اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الۡاَنۡفُسَ حِيۡنَ مَوۡتِهَا وَالَّتِىۡ لَمۡ تَمُتۡ فِىۡ مَنَامِهَا ۚ فَيُمۡسِكُ الَّتِىۡ قَضٰى عَلَيۡهَا الۡمَوۡتَ وَ يُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 42
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الۡاَنۡفُسَ حِيۡنَ مَوۡتِهَا وَالَّتِىۡ لَمۡ تَمُتۡ فِىۡ مَنَامِهَا ۚ فَيُمۡسِكُ الَّتِىۡ قَضٰى عَلَيۡهَا الۡمَوۡتَ وَ يُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جن روحوں کی موت نہیں آئی ان کو نیند میں (قبض کرتا ہے) پھر جن روحوں کی موت کا فیصلہ کرلیا ہے ان کو روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقرر معیاد تک چھوڑ دیتا ہے، بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جن روحوں کی موت نہیں آئی ان کو نیند میں (قبض کرتا ہے) پھر جن روحوں کی موت کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان کو روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقرر معیاد تک چھوڑ دیتا ہے، بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے سفارشی بنارکھے ہیں ؟ آپ کہیے، خواہ وہ کسی کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل وخردرکھتے ہوں آپ کہیے کہ تمام شفاعتوں کا مالک اللہ ہی ہے، تمام آسمانوں اور زمینوں کی ملکیت اللہ ہی کے لیے ہے، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے (الزمر :42-44)
نفس کے معنیٰ کی تحقیق
اس آیت میں ” انفسی “ کا لفظ ہے، یہ نفس کی جمع ہے، نفس کے معنیٰ کی تحقیق کرتے ہوئے علامہ سید محمد مرتضیٰ زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : نفس روح ہے اور کسی چیز اور اس کی حقیقت کو بھی نفس کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا “ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہر انسان کے دو نفس ہوتے ہیں، ایک نفس عقل ہے جس سے اشیاء میں باہم تمیز ہوتی ہے اور دوسرا نفس روح ہے، جس سے جسم کی حیات ہوتی ہے۔ ابن الانباری نے کہا : بعض اہل لغت نے نفس اور روح کو مساوی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں، ان میں صرف لفظی فرق ہے، نفس مؤنث ہے اور روح مذکر ہے اور دوسرے علماء نے کہا : روح وہ ہے جس سے حیات ہوتی ہے اور نفس وہ ہے جس سے عقل ہوتی ہے، پس جب انسان سو جاتا ہے تو اللہ اس کے نفس کو قبض کرلیتا ہے اور اس کی روح قبض نہیں کرتا اور اس کی روح صرف موت کے وقت قبض کی جاتی ہے اور زجاج نے کہا ہے کہ ہر انسان کے دو نفس ہوتے ہیں، ایک وہ نفس ہے جس سے اشیاء میں باہم تمیز ہوتی ہے اور یہ وہی نفس ہے جو نیند کے وقت انسان سے الگ ہوجاتا ہے اور وہ اس سے کسی چیز کا تعقل نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ اس کو وفات دے دیتا ہے اور دوسرا نفس حیات ہے اور حیات زائل ہوتی ہے تو یہ نفس بھی زائل ہوجاتا ہے اور سونے والا شخص سانس لیتا رہتا ہے اور سونے والے شخص کی حالت نیند میں نفس کی وفات اور زندہ شخص کے نفس کی وفات میں یہی فرق ہے اور حیات کا نفس یہی روح ہے اور انسان کی حرکت اور اس کی نشو و نما ہے اور حق یہ ہے کہ نفس اور روح میں فرق ہے، اگر ان دونوں کا معنیٰ ایک ہوتا تو ہر ایک کو دوسرے کی جگہ رکھنا جائز ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” ونفخت فیہ من روحی “ اور من نفسی “ نہیں فرمایا اور حضرت عیسیٰ کا قول کرتے ہوئے فرمایا : ” تعلم مافی نفسی “ اور ” فی روحی “ نہیں فرمایا، روح اور نفس میں اعتباری فرق ہے، علامہ ابن عبدالبر نے ” تمہید “ میں یہ حدیث نقل کی ہے : اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا اور اس میں نفس اور روح کو رکھا، اس کی روح کے آثار سے اس کی پاکیزگی ہے اور اس کی فہم ہے اور اس کا حلم ہے اور اس کی وفا ہے اور اس کے تفس کے آثار سے اس کی شہوت ہے اور اس کا طیش اور اس کے جاہلانہ افعال ہیں اور اس کا غضب ہے، اس لیے بغیر کسی قید کے مطلقاً یہ نہیں کہا جائے گا کہ نفس روح ہے اور نہ یہ کہا جائے گا کہ روح نفس ہے۔ (تاج العروس ج ٤ ص ٢٦٠۔ ٢٥٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
نفس اور روح کے ایک ہونے پر دلائل
