کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 19 رکوع 1 سورہ الفرقان آیت نمبر 21 تا 34
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓىٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَاؕ-لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا(۲۱)
اور بولے وہ لوگ جو (ف۴۰) ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے ہم پر فرشتے کیوں نہ اُتارے (ف۴۱) یا ہم اپنے رب کو دیکھتے (ف۴۲) بےشک اپنے جی میں بہت ہی اُونچی کھینچی اور بڑی سرکشی پر آئے (ف۴۳)
(ف40)
کافِر ہیں حشر و بعث کے معتقد نہیں اسی لئے ۔
(ف41)
ہمارے لئے رسول بنا کر یا سیدِ عالم محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوّت و رسالت کے گواہ بنا کر ۔
(ف42)
وہ خود ہمیں خبر دے دیتا کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔
(ف43)
اور ان کا تکبُّر انتہا کو پہنچ گیا اور سرکشی حد سے گزر گئی کہ معجزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ملائکہ کے اپنے اوپر اترنے اور اللہ تعالٰی کو دیکھنے کا سوال کیا ۔
یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓىٕكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَىٕذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَ یَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا(۲۲)
جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے (ف۴۴) وہ دن مجرموں کی کوئی خوشی کا نہ ہوگا (ف۴۵) اور کہیں گے الٰہی ہم میں ان میں کوئی آڑ کردے رُکی ہوئی (ف۴۶)
(ف44)
یعنی موت کے دن یا قیامت کے دن ۔
(ف45)
روزِ قیامت فرشتے مؤمنین کو بشارت سنائیں گے اور کُفّار سے کہیں گے تمہارے لئے کوئی خوشخبری نہیں ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ فرشتے کہیں گے کہ مؤمن کے سوا کسی کے لئے جنّت میں داخل ہونا حلال نہیں اس لئے وہ دن کُفّار کے واسطے نہایت حسرت و اندوہ اور رنج وغم کا دن ہو گا ۔
(ف46)
اس کلمے سے وہ ملائکہ سے پناہ چاہیں گے ۔
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳)
اور جو کچھ انہوں نے کام کیے تھے(ف۴۷)ہم نے قصد فرماکر اُنہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرّے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں (ف۴۸)
(ف47)
حالتِ کُفر میں مثل صلہ رحمی و مہمان داری و یتیم نوازی وغیرہ کے ۔
(ف48)
نہ ہاتھ سے چھوئے جائیں نہ ان کا سایہ ہو ۔ مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کر دیئے گئے ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں میسّر نہ تھا اس کے بعد اہلِ جنّت کی فضیلت ارشاد ہوتی ہے ۔
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ یَوْمَىٕذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِیْلًا(۲۴)
جنت والوں کا اُس دن اچھا ٹھکانا (ف۴۹) اور حساب کے دوپہر کے بعد اچھی آرام کی جگہ
(ف49)
اور ان کی قرار گاہ ان مغرور متکبِّر مشرکوں سے بلند و بالا بہتر و اعلٰی ۔
وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓىٕكَةُ تَنْزِیْلًا(۲۵)
اور جس دن پھٹ جائے گا آسمان بادلوں سے اور فرشتے اُتارے جائیں گے پوری طرح (ف۵۰)
(ف50)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا آسمانِ دنیا پھٹے گا اور وہاں کے رہنے والے (فرشتے) اتریں گے اور وہ تمام اہلِ زمین سے زیادہ ہیں جن و انس سب سے پھر دوسرا آسمان پھٹے گا وہا ں کے رہنے والے اتریں گے وہ آسمانِ دنیا کے رہنے والوں سے اور جن و انس سب سے زیادہ ہیں اسی طرح آسمان پھٹتے جائیں گے اور ہر آسمان والوں کی تعداد اپنے ماتحتوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ ساتواں آسمان پھٹے گا پھر کرّوبی اتریں گے پھر حاملینِ عرش اور یہ روزِ قیامت ہو گا ۔
اَلْمُلْكُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِؕ-وَ كَانَ یَوْمًا عَلَى الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا(۲۶)
اس دن سچی بادشاہی رحمٰن کی ہے اور وہ دن کافروں پر سخت ہے (ف۵۱)
(ف51)
اور اللہ کے فضل سے مسلمانو ں پر سہل ۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کا دن مسلمانوں پر آسان کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ان کے لئے ایک فرض نماز سے ہلکا ہوگا جو دنیا میں پڑھی تھی ۔
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(۲۷)
اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا (ف۵۲) کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی (ف۵۳)
(ف52)
حسرت و ندامت سے ۔ یہ حال اگرچہ کُفّار کے لئے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے اس کا خاص تعلق ہے ۔
