قُلۡ يٰعِبَادِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ ؕ لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا حَسَنَةٌ ؕ وَاَرۡضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ؕ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوۡنَ اَجۡرَهُمۡ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞- سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 10
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلۡ يٰعِبَادِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ ؕ لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا حَسَنَةٌ ؕ وَاَرۡضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ؕ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوۡنَ اَجۡرَهُمۡ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
ترجمہ:
آپ کہیے : اے میرے ایمان دار بندو ! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک کام کیے ہیں ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، صرف صبر کرنے والوں کو ہی ان کا پورا پورا بےحساب اجر دیا جائے گا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
آپ کہیے : اے میرے ایمان دار بندو ! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک کام کیے ہیں ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، صرف صبر کرنے والوں کو ہی ان کا پورا پورا بےحساب اجر دیا جائے گا آپ کہیے کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اس کی اخلاص کے ساتھ اطاعت کرتے ہوئے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بنوں (الزمر : ١٢۔ ١٠)
نیک اعمال کے اجر حسن سے مراد دنیا کا اجر نہیں، آخرت کا اجر ہے
اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ علم والے اور بےعلم برابر نہیں ہیں اور اب مؤمنین کو یہ حکم دے رہا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد تقویٰ کو حاصل کریں، تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کریں یعنی فرائض کو ترک نہ کریں اور حرام کا ارتکاب نہ کریں، یہ تقویٰ کا پہلا مرتبہ ہے اور تقویٰ کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہوں سے اجتناب کریں یعنی واجبات کو ترک نہ کریں اور مکروہات تحریمہ کا ارتکاب نہ کریں اور تقویٰ کا تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ خلاف سنت اور خلاف اولیٰ کا ارتکاب نہ کریں۔ چونکہ ایمان لانے کے بعد تقویٰ کے حصول کا حکم دیا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں ہیں اور فسق سے ایمان زائل نہیں ہوتا اور معتزلہ اور خوارج کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ فسق سے ایمان زائل ہوجاتا ہے۔
اس آیت میں فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک کا م کیے ہیں ان کے لیے اچھا اجر ہے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اچھے اجر سے مراد صحت اور عافیت ہے اور خوش حالی اور فارغ البالی ہے، لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں صحت عافیت اور خوش حالی تو کفار کو بھی حاصل ہوتی ہے، اکثر مؤمنین اور صالحین تو تنگی اور مفلسی میں زندگی گزارتے ہیں۔ اس کی تائید اس حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدی : ٢٩٥٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٢٤)
اور بلائوں اور بیماریوں میں صالحین کے مبتلاء ہونے کے متعلق یہ احادیث ہیں : حضرت مصعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! لوگوں میں سب سے زیادہ مصائب میں کون مبتلا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : انبیاء، پھر جو ان کے قریب ہو، پھر جو ان کے قریب ہو، ہر شخص اپنے دین کی مقدار کے اعتبار سے مصائب میں مبتلا ہوتا ہے، اگر وہ اپنے دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی مصیبت سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی اس کے اعتبار سے ہوتی ہے، بندہ پر اسی طرح مصائب آتے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس حال میں زمین پر چلتا ہے کہ اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٩٨، مصنف ابن ابی شبہ ج ٣ ص ٣٤٤، مسند احمد ج ١ ص ١٧٢، سنن دارمی رقمالحدیث : ٢٧٨٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٢٣، مسند البزار رقم الحدیث : ١١٥٠، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٨٣٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٩٠١، المستدرک، ج ١ ص ٤١، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٣٦٨، سنن کبریٰ للبہیقی ج ٣ ص ٣٧٢، شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٧٧٥، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٤٣٤)
