أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰهُ صَدۡرَهٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّهٖ‌ؕ فَوَيۡلٌ لِّلۡقٰسِيَةِ قُلُوۡبُهُمۡ مِّنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ‌ؕ اُولٰٓئِكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞

ترجمہ:

پس کیا جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا سو وہ اپنے رب کی طرف سے نور (ہدایت) پر قائم ہو ( وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کے دل پر اللہ نے گمراہی کی مہر لگا دی ہو ؟ ) پس ان لوگوں کے لیے عذاب ہے جن کے دل اللہ کو یاد کرنے کے بجائے سخت ہوگئے ہیں، وہی کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

پس کیا جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو وہ اپنے رب کی طرف سے نور (ہدایت) پر قائم ہو (وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کے دل پر اللہ نے گمراہی کی مہر لگادی ہو ؟ ) پس ان لوگوں کے لیے عذاب ہے جن کے دل اللہ کو یاد کرنے کے بجائے سخت ہوگئے ہیں، وہی کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں اللہ نے بہترین کلام کو نازل کیا جس کے مضامین ایک جیسے ہیں، بار بار دہرائے ہوئے، اس سے ان کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں، یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ جس کو چاہتا ہے اس کی ہدایت دیتا ہے اور جس کو اللہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے (الزمر : ٢۔ ٢٢ )

انسان کے دل میں اللہ کے نور کا معیار اور اس کی علامتیں

اسلام کے لیے سینہ کھولنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے احکام قبول کرنے کی اس کے دل میں مکمل استعداد پیدا کردی ہو اور جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے انس میں وہ فطرت صحیح اور سالم موجود ہو اور اس کی غلط روش کی وجہ سے وہ فطرت ضائع نہ ہوئی ہو۔ نیز فرمایا : ” وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر قائم ہو، اس نور سے مراد یہ ہے کہ اس باہر کی کائنات میں اور انسان کے اپنے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی توحید اور اپنی قدرت پر جو نشانیاں رکھی ہیں وہ ان نشانیوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کرے اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت کی امنگ اور جذبہ پیدا ہو اور جب اس کا یہ نور قوی ہوجاتا ہے تو وہ دوسروں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور اس کی گفتگو سننے والوں کے دلوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت کا ذوق اور شوق پیدا ہوجاتا ہے، لوگ اگر کسی کا سرخ وسفید چہرہ دیکھیں تو کہتے ہیں کہ فلاں کا بڑا نورانی چہرہ ہے، یہ نور کا معیار نہیں ہے۔ نور کا معیار یہ ہے کہ جس کو دیکھ کر خدا یاد آئے، جس کی باتیں سن کر دل میں رقت پیدا ہو، جس کی سیرت و کردار دیکھ کر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت کا داعیہ پیدا ہو تو اس شخص میں اللہ کا نور ہے۔ ایک اور معیار یہ ہے کہ فحش کاموں کے ارتکاب اور گناہوں کی کثرت سے انسان کے چہرے پر پھٹکار برسنے لگتی ہے، اس کا چہرہ خرانٹ ہوجاتا ہے اور جو گناہوں سے اجتناب کرتا ہو اور نیک کام بکثرت کرتا ہو اس کے چہرے سے سادگی اور بھولپن ظاہر ہوتا ہے اور اس کا چہرہ بارونق ہوتا ہے اور یہ نور کے آثار میں سے ایک اثر ہے، لیکن اصل نورانیت یہی ہے کہ اس پر عبادت اور خوف خدا کا غلبہ ہو، وہ یاد الٰہی سے غافل کرنے والے کاموں سے بچتا ہو، ہنستا کم ہو اور روتا زیادہ ہو، اس کی مجلس میں طیفے اور چنگلے نہ ہوں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں ہوں، ایسے شخص کا نور دوسروں کے دلوں کو بھی یاد خدا سے روشن کرتا ہے، وہ جس قدر عبادت و ریاضت میں قوی ہوگا اس کا نور اس قدر قوی ہوگا، عام مؤمنوں کے دل کا نور چراغ کی طرح ہے، اولیاء اللہ کا نور ستاروں کی طرح ہے، صحابہ کا نور چاند کی طرح ہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نور سورج کی طرح بلکہ سورج سے بھی زیادہ قوی ہے، اس نور کا فیضان نبیوں اور رسولوں پر ہے، ولیوں پر ہے، عام مسلمانوں پر ہے اور ہر صاحب ہدایت کو اسی نور سے ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوئی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی :

