدر کا تعلق تشریع سے ہو اور جو مقدر کفر اور شرک ہو اس سے ناراض ہونا واجب ہے ہاں جس کے مقدر میں ایمان اور اعمال صالحہ ہوں اس کا بھی مقدر سے راضی ہونا مطلوب ہے۔ عام طور پر مطلقاً کہا جاتا ہے کہ تقدیر پر راضی ہونا واجب ہے اور تکوین اور تشریع کا فرق نہیں کیا جاتا اور تشریع میں بھی ایمان اور کفر کے فرق کی وضاحت نہیں کی جاتی، میں نے کسی تفسیر اور حدیث کی شرح میں یہ فرق نہیں دیکھا، یہ خالص وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف میرے دل میں القاء کی ہے اور یہ میری اس تفسیر کے خصائص میں سے ہے۔ وللہ الحمد علی ذالک
اللہ تعالیٰ کا کفر اور معصیت کو پسند نہ فرمانا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وہ اپنے بندوں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ خواہ وہ بندے مومن ہوں یا کافر، اسی طرح وہ کفر کو بھی پسند نہیں کرتا، اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کفر اور معصیت کو پسند نہیں کرتا تو وہ اس کو پیدا نہ کرتا اور جب اللہ تعالیٰ نے کفر اور معصیت کو پیدا کیا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس نے اس کو پسند کیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ارادہ اور رضا میں فرق ہے، جس کوئی انسان کفر اور معصیت کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے لیکن وہ کفر اور معصیت سے راضی نہیں ہوتا، وہ راضی صرف ایمان اور اطاعت سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ راضی ان کاموں سے ہوتا ہے جن کاموں کی دنیا میں اس نے تعریف اور تحسین کی ہے اور جن کاموں پر آخرت میں وہ اجر اور ثواب عطا فرمائے گا اور کفر اور معصیت پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ملامت اور مذمت کی ہے اور آخرت میں ان پر سزا اور عذاب دے گا، پس کفر اور معصیت سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا، ہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا، جب بندوں نے کفر اور معصیت کو اختیار کیا تو اس نے ان کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا، کیونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے وجود میں آتی ہے۔
جزاء کا مدار اعمال پر بھی ہے اور ان کے اسباب پر بھی
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہارے رب کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے، پھر وہ تم کو ان کاموں کی خبر دے گا جن کو تم (دنیا میں) کرتے تھے۔ “ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ حالانکہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت تک جتنے قتل ہوتے رہیں گے ان سب کے گناہوں کا بوجھ قابیل کی گردن پر ہوگا، جو پہلا قاتل تھا، وہ حدیث یہ ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص بھی قتل کیا جائے گا اس کے گناہوں میں سے ایک حصہ پہلے ابن آدم پر ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٨٦٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٧٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٩٨٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٧٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦١٦، سنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١١٤٢، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٧٤٤) اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جس فعل کا خود مرتکب ہو اس کو اس کی جزاء بھی ملتی ہے اور جس فعل کا وہ دوسروں کے لیے سبب بنے اس کو اس کی جزاء بھی دی جاتی ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے : حضرت جریر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اسلام میں کسی نیک طریقہ کو شروع کیا اس کو اپنے فعل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے بعد جو لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے ان کا اجر بھی ملے گا اور بعد والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو شروع کیا اسے اپنے فعل کا بھی گناہ ہوگا اور اس کے بعد جو لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے ان کے عمل کا بھی اس کو گناہ ہوگا اور بعد والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٥٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٣، جامع المسانید والسنن مسند جریر بن عبداللہ رقم الحدیث : ١٤٧٢) نیک اعمال میں اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کے ایمان کی وجہ سے ان کی اولاد کو بھی جنت میں داخل فرما دے گا :
والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بہم ذریتھم وما التنھم من عملھم من شیء ط کل امری بما کسب رھین (الطور : ٢١) اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ہم ان کے عمل میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے، ہر شخص اپنے کیے ہوئے کاموں کے عوض گروی رکھا ہوا ہے
القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 7