ابراہیم بن مہدی اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جب اللہ کے نزدیک کسی بندہ کا مرتبہ اس قدر بلند ہوتا ہے کہ وہ اپنے عمل سے اس مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے جسم میں یا اس کے مال میں یا اس کی اولاد کے مصائب میں مبتلا کردیتا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٠٩٠، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢٤٠١)
اس لیے اس آیت میں جو فرمایا ہے : ” جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک کام کیے ہیں ان کے لیے اچھا اجر ہے “ اس اچھے اجر سے مراد دنیا میں اچھا اجر ملنا مراد نہیں ہے کہ نیک کام کرنے والے بہت صحت مند اور خوش حال ہوتے ہیں، جیسا کہ مذکور الصدر احادیث سے واضح ہوگیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کو آخرت میں اچھا اجر ملے گا، اللہ تعالیٰ ان کو جنت عطا فرمائے گا اور اپنی رضا اور اپنے دیدار سے نوازے گا۔
اللہ کی زمین کی وسعت کے تین محامل : دنیا کی زمین کی وسعت، جنت کی زمین کی وسعت……… اور رزق کی وسعت
اس کے بعد فرمایا : ” اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ “ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر مسلمان کافروں کے ملک میں ہوں اور وہاں ان کو اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی آزادی نہ ہو اور وہاں رہنے کی وجہ سے ان کے ایمان، ان کی عزت اور ان کی جان کو خطرہ ہو تو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، وہ کافروں کے ملک سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے ملک میں چلے جائیں یا کسی ایسے کافر ملک میں چلے جائیں جہاں انہیں اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی آزادی ہو اور کوئی خطرہ نہ ہو۔ اس کی زیادہ وضاحت حسب ذیل آیت میں ہے :
ان الذین توفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالو اکنا مستضعفین فی الارض ط قالوا الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھا جروا فیھا ط فاء لئیک ماوھم جھنم وساءت مصیرا (النساء : ٩٧)
جب فرشتوں نے ان لوگوں کی روحوں کو قبض کیا جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے، فرشتوں نے کہا : تم کس کیفیت میں تھے ؟ انہوں نے جواب دیا : ہم زمین میں کمزور تھے، فرشتوں نے کہا : کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے، یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بُرا ٹھکانا ہے یہ آیت ان مسلمانوں کے متعلق نازل ہوئی جو مکہ اور اس کے قریب و جوار میں رہتے تھے اور اپنے وطن اور خاندان کی محبت کی وجہ سے ہجرت سے گریز کررہے تھے، ابتداء میں ہجرت کرنا فرض تھا تاکہ مدینہ میں مسلمانوں کو قوت حاصل ہو اور ان کی مرکزیت قائم ہو، پھر جب مکہ فتح ہوگیا تو پھر ہجرت فرض نہیں رہی، اس پر دلیل حسب ذیل احادیث ہیں : عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبید بن عمبر لیثی کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کی زیارت کی اور آپ سے ہجرت کے حکم کے متعلق سوال کیا، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : اب ہجرت (فرض) نہیں ہے، مسلمان اپنے دین کو بچانے کے لیے اللہ عزوجل اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پناہ کی طرف اس خطرہ سے بھاگتے تھے کہ وہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائیں، اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے اور مسلمان جہاں چاہے اللہ کی عبادت کرسکتا ہے، لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩٠٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٦٤، جامع الاصول رقم الحدیث : ٩٢١٦، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٢٤٠١)
حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ہجرت (فرض) نہیں ہے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٤١٧٧، جامع الاصول رقم الحدیث : ٩٢١٧، جامع المسانید مسند عمر بن الخطاب رقم الحدیث : ٤٧٠) حضرت صفوان بن امیہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! لوگ کہتے ہیں کہ جنت میں مہاجر کے سوا اور کوئی داخل نہیں ہوگا، آپ نے فرمایا : فتح مکہ کے بعد ہجرت (فرض) نہیں ہے، لیکن جہاد اور نیت ہے، جب تم کو جہاد کے لیے بلایا جائے تو چلے جائو۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٤١٨٠)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) نے کہا : یارسول اللہ ! کون سی ہجرت افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم ان کاموں سے ہجرت کرلو (یعنی ان کاموں کو ترک کردو) جو تمہارے رب کو ناپسند ہیں۔ الحدیث (سنن النسائی رقم الحدیث : ٤١٧٦، جامع الاصول رقم الحدیث : ٩٢١٨)
ان احادیث سے واضح ہوگیا کہ ابتداء اسلام میں ہجرت کرنا فرض تھا اور اب ہجرت کرنا فرض نہیں ہے، ہاں جس جگہ مسلمانوں کے ایمان، ان کی عزت اور ان کی جان کا خطرہ ہو اور جہاں اسلام کے احکام پر عمل کرنا مشکل اور دشوار ہو وہاں سے ہجرت کرنا فرض ہے اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے کا معنی یہ ہے کہ جس جگہ بھی انسان اللہ کے احکام پر عمل کرنے کے لیے جائے وہ جگہ بہت وسیع ہے۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اللہ کی زمین سے مراد ہے : جنت کی زمین، یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کے نیک عمل کی وجہ سے اچھا اجر عطا فرمائے گا اور جنت کی عطا سے نوازے گا اور جنت کی زمین بہت وسیع ہے۔ جنت کی زمین پر اس آیت میں دلیل ہے : وقالوا الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشاء ج فنعم اجر العملین (الزمر : ٧٤)
اور انہوں نے کہا : اللہ ہی کے لیے حمد ہے جس نے اپنے وعدہ کو سچا کردیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنادیا کہ ہم جہاں چاہیں جنت میں قیام کرلیں، پس (نیک) عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا اجر ہے ان دو تفسیروں میں پہلی تفسیر راجح ہے یعنی زمین کی وسعت سے مراد دنیا کی زمین کی وسعت ہے یعنی دنیا کی زمین بہت وسیع ہے، تم جس جگہ جاکر اسلام کے احکام پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکو وہاں رہو۔ اس کی زیادہ تفسیر ہم نے النساء : ٧٩ میں کی ہے۔ اس آیت کی تفسیر کا تیسرا محمل یہ ہے کہ زمین کی وسعت سے مراد ہے رزق کی وسعت، کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں کو زمین سے رزق دیتا ہے، سو اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کا رزق بہت وسیع ہے اور یہ معنی اس لیے مناسب ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی نعمت اور اپنے احسان کا ذکر فرمارہا ہے۔
صبر کے معانی
اس کے بعد فرمایا : ” صرف صبر کرنے والوں کو ہی پورا پورا بےحساب اجردیا جائے گا۔ “ صبر کا معنی ہے : نفس کو شریعت اور عقل کے تقاضوں پر جمائے رکھنا، اختلاف مواقع کے اعتبار سے اس کے مختلف معانی ہیں :
(١) کسی مصیبت اور غم کے برداشت کرنے کو صبر کہتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں ہے ماتم کرنا، واویلا کرنا، نوحہ کرنا، رونا پیٹنا، بےچینی اور بےقراری کا اظہار کرنا۔
(٢) میدان جنگ میں بہادری کے ساتھ ثابت قدم رہنے کو بھی صبر کہتے ہیں، اس کے مقابلہ میں ہے بزدلی۔
ان دونوں معنی میں قرآن مجید کی یہ آیت ہے : والصبرین فی الباساء والضراء وحین الباس۔ (البقرہ : ١٧٧)
تنگ دستی، مصیبت اور جنگ کے وقت صبر کرنے والے۔
(٣) عبادت کے مشقت پر اپنے نفس کو جمائے رکھنا، اس کے مقابلہ میں معصیت اور نافرمانی ہے۔
(٤) غلبہ شہوت کے وقت اپنے آپ کو گناہ سے روکنا، اس کے مقابلہ میں فحشاء اور فسق وفجور ہے۔
(٥) غلبہ غضب کے وقت اپنے آپ کو زیادتی سے روکنا، اس کے مقابلہ میں عدوان اور سرکشی ہے۔
ان معافی کے استعمال میں قرآن مجید کی یہ آیات ہیں :
یایھا الذین امنوا اصبرو وصابروا ورابطوا۔ (آل عمران : ٢٠٠)
اے ایمان والو ! عبادت کی مشقت پر ثابت قدم رہو اور جنگ کی شدت میں جمے رہو اور جاد کے لیے تیار رہو۔
” صابرو “ کا یہ معنی بھی ہے : اپنی ناجائز خواہشات کے خلاف جہاد کرتے رہو۔
فاعبدوہ واصطبر لعبادتہ۔ (مریم : ٦٥ )
سو آپ اسی کی عبادت کریں اور اسی کی عبادت پر جمے رہیں۔
(٦) صبر کا ایک معنی روزہ بھی ہے یعنی طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک اپنے نفس کو کھانے پینے اور عمل زوجیت سے روکے رکھنا، اس کے مقابلہ میں افطار ہے، حدیث میں ہے : حضرت علی رضل اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
صوم شھر الصبر و ثلاثۃ ایام من کل شھر یذھبن وحرالصدر۔
صبر کے مہینے کے روزے اور ہر ماہ کے تین روزے سینہ کے کینہ اور غصہ کو دور کردیتے ہیں۔
(مسند البزار رقم الحدیث : ١٠٥٤، مسند ابولعلیٰ رقم الحدیث : ٤٤٢، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کے رجال صحیح ہیں۔ )
صبر کا بےحساب اجر عطا فرمانے کی وجوہ
جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت حساب سے کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو حساب سے اجردے گا، مثلاً اس کی زکوٰۃ ٢٥٥ روپے بنتی ہے تو وہ ٢٥٥ روپے ہی اللہ کی راہ میں دے گا ٦٥٦ روپے نہیں دے گا اور اس کا صدقہ فطر ٣١ روپے بنتا ہے تو وہ ٣١ روپے ہی دے گا ٣٢ روپے نہیں گا، اس کے ذمہ ایک جانور کی قربانی ہے تو ایک جانور ہی کی قربانی کرے گا دو جانوروں کی قربانی نہیں کرے گا، وہ پانچ وقت کی فرض نماز میں ہی پڑھے گا، اس سے زائد نمازیں نہیں پڑھے گا، اسی طرح ایک ماہ کے فرض روزے ہی رکھے گا، اس سے زیادہ روزے نہیں رکھے گا، صرف ایک فرض حج ادا کرے گا، اس کے بعد حج نہیں کرے گا۔ سو جو شخص اللہ کی عبادت حساب سے کرے گا وہ اس کو حساب سے اجر دے گا اور جو اللہ کی عبادت بےحساب کرے گا اس کو وہ بےحساب اجر دے گا، وہ زکوٰۃ، نماز، روزہ اور حج میں حساب نہیں رکھے گا، وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے گا اور اس کی عبادت کرتا رہے گا، خواہ مقدار فرض سے کسی قدر زیادہ ادا ہوجائے۔
امام رازی نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس کے استحقاق عبادت کے لحاظ سے اجر دیتا تو یہ حساب سے اجر ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے فضل سے اجر عطا فرمائے گا اور اس کا فضل بےحساب ہے، اس لیے وہ بےحساب اجر دے گا۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٣١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ) امام رازی نے بھی عمدہ معنی بیان کیا ہے لیکن اس میں بےحساب اجر کے ساتھ صبر کرنے والوں کی خصوصیت ظاہر نہیں ہوتی اور ہم نے جو معنیٰ بیان کیا ہے اس سے بےحساب اجر کی صبر کرنے والوں کے ساتھ خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔
صبر کے جزاء کے متعلق احادیث اور آثار
صبر پر اجر کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں : حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس مسلمان پر بھی کوئی مصیبت آئے اور وہ کہیے : اناللہ وانا الیہ رجعون (البقرہ : ١٥٦) اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا۔ “ ” اے اللہ ! مجھے اس مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس سے بہتر بدل عطا فرما “ تو اللہ تعالیٰ اس کو اس فوت شدہ چیز سے بہتر چیز عطا فرمائے گا، سو جب (میرے شوہر) ابو سلمہ (رض) فوت ہوگئے تو میں نے سوچا : مسلمانوں میں ابو سلمہ سے بہتر کون ہوگا ؟ انہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرا نکاح کرادیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاتم بن ابی بلتعہ کے ذریعہ مجھے نکاح کا پیغام بھیجا۔ میں نے عرض کیا : میری ایک بیٹی بھی ہے اور میں بہت غیرت والی ہوں، آپ نے فرمایا : رہی تمہاری بیٹی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے وہ اس سے مستغنی کردے اور رہی تمہاری غیرت تو میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ تمہاری غیرت کو دور کردے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩١٨، مسند احمد ج ٦ ص ٣٠٩، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٨)
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کسی بندہ کا بچہ فوت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے : تم نے میرے بندہ کے بچہ کی روح کو قبض کرلیا، وہ کہیں گے : جی ہاں ! وہ فرمائے گا : تم نے اس کے دل کے پھل کو قبض کرلیا، وہ کہیں گے : جی ہاں ! وہ فرمائے گا : پھر بندہ نے کیا کہا ؟ وہ کہیں گے : اس نے تیری حمد کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، اللہ فرمائے گا : میرے اس بندہ کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٢١، مسند احمد ج ٤ ص ٤١٥، جامع الاصول رقم الحدیث : ٤٦٢٤)