شانِ نُزول : عقبہ بن ابی معیط اُبَیْ بن خلف کا گہرا دوست تھا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمانے سے اس نے لَآاِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کی شہادت دی اور اس کے بعد ابی بن خلف کے زور ڈالنے سے پھر مرتَد ہو گیا اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مقتول ہونے کی خبر دی چنانچہ بدر میں مارا گیا ۔ یہ آیت اس کے حق میں نازِل ہوئی کہ روزِ قیامت اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہوگی اس حسرت میں وہ اپنے ہاتھ چاب چاب لے گا ۔
(ف53)
جنّت و نجات کی اور ان کا اِتّباع کیا ہوتا اور ان کی ہدایت قبول کی ہوتی ۔
یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸)
وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹)
بےشک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے (ف۵۴) اور شیطان آدمی کو بے مدد چھوڑ دیتا ہے (ف۵۵)
(ف54)
یعنی قرآن و ایمان سے ۔
(ف55)
اور بلا و عذاب نازِل ہونے کے وقت اس سے علیٰحدگی کرتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ابوداؤد و ترمذی میں ایک حدیث مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو دیکھنا چاہئیے کس کو دوست بناتا ہے اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہم نشینی نہ کرو مگر ایمان دار کے ساتھ اور کھانا نہ کھلاؤ مگر پرہیزگار کو ۔
مسئلہ : بے دین اور بدمذہب کی دوستی اور اس کے ساتھ صحبت و اختلاط اور اُلفت و احترام ممنوع ہے ۔
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا(۳۰)
اور رسول نے عرض کی کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرالیا (ف۵۶)
(ف56)
کسی نے اس کو سحر کہا کسی نے شعر اور وہ لوگ ایمان لانے سے محروم رہے اس پر اللہ تعالٰی نے حضور کو تسلی دی اور آپ سے مدد کا وعدہ فرمایا جیسا کہ آگے ارشاد ہوتا ہے ۔
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَؕ-وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا(۳۱)
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے دشمن بنادئیے تھے مجرم لوگ (ف۵۷) اور تمہارا رب کافی ہے ہدایت کرنے اور مدد دینے کو
(ف57)
یعنی انبیاء کے ساتھ بدنصیبوں کا یہی معمول رہا ہے ۔
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةًۚۛ-كَذٰلِكَۚۛ-لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا(۳۲)
اور کافر بولے قرآن ان پر ایک ساتھ کیوں نہ اتار دیا (ف۵۸) ہم نے یونہی بتدریج اُسے اُتارا ہے کہ اس سے تمہارا دل مضبوط کریں (ف۵۹) اور ہم نے اُسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا (ف۶۰)
(ف58)
جیسے کہ توریت و انجیل و زبور میں سے ہر ایک کتاب ایک ساتھ اتری تھی ۔ کُفّار کا یہ اعتراض بالکل فضول اور مہمل ہے کیونکہ قرآنِ کریم کا معجِزہ و محتج بہٖ ہونا ہر حال میں یکساں ہے چاہے یکبارگی نازِل ہو یا بتدریج بلکہ بتدریج نازِل فرمانے میں اس کے اعجاز کا اور بھی کامل اظہار ہے کہ جب ایک آیت نازِل ہوئی اور تحدّی کی گئی اور خَلق کا اس کے مثل بنانے سے عاجز ہونا ظاہر ہوا پھر دوسری اتری اسی طرح اس کا اعجازظاہر ہوا اس طرح برابر آیت آیت ہو کر قرآنِ پاک نازِل ہوتا رہا اور ہر ہر دم اس کی بے مثالی اور خَلق کی عاجزی ظاہر ہوتی رہی غرض کُفّار کا اعتراض مَحض لغو و بے معنٰی ہے ، آیت میں اللہ تعالٰی بتدریج نازِل فرمانے کی حکمت ظاہر فرماتا ہے ۔
(ف59)
اور پیام کا سلسلہ جاری رہنے سے آپ کے قلبِ مبارک کو تسکین ہوتی رہے اور کُفّار کو ہر ہر موقع پر جواب ملتے رہیں علاوہ بریں یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کا حفظ سہل اور آسان ہو ۔
(ف60)
بہ زبانِ جبریل تھوڑا تھوڑا بیس یا تئیس برس کی مدّت میں یا یہ معنٰی ہیں کہ ہم نے آیت کے بعد آیت بتدریج نازِل فرمائی اور بعض نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں قراءت میں ترتیل کرنے یعنی ٹھہر ٹھہر کر بہ اطمینان پڑھنے اور قرآن شریف کو اچھی طرح ادا کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا” وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ”۔
وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًاؕ(۳۳)
اور وہ کوئی کہاوت تمہارے پاس نہ لائیں گے (ف۶۱) مگر ہم حق اور اس سے بہتر بیان لے آئیں گے
(ف61)
یعنی مشرکین آپ کے دین کے خلاف یا آپ کی نبوّت میں قدح کرنے والا کوئی سوال پیش نہ کر سکیں گے ۔
اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَۙ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠(۳۴)
وہ جو جہنم کی طرف ہان کے جائیں گے اپنے منہ کے بل ان کا ٹھکانا سب سے برا (ف۶۲) اور وہ سب سے گمراہ
(ف62)
حدیث شریف میں ہے کہ آدمی روزِ قیامت تین طریقے پر اٹھائے جائیں گے ایک گروہ سواریوں پر ، ایک گروہ پیادہ پا اور ایک جماعت منہ کے بل گھسٹتی ، عرض کیا گیا یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ منہ کے بل کیسے چلیں گے ؟ فرمایا جس نے پاؤں پر چلایا ہے وہی منہ کے بل چلائے گا ۔