آہ! مولانا اختر مصباحی صاحب بھی چل دیے
sulemansubhani نے Sunday، 6 June 2021 کو شائع کیا.
::: آہ! مولانا اختر مصباحی صاحب بھی چل دیے! :::
آج صبح سات بجے نوجوان عالمِ دین، مخلص اور ہم دم دوست – مولانا اختر رضا مصباحی (مہراج گنج) Mohammad Akhtar Raza کا انتقال ہو گیا۔
میں آفس جانے کی تیاری میں تھا کہ یہ المناک خبر محب گرامی مولانا نور محمد حسنی پیلی بھیتی صاحب نے واٹس ایپ پر دی۔ یقین نہیں ہوا، ۲۹ مئی کو ہی مولانا صاحب سے آخری بات ہوئی تھی۔
تقریبا ایک ماہ پہلے، رمضان مبارک کے بعد، مولانا کورونا کے شکار ہوگئے تھے، گھر پر علاج چلتا رہا، مقامی ڈاکٹروں کے پاس بھی جاتے رہے، کچھ دن پہلے گورکھپور علاج کے لیے پہنچے۔ مسلسل علاج چل رہا تھا۔ امید تھی کہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔ مگر رب تعالی کو کچھ اور منظور تھا، درجہ شہادت پر پہنچانا تھا، اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرنا تھا، حبیب پاک ﷺ کی بارگاہ میں پہنچانا تھا۔ اور آج وہ کم عمری میں خلد بریں پہنچ گئے۔
إنا لله وإنا إليه رٰجعون
مولانا سے کبھی شخصی ملاقات نہ تھی، نہ پرانی کوئی دوستی تھی۔ کچھ 6 مہینوں کا برقی تعلق تھا، مگر ایسا لگتا تھا کہ کئی صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے اور پہنچانتے ہیں۔
دسمبر ۲۰۲۰ میں انہوں نے حضرت مولانا صادق مصباحی (مہارج گنج) کے توسط سے مجھ سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا۔ وہ امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ کی کتاب “الدرۃ المضیئہ” کا اردو ترجمہ “زیارتِ روضۂ مصطفیﷺ” کے نام سے بڑی محنت اور شوق سے کرچکے تھے، اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن کے ذریعے شائع کروانا چاہتے تھے۔ مگر میں ان دونوں کافی الجھا ہوا تھا، کافی ذمہ داریوں سے گھرا ہوا تھا، دیگر بھی مصروفیات تھیں اور کچھ وعدوں کو نبھانہ بھی تھا۔ میں نے معذرت کرلی اور کچھ احباب کے بارے میں بتایا کہ یہ لوگ شائد انتظام کردیں اور اپنے یہاں سے شائع کر دیں۔ امید بھی ہوچکی تھی کہ کتاب شائع ہوجائے گی۔۔۔ مگر مارچ میں مولانا نے پھر سے رابطہ کیا اور کتاب کے تعلق سے بتایا کہ اس کا انتظام نہ ہوسکا۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگا، ارادہ کرلیا کہ حالات سازگار ہوتے ہی ادارے کی دیگر کتابوں کے ساتھ شائع کروں گا۔ مولانا سے اس سلسلہ میں کافی باتیں ہوتی تھیں، انپیج میں دوبارہ اس کتاب کی مکمل سیٹنگ ہوئی اور فائنل ہوکر مجھ تک پہنچ گئی۔
ہمیں اسلاف کی کتابوں نے قریب کردیا تھا، بزرگوں کے احوال و آثار سے دل چسپیوں نے ملا دیا تھا، دوستی اور قربت بہت بڑھ گئی تھی۔ اسی دوران کچھ اور موضوعات پر کام کرنے کا پلان بنا اور میں نے مولانا کی خدمت میں گذارش کرتے ہوئے کچھ مخطوطات اور کتابیں ارسال کیں، مارچ سے لے کر رمضان کے اخیر تک اسی سلسلہ میں متعدد بار فون پر بات ہوئی، واٹس ایپ پر مختلف موضوعات اور کتابوں پر گھنٹوں چیٹنگ ہوتی رہتی تھی۔ ہماری گزارش پر مولانا نے امام ابو سعید طوسی کی فضائل فقراء پر “الاربعین” کا ترجمہ و تخریج کا کام 12 رمضان المبارک کو مکمل کیا۔ اس کے بعد حضرت ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے فضائل و مناقب پر شیخ عبد اللہ بن ابراھیم کے ایک مخطوطہ “المقاصد الفخری” کا ترجمہ کررہے تھے۔
مولانا علیہ الرحمہ بڑے کام کے مولانا تھے۔ بڑی خوبیوں کے مالک تھے، اسلاف سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے، تحقیق اور لکھنے کا کافی شوق تھا، مختلف موضوعات پر لکھنے کی خواہش ظاہر کرتے رہتے تھے، رمضان میں اپنے ایک دوست مولانا شاہ عالم مصباحی صاحب کو بھی تصنیفی کام کے لیے آمادہ کرلیا تھا۔
مستقل مزاجی سے کام کرنا، نپی تلی بات کرنا، سب کے خیر خواہ رہنا، یہ چند صفات ان کے بے شمار خوبیوں میں سے تھے۔
اللہ عزوجل حضرت مولانا اختر مصباحی علیہ الرحمہ کے
تمام دینی و تصنیفی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، انھیں جنت اعلی میں مقام عطا فرمائے، ان کے اہل خاندان، والدین، اہل و عیال اور تمام پس ماندگان و وابستگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین!
شریکِ غم:
بشارت علی صدیقی قادری
اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن
حیدر آباد دکن۔
ٹیگز:-
بشارت علی صدیقی قادری