” افمن شرح الللہ صدرہ للاسلام فحوعلی نور من ربہ “ (الزمر : ٢٢) ہم نے پوچھا : یارسول اللہ ! بندہ کا شرح صدر کس طرح ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جب بندہ کے دل میں نور داخل ہوتا ہے تو اس کا شرح صدر ہوجاتا ہے، ہم نے پوچھا : یارسول اللہ ! اس کی علامت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ دارالخلد (آخرت) کی طرف رجوع کرتا ہے اور دارالغرور (دنیا) سے بھاگتا ہے اور موت آنے سے پہلے موت کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔ (المستدرک ج ٤ ص ٣١١، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٠٥٢٢، معالم التنزیل رقم الحدیث : ١٨١٧)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین اوصاف ذکر فرمائے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس شخص میں یہ تین اوصاف ہوں گے اس کا ایمان کامل ہوگا، کیونکہ دارالخلد اور آخرت کی طرف رجوع وہی شخص کرتا ہے جو نیک کام کرتا ہے کیونکہ نیک کاموں کی جزاء دارالخلد اور جنت ہے اور جب دنیا کی حرص کی آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے تو وہ دنیا کی صرف اتنی چیزوں پر کفایت اور قناعت کرتا ہے جو اس کی رمق حیات قائم کرنے کے لیے ضروری ہوں، لہٰذا وہ دنیا سے دور بھاگتا ہے اور جب اس کا تقوی مکمل اور مستحکم ہوجاتا ہے تو وہ ہر چیز میں احتیاط کرتا ہے اور جن چیزوں میں عدم جواز کا شک بھی ہو ان کے قریب نہیں جاتا اور یہی موت سے پہلے موت کی تیاری ہے اور یہ اس کی شرح صدر کی ظاہری علامت ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جس اس کو موت کی فکر ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور یہ سمجھ اس وقت آتی ہے جس اس کے دل میں میں نور داخل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : ” پس ان لوگوں کے لیے عذاب ہے جن کے دل اللہ کی یاد کرنے کی بجائے سخت ہوگئے ہیں، وہی کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ “

دل کی سختی کے اسباب

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے زیادہ خطرناک چیز وہ ہوے جس کا مجھے اپنی امت پر خطرہ ہے۔ (١) پیٹ کا بڑا ہونا (٢) ہمیشہ سوتے رہنا (٣) سستی (٤) اور یقین کا کمزور ہونا۔ (کنزالعمال رقم الحدیث : ٧٣٣٤)

بڑے پیٹ سے مراد یہ ہے کہ انسان کھانے پینے میں زیادہ منہمک رہتا ہو اور کھانے پینے کا لازمی نتیجہ قضاء حاجت ہے۔ تو جب انسان کا مطمح نظر قضاء حاجت نہیں ہوتا تو جو اس کا لازمی سبب ہے یعنی پینا وہ بھی اس کا مطمح نظر نہیں ہونا چاہیے۔ سو جو شخص اپنے تہائی پیٹ سے زیادہ کھاتا ہے اور لذیذ کھانوں کی تلاش میں رہتا ہے اور جو رزق میسر ہو اس پر قاعت نہیں کرتا توبہ وہی چیز ہے جس کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت پر خطرہ تھا اور جو آدمی ہمیشہ سوتا رہتا ہے تو وہ ان حقوق کو ضائع کردیتا ہے جو شریعت میں اس سے مطلوب ہیں اور وہ اپنے رب کے غضب کو دعوت دیتا ہے اور اس سے اس کا دل سخت ہوجاتا ہے اور سستی اور کاہلی کی وجہ سے انسان اہم امور کو انجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور پر مشقت عبادات اور نیک کاموں کے کرنے سے گھبراتا ہے اور فرائض اور نوافل ادا نہیں کرپاتا، اس کا ثمرہ یہ ہے کہ اس کا دل سخت ہوجاتا ہے اور اس کی عقل تاریک ہوجاتی ہے

حدیث میں ہے : حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جو دل کو سخت کرتی ہیں : کھانے پینے کی محبت، سونے کی محبت اور راحت کی محبت۔ (دیلمی) اسی وجہ سے سلف صالحین جاگ کر راتیں عبادت میں گزارتے تھے اور نیند اور آرام کو ترک کردیتے تھے، حتیٰ کہ ان کے پیر سوج جاتے تھے اور چہرہ کا رنگ زرد پڑجاتا تھا اور یقین کے کمزور ہونے سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی رنگینیوں اور عیش و آرام میں منہمک رہنے کی وجہ سے اس کے دل میں نور داخل نہ ہوسکے اور بندہ کا جس قدر یقین پختہ ہوتا ہے اسی قدر اس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) چونکہ ہر وقت آخرت کے امور پر غور کرتے رہتے تھے اس وجہ سے ان کا ایمان بہت پختہ اور قوی ہوتا تھا۔ (فیض القدر ج ١ ص ٤١٢۔ ٤١١، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 22