لَهُمۡ مِّنۡ فَوۡقِهِمۡ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنۡ تَحۡتِهِمۡ ظُلَلٌ ؕ ذٰ لِكَ يُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ ؕ يٰعِبَادِ فَاتَّقُوۡنِ ۞- سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 16
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَهُمۡ مِّنۡ فَوۡقِهِمۡ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنۡ تَحۡتِهِمۡ ظُلَلٌ ؕ ذٰ لِكَ يُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ ؕ يٰعِبَادِ فَاتَّقُوۡنِ ۞
ترجمہ:
ان کے اوپر بھی آگ کے سائبان ہوں گے اور ان کے نیچے بھی آگ کے سائبان ہوں گے، یہ وہ عذاب ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اے میرے بندو ! سو تم مجھ سے ڈرتے رہو
الزمر : ١٦ میں فرمایا : ” ان کے اوپر بھی آگے کے سائبان ہوں گے اور ان کے نیچے بھی آگے کے سائبان ہوں گے۔ “
آگ کے اوپر تلے حصوں کو آگ کے سائبان کہتے کی توجیہ
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے عذاب کی کیفیت بیان فرمائی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ دوزخ کی آگ ان کو تمام اطراف سے گھیر لے گی۔ جس طرح دنیا میں کافر کا احاطہ اس کے کفر اور اس کے برے اعمال نے کیا ہوا تھا، اسی طرح آخرت میں دوزخ کی آگ اس کا ہر طری سے احاطہ کرلے گی۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ سائے بان تو اوپر ہوتا ہے، انسان کے نیچے تو سائبان نہیں ہوتا، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ایک ضد کا اطلاق دوسری ضد پر کیا گیا ہے اور سائبان سے مراد ہے : آگ، یعنی ان کے اوپر بھی آگ ہوگی اور ان کے نیچے بھی آگ ہوگی، جیسا کہ درج ذیل آیت میں حسنہ پر سیئہ کا اطلاق کیا گیا ہے :
جزء وسیئۃ سیئۃ مثلھا (الشوریٰ : ٤٠) بُرائی کا بدلہ اتنی ہی برُائی ہے۔ جب کہ بُرائی کا بدلہ تو انصاف اور نیکی ہے لیکن صورتاً مماثل ہونے کی وجہ سے اس کو بھی بُرائی فرمایا گیا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ دو خ میں پیاز کے چھلکوں کی طرح متعدد طبقات ہیں اور ایک طبقہ دالوں کے لیے جو دوزخ کا فرض ہے اس سے نچلے طبقہ والوں کے لیے سائبان ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ نچلا سائبان بھی گرمی، جلانے اور اذیت پہنچات۔ نے میں اوپر والے سائبان کی مثل ہے، اس مماثلت اور مشابہت کی بناء پر نیچے والے کو بھی سائبان فرمایا، جیسے جرم اور عدل دونوں کو مماثلت اور مشابہت کی وجہ سے سیئہ فرمایا، جب کسی شخص نے کسی بےقصور کو گھونسا مارا تو یہ جرم ہے اور اس کے بدلہ میں مارنے والے کو جو گھونسا مارا، وہ عدل ہے لیکن صورتاً دونوں مماثل ہیں، اس لیے الشوریٰ : ٤٠ میں دونوں کو سیئہ فرمایا، اسی طرح دوزخ کا اوپر والا حصہ اور نچلا حصہ حرارت، سوزش اور ایذاء میں یکساں ہیں، اس لیے دونوں کو سائے بان فرمایا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ سایہ تو گرمی سے ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور یہ دونوں حصے تو گرم اور سوزاں ہوں گے، پھر ان کو سائبان کیوں فرمایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سائے بان اس قدر دبیز اور موٹا ہوتا ہے کہ جو شخص اس کے نیچے کھڑا ہو وہ اس کے پار نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح دوزخ کے ہر طبقہ کا اوپری حصہ اس قدر کثیف اور غلیظ ہوگا کہ اس کے پار کچھ دکھائی نہیں دے گا، اس مناسبت سے اس کو سائبان فرمایا۔ دوزخ کے اوپر تلے جو حصص ہوں گے ان کو اسی طرح سائبان فرمایا ہے جیسا کہ حسب ذیل آیت میں ہے :
یوم یغشھم العذاب من فوقھم ومن تحت ارجلہھ ویقول ذوقواما کنتم تعملون۔ (العنکبوت : ٥٥) جس دن عذاب ان کو ڈھانپ لے گا ان کے اوپر سے اور ان کے نیچے سے اور اللہ فرمائے گا : اب اپنے (برے) اعما کا مزا چکھو
لھم من جھنم مھاد ومن فوقھم غواش ط وکذلک نجزی الظلمین (الاعراف : ٤١ )
ان کے لیے دوزخ کی آگ کا بستر ہوگا اور ان کے اوپر (اسی آگ کا) اوڑھنا ہوگا اور ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں
اے میرے بندو ! ، آیا اس کے مخاطب مومن ہیں یا کافر ؟ اس کے بعد فرمایا : ” یہ وہ عذاب ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اے میرے بندو ! تم مجھ سے ڈرتے رہو۔ “ اس عذاب سے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ڈرایا ہے اور قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں مؤمنوں کو فرماتا ہے تو پھر یہاں کس وجہ سے فرمایا : ” یہ وہ عذاب ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اے میرے بندو ! سو تم مجھ سے ڈرتے رہو “ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عذات کافروں کو ہی دیا جائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس عذاب سے اپنے مومن بندوں کو ڈرایا ہے کہ تم کافروں کے سے کام نہ کرنا، مبادا تم بھی اس عذاب میں گرفتار ہوجائو اور مقصود یہ ہے کہ کفار کے عذاب کو بیان کرکے مؤمنوں کو ڈرایا جائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بہت زیادہ ڈرتے رہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 16
[…] خانوں کے اوپر اور بالاخانے بنے ہوئے ہیں، اس سے پہلی آیت الزمر : ١٦ میں فرمایا تھا کہ کفار کے لیے دوزخ میں آگ کے سائبان ہیں […]