بعض اوقات مصنف کسی کتاب سے کوئی عبارت نقل کرتا ہے تو اس سے نقل کرنے میں خطا ہو جاتی ہے اور وہ اس عبارت سے غلط مفهوم اخذ کر لیتا ہے۔ اس لیے ایک محقق کے لیے اس بات کا التزام ضروری ہے کہ اگر اس کے پاس منقول عنه کتاب بھی دستیاب ہو تو ایک بار اس میں ضرور مراجعت کر لے۔

امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمه الله نے ایسے کئی مقامات پر ناقلین کی خطا پر متنبہ فرمایا ہے ، چند مقامات ذکر کرتا ہوں:

1) امام طحاوی رحمه الله کے متعلق آئمہ احناف کی کتب میں یہ مصرح ہے کہ آپ رحمه الله ہاشمی حضرات کو زکوٰۃ دینے کے جواز کے قائل ہیں لیکن امام اہلسنت رحمه الله نے جب اس مسئلے پر مکمل رسالہ لکھا اور اس موقف پر ادلہ قائم کیے کہ ہاشمی حضرات اور سادات کرام کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے تو آخر میں امام طحاوی رحمه الله کی اصل عبارت سے مراجعت فرما کر اس کا درست مفهوم بیان فرمایا جسے پڑھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام طحاوی رحمه الله قطعاً اس بات کے قائل نہیں رہے کہ سادات یا ہاشمی حضرات کو زکوٰۃ دینا جائز ہے بلکہ وہ تو نفلی صدقے دینے کی بھی حرمت کے قائل ہیں۔ بس آئمہ حضرات سے اس مسئلے کے فہم میں خطا ہوئی اور یہ خطا نقل در نقل یوں ہی چلتی رہی ہے ، امام اہلسنت رحمه الله فرماتے ہیں:

” بالجملہ کلام امام طحاوی بہ اعلیٰ ندا منادی کہ وہ ہرگز اس روایت ضعیفہ کی ترجیح و تصحیح کے پاس بھی نہیں بلکہ قطعاً تحریم پر جازم، اور اس میں بھی یہاں تک جازم کہ تحریم نافلہ پر بھی حاکم، کما ھو المرجح عند المحقق علی الاطلاق والبعض الاٰخرین من الحذاق غالباً ابتدا، میں بمتقضائے یابی اﷲالعصمة الا لکلامه و کلام رسوله صلی اللّٰه علیه و اله و سلم (عصمت صرف کلام ﷲاور کلامِ رسول صلی الله علیه و اله و سلم کو ہی حاصل ہے۔ت) بعض علمائے ناقلین کی نظر نے لغزش فرمائی اور بھذا ناخذ(اسی پر ہمارا عمل ہے۔ت) کی مشارالیہ وُہ روایت ضعیفہ خیال میں آئی پھر علمائے مابعد ، نقل در نقل فرماتے چلے آئے نقد یا مراجعت کا اتفاق نہ ہُوا۔

( فتاویٰ رضویہ || ج10 || ص285 )

ایک مقام پر علامہ شامی رحمه الله نے سراجیہ کی ایک عبارت پر اقتصار کر کے اپنے موقف پر اسے پیش کیا ، امام اہلسنت رحمه الله نے نے جب سراجیہ کا اصل نسخہ دیکھا اور عبارت مکمل نقل فرمائی تو یہ عبارت امام شامی رحمه الله کے موقف کے بر خلاف نکلی۔ اس پر امام اہلسنت رحمه الله نے فرمایا:

” ایسی ہی باتوں کے پیشِ نظر یہ متعین ہو جاتا ہے کہ منقول عنه کے موجود اور دستیاب ہونے کی صورت میں اس کی مراجعت کر لینی چاہیے ہو سکتا ہے کہ اس سے کوئی ایسی بات منکشف ہو جو نقل سے ظاہر نہیں ہوتی اگرچہ نقل کرنے والا ثقه و معتمد ہو۔”

( فتاویٰ رضویہ || ج1 || ص186 )

علامہ شامی رحمه الله نے شرح عقود رسم المفتی کے اندر با قاعدہ اس پر باب باندھا ” وقوع الخطا فی النقل فی الکتب الفقیهه و أمثاله ” اور اس حوالے سے کثیر مقامات ذکر فرمائے ہیں۔

ایک مقام ملاحظہ کیجیے ، علامہ شامی رحمه الله فرماتے ہیں:

صاحب فتاویٰ بزازیہ نے گستاخ رسول کے متعلق یہ مسئلہ ذکر کیا کہ وہ اگرچہ توبہ کر لے اور اسلام لے آئے لیکن اس کی توبہ مقبول نہیں اور اس مسئلہ کی نسبت انہوں نے شفا شریف اور الصارم المسلول کی طرف فرمائی پھر بعد کے آنے والے علمائے احناف نے حتی کہ امام ابن الهمام نے اسے نقل در نقل اپنی کتب میں ذکر کیا حالانکہ شفاء شریف اور الصارم المسلول میں یہ مذہب شوافع اور حنابلہ کا لکھا گیا اور ایک روایت امام مالک سے نقل کی گئی ہے اور اس بات پر جزم کی گئی ہے کہ ہمارے نزدیک ( یعنی عند الاحناف ) اس کی توبہ مقبول ہے اور یہی ہماری مذہب کی کتب متقدمہ مثلاً کتاب الخراج لابی یوسف ، شرح مختصر امام طحاوی اور النتف وغیرہ میں مذکور ہے۔

( عقود رسم المفتی || ص80-81 )

از: غلام رضا

06-06-2021ء