آپ روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں

اگر واٹر ٹینک میں گندا پانی ہو تو ٹونٹی سے بھی گندا پانی ہی آئے گا…

اور اگر ٹینکی میں صاف ستھرا؛ پاکیزہ پانی ہوا تو ٹونٹی سے بھی پاکیزہ پانی ہی آئے گا…

ماں باپ کو واٹر ٹینک تصور کیجئے اور اولاد کو ٹونٹیاں جو کچھ ماں باپ کے پاس ہوگا وہیں اولاد کو منتقل کریں گے….

دوسری مثال

اگر آپ کے ہاتھ میں ایک خالی جگ ہو اور اس میں سے آپ کچھ گلاس میں ڈالنا چاہیں تو کچھ بھی نہیں ڈال پائیں گے

اور آپ غصے سے گلاس کو ہی توڑ ڈالیں

کیا یہ سراسر جہالت نہیں؟

ماں باپ جگ کی مانند ہیں اور اولاد گلاس کی طرح …..

اگر آپ کے دل و دماغ کا جگ تربیت سے خالی ہے تو غصے سے اولاد کو مت توڑیے (مت ماریں ) …

یورپ میں بالخصوص اٹلی میں سینکڑوں اسلامی مراکز ہیں جہاں پر نسلوں کی نسلیں اسلام سے جڑی ہوئی ہیں اور یہاں پر پیدا ہونے کے بعد اللہ کے گھروں کو آباد بھی کرتے ہیںں اور قرآن بھی پڑھتے ہیں اخلاقی اعتبار سے بھی تربیت یافتہ ہیں اور اس کا یقینی سبب ان کے والدین ہیں…

کیونکہ جو والدین کلچر اور اسلام سے جڑے رہے اور اپنی اولاد کو بھی جوڑے رکھا وہ خالی برتن نہیں ہیں …..

اور جنہوں نے خود اسلام کا مذاق اڑایا اپنے کلچر سے نفرت کی یورپین کلچر کو اپنانا اپنے لئے فخر سمجھا

اور پھر ایک ہی دن میں ان کی غیرت جاگ جاتی ہے اور اپنی بیٹیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں..

نہ وہ محبان اسلام ہیں اور نہ پاکستانی کلچر سے ان کا کوئی دور دور تک تعلق ہے…

ہم کسی بھی ایسے پاکستانی مسلمان کا دفاع نہیں کریں گے جو پہلے تو اولاد کی تربیت کر نہ سکے؛ نہ خود تربیت یافتہ ہو بلکہ اسلام اور کلچر کو بد نام کرنے والا ہو….

خدانخواستہ اگر ثمن کو بھی قتل کر دیا گیا ہے تو یہ اٹلی میں غالباً چھٹا قتل ہوگا…

اٹالین میڈیا روز اس موضوع پر گفتگو کرتا ہے اس لیے ہم اس کی پردہ پوشی نہیں کر سکتے…

ہاں ایک کام ضرور کر سکتے ہیں اپنی اولادوں کو اسلامک سینٹرز ہونے والے دروس قرآن یا دعوت اسلامی اور اسی طرز پر ہفتہ وار ہونے والے اجتماعات میں لے کر خود اور اپنے بچوں بھی لے کر جایا کریں تاکہ ان کی کسی نہ کسی حد تک اسلامی اخلاقی تربیت ہو سکے….

تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی