أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ثُمَّ اِنَّكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ عِنۡدَ رَبِّكُمۡ تَخۡتَصِمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

پھر بیشک تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑا کرو گے

الزمر : ٣١ میں فرمایا : ” پھر بیشک تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑا کرو گے “

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے جھگڑنے والوں کے مصادیق

انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں میں جھگڑا ہوگا، انبیاء (علیہم السلام) کہیں گے کہ ہم نے اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچائے اور ان کی امتیں اس کا انکار کریں گی اور عام کفار اپنے کافر سرداروں سے جھگڑا کریں گے، عوام کہیں گے کہ ہمیں ان سرداروں نے گمراں کیا ہے، ہم نے ان کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کی توحید کا کفر کیا تھا اور وہ اس کا کفر کریں گے، مسلمانوں کے بعض گروہ ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے، حتیٰ کہ جانور بھی ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے، قیامت کے دن مختلف فریق اپنے رب کے سامنے جھگڑا کریں گے، اس کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت زبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : ثم انکم یوم القیمۃ عندربکم تختصمون (الزمر :31) پھر بیشک تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑا کرو گے

حضرت زبیر نے کہا : یارسول اللہ ! کیا ہم دنیا میں جھگڑے کے بعد قیامت کے دن پھر جھگڑا کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے کہا : پھر تو یہ معاملہ بہت سخت ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٣٦، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٦٠، مسند احمد ج ١ ص ١٦٤، مسند البزار رقم الحدیث : ٩٦٤، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٦٦٨ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے ؟ صحابہ نے کہا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی درہم ہو نہ کوئی بامان ہو، آپ نے فرمایا : میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نمازیں، روزے زکوٰۃ لے کر آئے گا اور اس نے اس کو گالی دی، اس پر تہمت لگائی اور اس کا مال کھایا، اس کا خون بہایا اور اس کو مارا، پھر اس کو بھی اس کی نیکیاں دی جائیں گی اور اس کو بھی اس کی نیکیاں دی جائیں گی اور اگر ان کے حوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو ان کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گئے، پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٨١)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی دوسرے شخص کی عزت یا اس کی کسی بھی چیز پر ظلم کیا ہو وہ آج ہی اس سے معاف کرالے، اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں اس کے پاس درہم ہوگا نہ دینار ہوگا، اگر اس کے پاس کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے برابر اس سے وہ نیک عمل لے لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیک عمل نہیں ہوگا تو جس پر اس نے ظلم کیا ہے اس کے گناہ اس کے اوپر ڈال دیئے جائیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٤٩، مسند احمد رقم الحدیث : ١٠٥٧٠، عالم الکتب) حضرت عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے دو پڑوسی جھگڑا کریں گے۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٥١ (طبع قدیم) ، مسند احمد ج ٢٨ ص ٦٠١ طبع جدید، مؤسستہ الرسالۃ ١٤١٩ ھ، المعجم الکبیر ج ١٧، رقم الحدیث : ٨٥٢ )

حضرت عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ظالم حاکم کو لایا جائے گا اور اس کی رعایا اس سے جھگڑا کرے گی اور وہ اس پر غلبہ حاصل کرے گی، پھر اس سے کہا جائے گا کہ تم جہنم کے ارکان میں سے ایک رکن کو بھردو۔ (مسندالبزار رقم الحدیث : ١٦٤٤، الکامل لابن عدی ج ٢ ص ٢٢١ طبع جدید، مجمع الزوائد ج ٥ ص ٢٠٠)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ضرور حق داروں کو ان کے حقوق ادا کیے جائیں گے حتیٰ کہ سینگھ والی بکری سے بےسینگھ کی بکری کا بدلہ لیا جائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٨٢) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ آپس میں جھگڑا کریں گے حتیٰ کہ روح جسم کے ساتھ جھگڑا کرے گی، پس روح جسم سے کہے گی : تم نے یہ کام کیے تھے اور جسم روح سے کہے گا : تم نے یہ منصوبہ بنایا تھا اور تم نے حکم دیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کے لیے ایک فرشتہ بھیجے گا، وہ کہے گا : تم دونوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک دیکھنے والا اپاہج شخص ہو اور دوسرا اندھا ہو، وہ دونوں ایک باغ میں گئے، اپاہج نے اندھے سے کہا : میں یہاں پر بہت پھل دیکھ رہا ہوں لیکن میں ان تک پہنچ نہیں سکتا، تب اندھے نے کہا : تم مجھ پر سوار ہوجائو اور ان پھلوں کو توڑ لو، پس اس اپاہج نے اندھے پر سوار ہو کر پھل توڑ لیے، بتائو ان دونوں میں سے کون مجرم ہیں ؟ روح اور جسم دونوں نے کہا : وہ دونوں مجرم ہیں۔ تب فرشتہ ان دونوں سے کہے گا : تم دونوں نے خود اپنے خلاف فیصلہ کردیا، یعنی جسم روح کے لیے بہ منزلہ سواری ہے اور روح بہ منزلہ سوار ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٥٨، الدرالمنثور ج ٧ ص ١٩٦، الجامع لاحکام القرآن جز ١٠ ص ١٧٥، روح البیان ج ٨ ص ١٤٥۔ ١٤٤ )

امام محمد بن جعفر ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ انپی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : صادق کاذب سے، مظلوم ظالم سے، ہدایت یافتہ گمراہ سے اور کمزور متکبر سے جھگڑا کرے گا۔ ابن زید نے کہا : مسلمان کافر سے جھگڑا کرے گا۔

ابراہیم نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں نے کہا : ہم کیسے جھگڑا کریں گے، ہم آپس میں بھائی ہیں اور جب حضرت عثمان بن عفان (رض) شہید ہوگئے تو مسلمانوں نے کہا : اس قتل کے متعلق ہمارا جھگڑا ہوگا۔ (جامع البیان جز ٢٤ ص ٤۔ ٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لا تختصموا لدی۔ (ق : 28) تم میرے سامنے جھگڑا نہ کرو۔ پھر مسلمان کیسے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھگڑا کریں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قیامت کا دن بہت بڑا دن ہوگا، اس کے بعض ساعتوں میں لوگ ایک دوسرے سے جھگڑا نہیں کریں گے اور بعض دوسری ساعات میں جھگڑا کریں گے، اس کی نظیر حسب ذیل آیات ہیں : فھم لا یتساء لون (القصص :66) لوگ ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے۔ واقبل بعضھم علی بعض یتساء لون (الصفت : 27) وہ ایک دوسرے کی طرف پلٹ کر سوال کریں گی یعنی قیامت کے دن وہ کسی وقت ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے اور دوسرے وقت میں سوال کریں گے۔

فیو مئذ لا یسئل عن ذنبہ انس ولا جان (الرحمن :39) اس دن کسی انسان سے اس کے گناہ کا سوال کیا جائے گا، کسی جن سے

فورک بک لنسئلنھم اجمعین (الحجر : 92) سو آپ کی رب کی قسم ! ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے۔ یعنی قیامت کے دن ایک وقت میں کسی سے سوال نہیں کیا جائے گا اور دوسرے وقت میں سب سے سوال کیا جائے گا۔ ہم قیامت کے دن کی آزمائشوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 31