أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ‌ ۚ يُكَوِّرُ الَّيۡلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى الَّيۡلِ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ‌ؕ كُلٌّ يَّجۡرِىۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى‌ؕ اَلَا هُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفَّارُ ۞

ترجمہ:

اس نے آسمانوں اور زمینوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا، وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے، اس نے سورج اور چاند کو کام پر لگا رکھا ہے، ہر ایک مدت مقرر تک گردش کررہا ہے، سنو وہی بہت غالب، بےحد بخشنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اس نے آسمانوں اور زمینوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا، وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے، اس نے سورج اور چاند کو کام پر لگا رکھا ہے، ہر ایک مدت مقرر تک گردش کررہا ہے، سنو ! وہی بہت غالب اور بےحد بخشنے والا ہے اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور اس نے چوپایوں میں سے تمہارے لیے آٹھ نر اور مادہ اتارے، وہ تمہاری مائوں کے پیٹ میں تمہاری تخلیق فرماتا ہے، ایک تخلیق کے بعد دوسری تخلیق، تین تاریکیوں میں، یہی اللہ ہے جو تمہارا رب ہے، اسی کی سلطنت ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، سو تم کہاں بھٹک رہے ہو اگر تم ناشکری کرو تو بیشک اللہ تم سے بےپرواہ ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے شکر نہ کرنے کو پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ تم سے راضی ہوگا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہارے رب کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے، پھر وہ تم کو ان کاموں کی خبر دے گا جن کو تم (دنیا میں) کرتے تھے، بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے (الزمر : ٧۔ ٥)

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر ستر فرمانا

الزمر : ٥ میں فرمایا : ” وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔ “ اس آیت میں تکویر کا لفظ ہے، تکویر کا معنی ہے : کسی چیز کو دوسری چیز پر اس طرح گھمانا یا بل دینا جس طرح پیچ کو گھماتے ہیں یا جس طرح عمامہ کو سر کے گرد لپیٹ کر گھماتے ہیں اور بل دیتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ رات دن کی روشنی کو چھپا لیتی ہے اور دن رات کی تاریکی کو چھپالیتا ہے یا دن رات کی تاریکی کو غائب کردیتا ہے اور رات دن کی روشنی کو غائب کردیتی ہے۔

پھر فرمایا : ” اس نے سورج اور چاند کو اپنے کام میں لگارکھا ہے، ہر ایک مدت مقرر تک گردش کررہا ہے۔ “ اس مدت مقررہ سے مراد وہ مدت ہے جس میں سورج یا چاند اپنی منتہاء مسافت کو طے کرلیتا ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ سورج اور چاند قیامت تک یونہی گردش کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد فرمایا : ” سنو ! وہی عزیز اور غفار ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کے عزیز ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور ہر کام پر قادر ہے، وہ اس کے احکام کی نافرمانی کرنے والوں اور کافروں کو سزا دینے پر قادر ہے۔ اور اس کے غفار ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ مغفرت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ نافرمانی کرنے والوں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے غفار ہونے کے آثار میں سے یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اچھائیوں اور نیک کاموں کو ظاہر فرماتا ہے اور ان کی برائیوں اور گناہوں کو چھپا لیتا ہے اور آخرت میں ان کی خطائوں کو بخش دیتا ہے۔ غفر کا معنی ہے اور اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر ستر فرماتا ہے، اس کے حسب ذیل مراتب ہیں :

(١) انسان کے بدن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے، اس کے بدن کے باطن میں خون کی شریانیں ہیں، پھیپھڑا ہے اور کلیجہ ہے، معدہ ہے، آنتیں ہیں، مثانہ ہے جس میں پیشاب جمع ہوتا ہے، بڑی آنت ہے جس میں فضلہ ہوتا ہے، اوجھڑی ہے، گردے ہیں اور ہڈیاں ہیں، ان اعضاء کی شکلیں اور قدر بری اور ہیبت ناک ہوتی ہے کہ کہ دیکھنے سے کر اہٹ آتی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کے اس بدصورت باطن کو خوبصورت باطن کو خوب صورت جلد کے ساتھ ڈھانپ دیا، اگر انسان کے سرکے اندرونی حصہ کو یا اس کے پیٹ کے اندرونی حصہ کو دیکھ لیا جائے تو قے آجائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بدصورتی پر خوب صورت جلد کے ساتھ ستر کردیا، یہ انسان پر ستر کا پہلا مرتبہ ہے۔

