أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَاَنۡزَلَ لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِيَةَ اَزۡوَاجٍ‌ ؕ يَخۡلُقُكُمۡ فِىۡ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِىۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ‌ ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ لَهُ الۡمُلۡكُ‌ ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ ۚ فَاَ نّٰى تُصۡرَفُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اس سے ان کان جوڑا پیدا کیا اور اس نے چوپایوں میں سے تمہارے لیے آٹھ نر اور مادہ اتارے، وہ تمہاری مائوں کے پیٹ میں تمہاری تخلیق فرماتا ہے، ایک تخلیق کے بعد دوسری تخلیق تین تاریکیوں میں، یہی اللہ ہے جو تمہارا رب ہے، اسی کی سلطنت ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، سو تم کہاں بھٹک رہے ہو

انسان کو پیدا کرنا اور اس کو انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازنا اس کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ……اللہ کی عبادت کرے

الزمر : ٦ میں فرمایا : ” اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔ “ اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے تم کو حضرت آدم سے پیدا کیا، پھر حضرت آدم کی پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا۔ پھر فرمایا : ” اور اس نے چوپایوں میں سے تمہارے لیے آٹھ نر اور مادہ اتارے۔ “ اس آیت میں جو پایوں کے لیے ” انعام “ کا لفظ اور عربی میں انعام کا لفظ چار قسم کے جانوروں کے لیے مخصوص ہے (١) اونٹ (٢) بیل (٣) دنبہ (٤) بکرا اور چار ان کی مادہ ہیں، پس نر اور مادہ مل کر یہ آٹھ جوڑے ہوگئے۔ اس آیت میں فرمایا ہے : اس نے تمہارے لیے آٹھ نر اور مادہ نازل کیے ہیں۔ حالانکہ یہ جانور اوپر سے نہیں نازل ہوئے بلکہ زمین پر ہی ان کی پیداوار اور افزائش ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس پانی سے ہی زمین سے سبزہ اور چارا اگتا ہے جس کو کھانے کی وجہ سے ان جانوروں کی افزائش ہوتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا : ” وہ تمہاری مائوں کے پیٹ میں تمہاری تخلیق فرماتا ہے، ایک تخلیق کے بعد دوسری تخلیق، تین تاریکیوں میں۔ “ اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ میں انسان کی بہ تدریج تخلیق کی ہے، پہلے انسان کے نطفہ کو جما ہوا خون بناتا ہے، پھر اس کو گوشت کی بوٹی بنا دیتا ہے، پھر اس میں ہڈیاں پہنادی جاتی ہیں، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ نیز فرمایا : یہ تخلیق تین تاریکیوں میں ہوتی ہے، ایک تاریکی پیٹ کی ہوتی ہے، دوسری تاریکی رحم کی ہوتی ہے اور تیسری تاریکی اس جھلی کی ہوتی ہے جس میں بچہ لیٹا ہوا ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک تاریکی صلب (پیٹھ) کی ہو، دوسری تاریکی پیٹ کی ہو اور تیسری تاریکی رحم کی ہو۔ پھر فرمایا : ” یہی اللہ ہے جو تمہارا رب ہے، اسی کی سلطنت ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ “ گویا کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے : جس نے تم کو پیدا کیا اور تم کو حسین و جمیل صورت دی اور تم پر انواع و اقسام کی ظاہری اور باطنی نعمتیں نازل کیں اور تم کو اپن یتوحید کی دعوت دی اور تم کو یہ بشارت دی کہ اگر تم نے میری اطاعت اور عبادت کی تو میں تم کو جنت عطا کروں گا اور جنت میں تمہیں میری رضا اور میرا دیدار حاصل ہوگا، پھر کیا وجہ ہے تم میری بشارت پر کان نہیں دھرتے اور میری دعوت قبول نہیں کرتے۔ اس کے بعد فرمایا :” سو تم کہاں بھٹک رہے ہو۔ “ تم کو بتادیا ہے کہ ساری کائنات میری ہی سلطنت ہے اور میرا ہی تصرف ہے، میرے سامنے سب عاجز اور مجبور ہیں، قادر اور قہاری ہی ہوں۔ پھر تم جن بتوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہو، جن سے مدد طلب کرتے ہو اور مرادیں مانگتے ہو، وہ سب بےجان اجسام ہیں، تو تم کہاں بھٹک رہے ہو، اللہ ہی خالق اور مالک ہے، اس کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، تم اس کی عبادت کو چھوڑ کر کس کی پرستش کررہے ہو۔

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھا، ایک دن جب ہم سواری پر جارہے تھے میں آپ کے قریب ہوا اور میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے ایسے عمل کی خبر دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے اور دوزخ سے دور کردے، آپ نے فرمایا : تم نے بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے، یہ کام اس شخص کے لیے آسان ہوگا جس پر اللہ اس کو آسان کردے گا، تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور حج کرو، پھر فرمایا : کیا میں تم کو اس چیز کی خبر نہ دوں جس پر تمام نیکی کے دروازوں کا مدار ہے، روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہ کو اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور آدھی رات کو نماز پڑھنا بھی، پھر آپ نے یہ آیتیں تلاوت کیں :

تتجافی جنبوھم عن المضاجع یدعون ربھم خوقا وطمعا ومما رزقنھم ینفقون (السجدہ : ١٦) جن کے پہلو بستروں سے دور رہتے ہیں وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے بعض کو خرچ کرتے ہیں

فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین ج جزاء بما کانوا یعملون (السجدہ : ١٧) کوئی شخص نہیں جانتا کہ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کن نعمتوں کو چھپا کر رکھا ہوا ہے، یہ ان کے کاموں کی جزاء ہے پھر آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس چیز کی خبرنہ دوں جو ان تمام چیزوں کا رئیس ہے اور جو ان کا ستون ہے اور ان کے کوہان کی بلندی ہے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا : ان کا رئیس اسلام ہے اور ان کا ستون نماز ہے اور ان کے کوہان کی بلندی جہاد ہے، پھر آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس کی خبر نہ دوں کہ ان تمام چیزوں کا کس پر مدار ہے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں اے اللہ کے نبی ! آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا : اپنی زبان کو روک کر رکھو، میں نے عرض کیا : یا نبی اللہ ! ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان کی وجہ سے ہمارا مواخذہ کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : اے معاذ ! تمہیں تمہاری ماں روئے، لوگوں کو دوزخ میں منہ کے بل یا نتھنوں کے بل صرف ان کی زبانوں کی فصل کی کٹائی کی وجہ سے ہی ڈالا جائے گا۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦١٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٧٣، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٣٠٣، مسند احمد ج ٥ ص ٢٣١، المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ٢٦٦ )

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 6