بعض جہلا “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” حدیث سے مولی علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت مطلقہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے اثبات میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں مولی کا معنی آقا و سردار کے ہے لہذا مولی علی رضی اللہ عنہ تمام امت کے سردار ہیں اور امت میں سب سے افضل ہیں۔۔۔۔

اقول بتوفیق اللہ_تعالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ استدلال بالکل فاسد ہے اور اس کے فساد کی چند وجوہات ہیں۔

1) مولی کا معنی صرف آقا نہیں بلکہ یہ کثیر معنی میں مستعمل ہے ، تو اتنے کثیر معنی میں ہونے کے باوجود آقا والا معنی لینے پر کوئی دلیل ؟؟؟

2) کثیر شارحین مثلاً شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ و مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ نے صراحت فرمائی ہے کہ یہاں مولی بمعنی آقا نہیں بلکہ مولی بمعنی دوست ہے۔

3) مولی کو اگر آقا کے معنیٰ میں لے بھی لیا جائے پھر بھی بداہتہ اس حدیث سے کثیر افراد مستثنیٰ شمار کیے جائیں گے جن کی مولی علی رضی اللہ عنہ پر افضلیت دلائل قطعیہ سے ثابت ہے مثلاً انبیائے کرام علیہم السلام اور شیخین کریمین رضی اللہ عنہما وغیرہم ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر مولی کا معنی لینے کے بعد اس حدیث میں تخصیص نہ کی جائے تو اس سے کئی اجماعی اور ضروریاتِ دین والے عقیدوں پر حرف آتا ہے اور وہ اس طرح کہ سرکار علیہ الصلاۃ والسلام تو انبیا کے بھی سردار ہیں تو اگر مولی علی رضی اللہ عنہ بھی ان کے سردار شمار کیے جائیں تو معاذ اللہ اس سے ضروریت دین کا صریح انکار لازم آتا ہے۔

4) اگر مذکورہ بالا خرابیاں لازم نہ بھی آئیں تب بھی یہ حدیث افضلیت ثابت کرنے کی بالکل صلاحیت نہیں رکھتی کیونکہ مسئلہ افضلیت عقائد کا مسئلہ ہے اور عقائد کا اثبات صرف آیت قرآنی یا حدیث متواترہ سے ہو سکتا ہے اور علم حدیث کا فہم رکھنے والے پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ حدیث قطعاً حدیث متواترہ نہیں ہے لہذا اس سے مسئلہ افضلیت ثابت کرنا تصویر میں بنے بادل سے بارش طلب کرنے کے مترادف ہے۔

اللہ پاک ہمیں عقیدہ حقہ اہلسنت پر استقامت نصیب فرمائے۔

⁦✍️⁩غلام رضا

06/06/2020ء