میں کہتا ہوں کہ اس آیت سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح اور نفس دونوں ایک چیز ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قبض روح کے لیے قبض نفس کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور احادیث اور آثار میں روح اور نفس کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابو سلمہ (رض) کے پاس گئے، ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، آپ نے ان کی آنکھیں بند کردیں، پھر فرمایا : جب روح قبض کی جاتی ہے تو آنکھ کو دیکھتی ہے۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٢٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١١٨، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٢٨٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٥٤) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ جب انسان مرتا ہے تو اس کی نظر اوپر اٹھی ہوئی ہوتی ہے، صحابہ نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : اس وقت ہوتا ہے جب اس کی نظر کے نفس کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٢١) اسی طرح درج ذیل حدیث میں روح کے لیے نفس کا لفظ استعمال فرمایا ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میت کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں، جب مرنے والا شخص نیک ہو تو اس سے کہتے ہیں : اے پاکیزہ نفس ! باہر نکلو، جو پاک جسم میں تھی۔ الحدیث (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٦٢، مسند احمد ج ٢ ص ١٣٩) دوسری حدیث میں اس موقع کے لیے نفس کے بجائے روح کا لفظ استعمال فرمایا ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا : جب مومن کی روح نکلتی ہے تو اس سے دو فرشتے ملاقات کرتے ہیں جو اس کو لے کر اوپر چڑھتے ہیں (یہ حدیث حکما مرفوع ہے) ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٧٢، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٢٦٦ )
امام مالک نے دو حدیثیں روایت کی ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت بلال (رض) سے فرمایا کہ ہم کو صبح کی نماز کے وقت جگا دینا، حضرت بلال (رض) پر نیند غالب آگئی، سورج نکلنے کے بعد سب بیدار ہوئے، آپ نے حضرت بلال (رض) سے پوچھا تو انہوں نے کہا : میرے نفس کو اسی چیز نے پکڑ لیا تھا جس نے آپ کے نفس کو پکڑ لیا تھا۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ٢٥ )
دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے اس موقع پر فرمایا : اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے ہماری روحوں کو قبض کرلیا تھا، اگر وہ چاہتا تو وہ اس وقت کے سوا ہماری روحوں کو لوٹا دیتا۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ٢٦ )
حافظ یوسف بن عبداللہ ابن عبدالبر قرطبی المتوفی ٤٦٣ ھ ان دونوں حدیثوں کے متعلق لکھتے ہیں :
علماء کی ایک جماعت نے ان حدیثوں سے یہ استدلال کیا ہے کہ روح اور نفس ایک چیز ہے اور انہوں نے الزمر : ٤٢ (زیر تفسیر آیت) سے بھی استدلال کیا ہے۔ حضرت ابن عباس اور سعید بن جبیر نے الزمر : ٤٢ کی تفسیر میں کہا ہے : جب مردے مرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی روحوں کو قبض فرما لیتا ہے اور جب زندہ سوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی روحوں کو قبض فرما لیتا ہے، پھر جس کی موت کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کرلیا اس کی روح کو روک لیتا ہے اور جس کی موت کا فیصلہ نہیں فرمایا اس کی روح کو ایک وقت معین تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
یہ تفسیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ نفس اور روح ایک چیز ہیں کیونکہ اس آیت میں ” انفس “ کا لفظ ہے اور انہوں نے اس کا معنی ارواح کیا ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ موطا کی حدیث : ٢٦ میں ہے، آپ نے فرمایا : اللہ نے ہماری روحوں کو قبض کرلیا تھا اور حضرت بلال نے جو فرمایا تھا : میرے نفس کو اس چیز نے پکڑ لیا تھا جس نے آپ کے نفس کو پکڑ لیا تھا، آپ نے حضرت بلال (رض) کے اس قول کا رد نہیں فرمایا، پس قرآن اور سنت نے ایک چیز کو کبھی نفس سے تعبیر فرمایا ہے اور کبھی اسی چیز کو روح سے تعبیر فرمایا ہے۔ (تمہید ج ٢ ص ٥٨٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
نفس اور روح کے مغائر ہونے پر دلائل
