اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَـكَهٗ يَنَابِيۡعَ فِى الۡاَرۡضِ ثُمَّ يُخۡرِجُ بِهٖ زَرۡعًا مُّخۡتَلِفًا اَ لۡوَانُهٗ ثُمَّ يَهِيۡجُ فَتَـرٰٮهُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ يَجۡعَلُهٗ حُطَامًا ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَذِكۡرٰى لِاُولِى الۡاَلۡبَابِ۞- سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 21
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَـكَهٗ يَنَابِيۡعَ فِى الۡاَرۡضِ ثُمَّ يُخۡرِجُ بِهٖ زَرۡعًا مُّخۡتَلِفًا اَ لۡوَانُهٗ ثُمَّ يَهِيۡجُ فَتَـرٰٮهُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ يَجۡعَلُهٗ حُطَامًا ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَذِكۡرٰى لِاُولِى الۡاَلۡبَابِ۞
ترجمہ:
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے، پھر اس سے زمین میں چشمے جاری کرتا ہے، پھر اس سے مختلف قسم کی فصل اگاتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں کہ وہ فصل پک کر ذرد ہوجاتی ہے، پھر وہ اس کو چورا چورا کردیتا ہے، بیشک اس میں عقل والوں کے لیے ضرور نصیحت ہے
الزمر : ٢١ میں فرمایا : ” کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے بادل نازل فرماتا ہے، پھر اس سے زمین میں چشمے جاری کرتا ہے۔ پھر اس سے مختلف قسم کی فضل اگاتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں کہ وہ فصل پک کر کمزور ہوجاتی ہے، پھر وہ اس کو چورا چورا کردیتا ہے۔ “
مشکل الفاظ کے معانی
اس آیت میں ” ینابیع “ کا لفظ ہے، اس کا واحد ینبوع ہے، اس کا معنی ہے : چشمہ، زمین کے وہ سوتے جن سے پانی پھوٹ کر نکلتا ہے، اس کا معنی چھوٹی اور بھر پور نہر بھی ہے۔ نبع اور نبوع کا معنی ہے : کنویں یا چشمہ سے پانی پھوٹ کر نکلنا۔ اور اس میں ” یھیج “ کا لفظ ہے، اس کا مصدر ھیج ہے، اس کا معنی ہے : سوکھ جانا، خشک ہوجانا۔ یوم ھیج کا معنی ہے لڑائی، بارش، ابر یا آندھی کا دن، ھانجہ اس زمین کو کہتے ہیں جس کی گھاس سوکھ گئی ہو، بھیجاء کا معنی ہے : لڑائی، ھیجان کا معنی ہے : برانگیختہ کرنا، غصہ دلانا، اھاجہ کا معنی ہے : ہوا کا گھاس کو خشک کردینا۔ اور اس آیت میں ” حظاما “ کا لفظ ہے : اس کا معنی ہے ریزہ ریزہ، چورا چورا ہونا، یہ لفظ حطم سے بنا ہے، اس کا معنی ہے توڑنا۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے حال کو زمین کی پیداوار کے حال پر قیاس کرے
اس آیت کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ آسمان سے (یعنی بادلوں سے) پانی نازل فرماتا ہے اور اس پانی کو زمین کے مختلف حصوں میں پہنچا دیتا ہے، یہ پانی زمین کے اندر نفوذ کرجاتا ہے، پھر کسی جگہ زمین کو پھاڑ کر نکل آتا ہے اور چشمہ کی صورت میں بہنے لگتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس پانی کے ذریعے مختلف رنگوں کی فصلیں پیدا فرماتا ہے۔ بعض سبز ہوتی ہیں اور بعض میں سرخ پھول ہوتے ہیں۔ بعض میں زرد اور بعض میں سفید اور ان سے گندم، جو، چنا، چاول، کپاس اور سرسوں وغیر پیدا فرماتا ہے، پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ فصلیں پک جاتی ہیں، پھر پھٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔ زمین کی اس پیداوار کا انسان مشاہد کرتا رہتا ہے کہ کس طرح بیج سے ایک ننھی کونپل نکلتی ہے، پھر وہ سرسبز پودا بن جاتا ہے، پھر اس میں پھول کھلتے ہیں، پھر اس میں غلہ پک جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ سوکھ کر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، اسی طرح انسان نطفہ سے علقہ اور مضغہ بنتا ہے (یعنی جما ہوا خون اور گوشت کا ٹکڑا) پھر اللہ اس گوشت میں ہڈیاں پہناتا ہے، پھر اس میں روح ڈال دی جاتی ہے، پیٹ میں اس بچہ کو جنین کہتے ہیں، پیٹ سے باہر نکل آئے تو ولید کہتے ہیں، دودھ پیتا ہو تو رضیع کہتے ہیں، ٹھوس غذا کھانے لگے تو فطیم کہتے ہیں، کھیلنے کودنے لگے تو صبی کہتے ہیں، آٹھ نو سال کو پہنچ جائے تو غلامکہتے ہیں، قریب یہ بلوغ ہو تو مراہق کہتے ہیں، پھر بالغ کہتے ہیں، نوجوان کو فتیٰ اور شاب کہتے ہیں، جوان کو رجل کہتے ہیں، ادھیڑ عمر کو پہنچے تو کہول کہتے ہیں۔ چالیس سال کی عمر کو پہنچے تو شیخ کہتے ہیں اور ساٹھ سال کے بعد پھر شیخ فانی کہا جاتا ہے اور جب عمر طبعی پوری کرنے اور مرجائے تو میت کہتے ہیں۔ سو جس طرح زمین کی پیداوار وقفہ وقفہ سے متغیر ہوتی رہتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ مردہ ہوجاتی ہے، یہی انسان کا حال ہے، وہ بھی ایک حال سے دوسرے حال کی طرف متغیر ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ کرجاتا ہے، سو جس طرح یہ زمین اور اس کی پیداوار فانی ہے اسی طرح انسان بھی فانی ہے، پس انسان کو چاہیے کہ وہ اس فانی دنیا سے دل نہ لگائے، ورنہ وہ بھی فنا کے گھاٹ اتر جائے گا، اس کو چاہیے کہ وہ اس ذات کے ساتھ دل لگائے جو باقی ہے تاکہ وہ باقی رہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 21