(٢) انسان کے ذہن میں بعض اوقات برے خیالات آتے ہیں، وہ کوئی شرمناک فعل کرنا چاہتا ہے، کسی کے ساتھ فراڈ کرنا چاہتا ہے، چوری کرنا چاہتا ہے، جوا کھیلنا چاہتا ہے یا کسی کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتا ہے، اس کے یہ عزائم اس کے ذہن میں ہوتے ہیں اور اللہ اس کے عزائم اور منصوبوں کو کسی دوسرے پر ظاہر نہیں فرماتا، یوں اللہ تعالیٰ اس کے برے ارادہ کو اس کے ذہن میں چھپا کر رکھتا ہے اور یہ اس کے ستر کا دوسرا مرتبہ ہے۔

(٣) انسان جب اپنے برے منصوبوں پر عمل کرکے کوئی گناہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو دوسروں سے چھپاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض اوقات وہ اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے اور اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے، ارشاد فرماتا ہے :

الا من تاب وامن وعمل عملا صالحا فاولئک یبدل اللہ سیاتہم حسنت ط وکان اللہ غفورا رحیما (الفرقان : ٧٠)

سو ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کرلی اور ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا، اللہ بہت بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے اللہ تعالیٰ بندوں کے گناہوں کو چھپاتا ہے اور ان پر ستر کرتا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ بندے بھی ایک دوسرے کے عیوب اور قبائح کو چھپائیں اور کسی کی غیبت کرکے اس کے عیب کو ظاہر نہ کریں، حدیث میں ہے : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو بےعزت کرے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہتا ہے اللہ اس کی حاجت روائی میں رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے اللہ اس سے قیامت کے مصائب کو دور کردے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا ستر رکھتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کا ستر رکھے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٤٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٨٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٨٩٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٢٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٢٩١، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٣٩٤)

جو شخص مسلمانوں کی غیبت کرتا ہے، ان کے عیوب تلاش کرنے میں لگارہتا ہے اور نیکی کرنے والے کا بدلہ برائی سے دیتا ہے وہ مسلمانوں کے اوصاف سے کس قدر دور ہے، مسلمانوں کے اوصاف ہوتے ہیں، ان میں عیوب اور محاسن بھی ہوتے ہیں، اسلام کے اوصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ لوگوں کے عیوب سے اپنی آنکھیں بند کرلیں، صرف ان کے محاسن پر نظر ڈالیں، کسی کی برائی کا چرچا نہ کریں، صرف اس کی اچھائیوں کا تذکرہ کریں۔ اس سے پہلے ہم نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ستر کرنے کی تفصیل کی تھی اور آخرت میں اس کے ستر کرنے کا ذکر اس حدیث میں ہے : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (قیامت کے دن) مومن اپنے رب کے نزدیک ہوگا حتیٰ کہ اللہ اس کے اوپر اپنی حفاظت کا بازو رکھ دے گا، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور اس سے پوچھے گا : تو فلاں گناہ کو پہچانتا ہے ؟ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں پہچانتا ہوں، اللہ فرمائے گا : میں نے دنیا میں تجھ پر ستر کیا تھا اور آج میں تجھے بخش دیتا ہوں، پھر اس کی نیکیوں کا صحیفہ لپیٹ دیا جائے گا اور رہے کفار تو تمام لوگوں کے سامنے ان کو نداء کی جائے گی : یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کو جھٹلایا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٨٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٦٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٣، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٦٥٧)

اللہ عتالیٰ غفار ہے، بہت زیادہ مغفرت فرماتا ہے، اس کے سیلاب مغفرت کا کوئی کیا اندازہ کرسکتا ہے۔ حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اس شخص کا علم ہے جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا اور سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا، ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا، پھر کہا جائے گا اس شخص پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کرو اور اس کے بڑے بڑے گناہوں کو اس سے دور رکھو، پھر اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے، پھر اس سے کہا جائے گا : تو نے فلاں دن فلاں فلاں گناہ کیا تھا اور فلاں دن فلاں فلاں اور فلاں گناہ کیا تھا، وہ کہے گا : ہاں اور وہ ان گناہوں کا انکار نہیں کرسکے گا اور وہ اس سے خوف زدہ ہوگا کہ اب اس کے سامنے اس کے بڑے گناہ بھی پیش کردیئے جائیں گے، پھر اس سے کہا جائے گا : تیرے ہر گناہ کے بدلہ میں ایک نیکی ہے، پھر وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے اور بھی بہت گناہ کیے ہیں جو مجھے یہاں نظر نہیں آرہے، میں نے دیکھا کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣١٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٩٦، مسند احمد ج ٥ ص ١٧٠، جامع المسانید والسنن مسند ابوذر رقم الحدیث : ١١٤٥٢ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 5