حافظ یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر المالکی القرطبی المتوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں : دوسرے علماء نے یہ کہا ہے کہ نفس روح کا غیر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نفس سے خطاب فرمایا ہے، اس کو برے کاموں سے منع فرمایا ہے اور نیک کاموں کا حکم دیا ہے اور انہوں نے اس پر اس آیت سے استدلال کیا ہے : یا یتھا النفس المطئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ (الفجر : 27-28) اے مطمئن نفس ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا، اس حال میں کہ اس سے راضی ہو وہ تجھ سے راضی ہو ان تقول نفس یحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ۔ (الزمر : 56)
(ایسا نہ ہو کہ) کوئی نفس یہ کہے : ہائے افسوس ! اس بات پر کہ میں نے اللہ کے حق کو ادا کرنے میں تقصیر کی۔ اور روح کو نہ خطاب کیا گیا ہے اور نہ اس کو قرآن مجید میں کسی چیز سے منع کیا گیا ہے اور نہ کسی کام پر اس کی مذمت کی گئی ہے، آدمیوں کا نفس چوپایوں کے نفس کی طرح ہے، وہ جنسی عمل کی خواہش کرتا ہے اور برے کام کی تحریک کرتا ہے اور نفس کا مسکن پیٹ ہے، مگر انسان کو روح کے ساتھ فضیلت دی گئی ہے اور اس کا مسکن دماغ ہے، اسی کی وجہ سے انسان برے کاموں سے حیاء کرتا ہے اور روح اس کو نیک کاموں کی دعوت دیتی ہے اور نیک کاموں کا حکم دیتی ہے۔ عبدالرحمان بن قاسم نے الزمر : ٤٢ کی تفسیر میں کہا کہ نفس ایک مجسم چیز ہے اور روح اس پانی کی طرح ہے جو جاری ہو، جب انسان سوجاتا ہے تو اللہ اس کے نفس کو قبض کرلیتا ہے اور اس کی روح اوپر جارہی ہے اور نیچے اتر رہی ہے اور نفس ہر وادی میں چررہا ہوتا ہے اور ان چیزوں کو دیکھتا ہے جن کو انسان خواب میں دیکھتا ہے، پھر جب اللہ اس کو جسم میں لوٹنے کی اجازت دیتا ہے تو وہ جسم میں لوٹ جاتا ہے اور اس کے لوٹنے سے جسم کے تمام اعضاء بیدار ہوجاتے ہیں اور وہ سننے اور دیکھنے لگتا ہے۔ حافظ ابوعمر ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ علماء کے اس مسئلہ میں متعدد اقوال ہیں اور اللہ ہی علم ہے کہ ان میں صحیح کیا چیز ہے اور قوم نے جو کچھ کہا ہے وہ واضح دلائل نہیں ہیں اور نہ ان دلائل کی صحت یقینی ہے اور نہ کوئی ایسی صحیح حدیث ہے جس سے عذر اٹھ جائیں اور حجت واجب ہوجائے اور نہ قیاس سے اس کو مسنبط کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ عقول اس مسئلہ میں سوچ وبچار کرکے تھک جاتی ہیں اور اس کے علم سے عاجزی ہیں۔
(تمہید ج ٢ ص ٨٨۔ ٨٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
نفس اور روح کے اتحاد اور تغایر میں حافظ ابن عبدالبر کی تحقیق
حافظ ابن عبدالبر کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث کے بعض دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح اور نفس دونوں ایک چیز ہیں اور بعض دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح اور نفس باہم مغائر ہیں، لیکن ان کا مختار یہ ہے کہ روح اور نفس دونوں ایک چیز ہیں، جیسا کہ انہوں نے ” تمہید “ میں اس مبحث کے شروع میں لکھا ہے، اسی طرح انہوں نے موطا امام مالک کی شرح ” الاستذکار “ میں بھی لکھا ہے۔
چنانچہ حافظ ابن عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت علی اور حضرت فاطمہ کو تہجد کی نماز کے لیے جگانے گئے تو حضرت علی (رض) نے کہا ہمارے نفوس تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٧) اور حضرت بلال نے کہا : میرے نفس کو اس نے پکڑ لیا تھا جس نے آپ کے نفس کو پکڑ لیا تھا۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ٢٥) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے ہماری روحوں کو قبض کرلیا تھا۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ٢٦) اور حضرت ابو جحیفہ کی حدیث میں ہے : بیشک تم مردہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف تمہاری روحوں کو لوٹا دیا۔ (مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٧٩٥، مجمع الزوائد ج ١ ص ٣٢٢) اور قرآن مجید میں ہے “ اللہ یتوفی الانفس “ (الزمر : ٤٢) ان سب میں یہ واضح دلیل ہے کہ روح اور نفس دونوں ایک چیز ہیں۔ اس مسئلہ میں سلف صالحین کے اقوال ہم نے ” تمہید “ میں ذکر کیے ہیں۔ (الاسیذکارج ١ ص ٣١٤، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٤ ھ)