حضرت خباب بن ارت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے سائے میں ایک چادر سے تکیہ لگائیے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے شکایت کرتے ہوئے کہا : کیا آپ ہمارے لیے مدد طلب نہیں کریں گے، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص کو پکڑ لیا جاتا تھا، پھر اس کے لیے زمین کھودی جاتی تھی اور اس کو اس میں گاڑ دیا جاتا تھا، پھر اس کے سر پر آری رکھ کر اس کو چیر کردو ٹکڑے کردیئے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھی سے اس کے بدن کو چھیل کر اس کے گوشت اور خوس سے کاٹ کر گزارا جاتا تھا اور یہ ظلم بھی ان کو ان کے دین سے برگشتہ نہیں کرتا تھا اور اللہ کی قسم ! اللہ ضرور اپنے اس دین کو مکمل فرمائے گا حتیٰ کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک کا سفر کرے گا اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا اور بھیڑیا بکریوں کی حفاظت کرے گا لیکن تم لوگ عجلت کرتے ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٤٤، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٦٤٩، مسند احمد ج ٥ ص ١٠٩)
یحییٰ بن وثاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک معمر صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مسلمان لوگوں سے مل جل کر رہتا ہو اور ان کی پہنچائی ہوئی اذیتوں پر صبر کرتا ہو وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی دی ہوئی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٠٧، مسند احمد ج ٥ ص ٣٦٥، جامع الاصول رقم الحدیث : ٤٦٣٩)
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے کہا : جس شخص میں چار خصلتیں ہوں، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنادے گا، جو شخص اپنی حفاظت لا الہ الا اللہ سے کرے اور جب اس پر کوئی مصیبت آئے تو کہے : انا للہ وانا الیہ راجعون اور جب اسے کوئی چیز دی جائے تو وہ کہے : لا الہ الا اللہ اور جب اس سے کوئی گناہ ہوجائے تو کہے : استغفر اللہ۔
(شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٦٩٢، ج ٧ ص ١١٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٠ ھ)
حسن بصری نے کہا : ایمان صبر اور سخاوت ہے یعنی اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں پر صبر کرنا اور اس کے فرائض کو ادا کرنا۔ (شعب الایمان ج ٧ ص ١٢٢، رقم الحدیث : ٩٧٠٩، دارالکت العلمیہ، بیروت، ١٤١٠ ھ)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایمان کے دو نصف ہیں : نصف صبر ہے اور نصف شکر ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٧١٥) حضرت حسین بن علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے، وہ جب بھی اس مصیبت کو یاد کرکے کہے : انا للہ وانا الیہ راجعون تو اللہ اس کو نیا ثواب عطا فرماتا ہے، اس دن کی طرح جب اس پہلی بار مصیبت آئی تھی خواہ کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦٠٠، مسند احمد رقم الحدیث : ١٧٣٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
حضرت جبار (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن جب اہل عافیت مصائب پر صبر کرنے والوں کا اجروثواب دیکھیں گے تو یہ تمنا کریں گے کہ کاش ! دنیا میں ان کی کھال کو قینچی کے ساتھ کاٹ دیا جاتا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٠٢، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٢٤١، سنن بیہقی ج ٣ ص ٣٧٥، جام المسانید والسنن مسندہ جابر رقم الحدیث : ١١٤٠)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن شہید کو لایا جائے گا اور اس کو حساب کے لیے کھڑا کیا جائے گا، پھر ان کو لایا جائے گا جنہوں نے دنیا میں مصائب پر صبر کیا تھا، ان کے لیے میزان کو قائم کیا جائے گا نہ ان کا دفتر عمل کھولا جائے گا، پھر ان پر ان کا اجر اس قدر انڈیلا جائے گا حتیٰ کہ اہل عافیت حشر کے دن یہ تمنا کریں گے کہ کاش ! دنیا میں ان کے جسم کو قینچی کے ساتھ کاٹ ڈالا جاتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو بہت اچھا ثواب عطا فرمائے گا۔
(حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ٩١، طبع قدیم، دارالکتاب العربی : ١٤٠٧ ھ، حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ١٠٨، رقم الحدیث : ٣٣٥٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 10