نفس اور روح کے متعلق امام رازی کی تحقیق
امام فخرالدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : انسان کا نفس ایک جوہر ہے جو منور اور روحانی ہے، جب اس کا بدن سے تعلق ہوتا ہے تو اس کی روشنی تمام بدن میں حاصل ہوتی ہے اور اس روشنی کا نام حیات ہے، پس ہم یہ کہتے ہیں کہ موت کے وقت اس بدن کے ظاہر اور باطن سے اس کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے اور اس انقطاع کا نام موت ہے اور نیند کے وقت اس روشنی کا تعلق صرف ظاہر بدن سے بعض اعتبار سے منقطع ہوتا ہے اور اس کی روشنی بدن کے باطن سے منقطع نہیں ہوتی، پس ثابت ہوگیا کہ موت اور نیند ایک جنس سے ہیں، م اگر موت میں اس کی روشنی کا انقطاع تام اور کامل ہوتا ہے اور نیند میں اس کا انقطاع ناقص اور بعض وجوہ سے ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٥٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
نفس اور روح کے متعلق مصنف کی تحقیق
قرآن مجید اور احادیث کے عمیق مطالعہ سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ روح اور نفس متحد بالذات ہیں اور ان میں تغایر اعتباری ہے، انسان کے جسم میں ایک قوت مجردہ ہے، وہ قوت اس لحاظ سے کہ وہ انسان کے حواس میں موثر ہے یعنی اس کی تاثیر سے انسان دیکھتا ہے، سنتا ہے، سونگھتا ہے، چکھتا ہے اور چھوتا ہے نفس ہے اور اس لحاظ سے کہ اس قوت سے انسان بولتا ہے اور دیگر افعال اختیار یہ کرتا ہے، وہ روح ہے، خلاصہ یہ کہ جس قوت کے لحاظ سے انسان محسوس کرتا ہے اور افعال کرتا ہے وہ قوت روح ہے اور وہ قوت اس لحاظ سے کہ انسان اس قوت سے تعقل اور ادراک کرتا ہے اور کسی بھی کام کرنے کا منصوبہ بناتا ہے تو یہ قوت نفس ہے اور اس کو نفس ناطقہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
پھر اگر نفس برے اور ناجائز کام کا منصوبہ بنائے تو یہ نفس امارہ ہے، قرآن مجید میں ہے :
ان النفس لا مارۃ بالسوء۔ (یوسف : 53) بیشک نفس توبرائی کا حکم دینے والا ہے۔
اور برے کام کرنے کے بعد نفس اس پر ملامت کرے تو وہ نفس لوامہ ہے، قرآن مجید میں ہے :
ولا اقسم بالنفس الوامۃ (القیامۃ :2) اور میں ملامت کرنے والا نفس کی قسم کھاتا ہوں اور اگر نفس نیک کام کرنے کا حکم دے تو وہ نفس مطمئنہ ہے، قرآن مجید میں ہے :
یا یتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ (الفجر :27-28) اے مطمئن نفس ! تو اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو وہ تجھ سے راضی ہو اور جس قوت کے لحاظ سے انسان محسوس کرتا ہے اور افعال اختیار یہ کرتا ہے وہ روح ہے، قرآن مجید میں ہے :
فاذاسویتہ ونفخت فیہ من روحی۔ (الحجر : 29) پس جب میں آدم کا پتلا پورا بنا لوں اور اس میں اپنی پسندیدہ روح پھونک دوں۔
امام الحسین بن مسعود افراء بغوی المتوفی ٥١٦ ھ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یعنی روح پھونکنے کے بعد وہ پتلا زندہ ہوجائے اور روح جسم لطیف ہے جس سے انسان زادہ ہوتا ہے۔
(معالم التنزیل ج ٣ ص ٥٧، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
اور درج ذیل حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کی حرکات ارادیہ اور اس کے تمام تصرفات کا منشاء روح ہے۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم میں روح پھونکی، جب روح ان کے سر میں پہنچی تو ان کو چھینک آئی، حضرت آدم نے کہا : الحمد للہ رب العٰلمین اور اللہ تبارک تعالٰ نے فرمایا : یر حمک اللہ۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦١٦٥۔ ٦١٦٤، السنۃ لابن ابی عاصم رقم الحدیث : ٢٠٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٦٨، المستدرک ج ٢ ص ٢٦١ قدیم، المستدرک رقم الحدیث : ٣٠٣٦ جدید، الاسماء والصفات للبیہقی ص ٣٦٣، البدایہ والنہایہ ج ١ ص ١٣٨، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٦٥٨٠، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٣٧٤٧، کنز العمال رقم الحدیث : ٥٢٢٨، الدرامنثور ج ١ ص ١٠٩، جامع البیان رقم الحدیث : ٥١٠)
روح اور نفس کی بحث ہم نے بتیان القرآن ج ٢ ص ٧٩١۔ ٧٩٠ میں بھی کی ہے، اس مقام کا بھی مطالعہ کرلیا جائے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 42
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]