مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

جامعہ اشرفیہ میں سادات برکات کی جلوہ گری

حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان نے طلبہ کی کثرت تعداد کے پیش نظر دار العلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم(مبارک پور)کی توسیع کا قصد فرمایا۔قصبہ مبارک پور سے باہر ایک وسیع وعریض زمین حاصل کی۔

سنگ بنیاد کا اجلاس”تعلیمی کانفرنس” کے نام سے 7,6,5:مئی 1972 کو منعقد ہوا۔

اہل سنت وجماعت کے اکابر علما ومشائخ تعلیمی کانفرنس میں تشریف لائے۔حضور مفتی اعظم ہند,حضور سید العلما مارہروی, حضرت مجاہد ملت رئیس اعظم اڑیسہ,حضرت قاضی شمس العلما جونپوری,علامہ عبد المصطفے اعظمی,خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی علیہم الرحمۃ والرضوان ودیگر علما ومشائخ جلوہ فگن ہوئے۔

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے اسی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر جامعہ اشرفیہ(مبارک پور)کی سرپرستی خانقاہ برکاتیہ:مارہرہ شریف کے سپرد فرمائی تھی,کیوں کہ سادات مارہرہ مقدسہ تمام اہل سنت وجماعت کے سرپرست تسلیم کئے جاتے تھے۔

دارالعلوم اشرفیہ کی سرپرستی سادات کچھوچھہ مقدسہ کے پاس تھی,پھر سادات مارہرہ مطہرہ کو سپرد کی گئی۔حضرت سید العلما مارہروی علیہ الرحمہ تعلیمی کانفرنس میں موجود تھے۔وہ اس حکمت کے پیش نظر انکار نہ کر سکے کہ ایک عظیم الشان تعلیمی ادارہ کو قوت فراہم کرنا تھا,لیکن تعلیمی کانفرنس سےواپسی کے بعد دوبارہ جامعہ اشرفیہ تشریف نہ لائے۔حضرت احسن العلما علیہ الرحمہ کو عرس عزیزی میں تشریف لانے کی بار بار دعوت دی گئی,لیکن ہمیشہ معذرت خواہی فرماتے رہے۔

جامعہ میں ہمارے عہد طالب علمی(1992-1998)میں کئی بار عرس عزیزی میں حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کی آمد کی امید ظاہر کی جاتی رہی,لیکن کبھی تشریف آوری نہ ہو سکی۔

سادات مارہرہ مطہرہ نے شاید اس سبب سے جامعہ اشرفیہ میں آمد ورفت کا سلسلہ نہ رکھا ہو کہ سادات کچھوچھہ مقدسہ کو طبعی طور پر یہ پسند نہ آئے۔واللہ تعالی اعلم بالصواب

ہماری یاد داشت کے مطابق 1996میں حضرت احسن العلما علیہ الرحمہ نے اپنے مرید خاص حاجی رفیق پاکستانی کو جامعہ اشرفیہ مالی تعاون کے لئے بھیجا,لیکن کوشش بسیار کے باوجودخودجامعہ اشرفیہ نہ آ سکے۔

تعلیمی کانفرنس 1972 میں حضور سید العلما علیہ الرحمہ کی آمد کے بعد 1993 میں پہلی بار حضرت نظمی میاں مارہروی علیہ الرحمہ محض جامعہ کو دیکھنے کی غرض سے آئے تھے۔

اس وقت ششماہی امتحان کے بعد ربیع الاول کا آخری عشرہ یا ربیع الاخر کا پہلا عشرہ تھا۔ششماہی دوم کی تعلیم کا آغاز ہو رہا تھا۔حضرت کی آمد کی مناسبت سے شعبہ درس نظامی کے درجات میں اول ,دوم وسوم پوزیشن کے حامل طلبہ کو سید موصوف کے دست مبارک سے بطور انعام کتابیں دی گئی تھیں۔

مجھے بھی درجہ رابعہ میں اول پوزیشن کے انعام کے طور پر”حیات امام اعظم ابوحنیفہ”(تالیف:پروفیسر ابوزہرہ مصری)عطا ہوئی تھی۔

جامعہ اشرفیہ(مبارک پور) سادات کچھوچھہ کی سرپرستی میں تھا۔کسی سبب سے اہل کمیٹی نے یہ سرپرستی ختم کر دی تھی۔

موجودہ جامعہ اشرفیہ قصبہ سے باہر تعمیر ہو رہا تھا۔اس کا نام بدلا جا سکتا تھا,بلکہ بدلا بھی گیا,یعنی مدرسہ اشرفیہ سے جامعہ اشرفیہ کر دیا گیا,لیکن اس کا نام جامعہ برکاتیہ نہ رکھا گیا۔سادات کچھوچھہ نے بھی یہ نہ فرمایا کہ میری سرپرستی ختم ہو چکی ہے تو ادارہ کا نام بھی بدل دیں۔

سادات کچھوچھہ کو اس وقت ورغلایا گیا کہ اشرفیہ کمیٹی پر مقدمہ کریں۔انہوں نے سرپرستی کیسے ختم کر دی؟حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمۃ والرضوان کے عہد سے مدرسہ کی سرپرستی سادات کچھوچھہ کے سپرد تھی۔

آخری سرپرست سرکار کلاں حضرت سید مختار اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ تھے۔شہزادہ سرکار کلاں علیہ الرحمۃ والرضوان نے سال 2011میں کیرلا کے ایک ہومیوپیتھک ہاسپیٹل میں علاج کے دوران ہاسپیٹل روم میں مجھے بتایا کہ جب حضرت سرکار کلاں علیہ الرحمہ کی سرپرستی ختم کر دی گئی,تب ہم لوگوں کو بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ کورٹ میں مقدمہ کریں,لیکن ہم لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔

ہم لوگوں نے کہا کہ مدرسہ اشرفیہ بھی دین وسنیت کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ہم لوگ مدرسہ کو کسی مشکل میں نہیں ڈال سکتے۔ہاں,ہم لوگ خود بھی مدرسہ بنا کر دین وسنیت کا کام کر سکتے ہیں۔اس کے بعد ہم لوگوں نے جامع اشرف کچھوچھہ شریف کی تعمیر کی۔

میں نے کہا کہ مبارک پور کا ایک طبقہ جامعہ اشرفیہ کے بالمقابل مدرسہ اشرفیہ سکٹھی(مبارک پور)بنایا تھا۔حضرت سرکار کلاں علیہ الرحمہ کی سرپرستی تھی۔

موصوف نے فرمایا کہ۔ہاں,والد ماجد کی سرپرستی میں وہ ادارہ اہل مبارکپور نے بنایا تھا اور حضرت کی آمد ورفت بھی ہوتی تھی,لیکن ہم لوگ وہاں جانے سے پرہیز کرتے تھے,کیوں کہ وہ ادارہ اشرفیہ کے بالمقابل بنایا گیا تھا۔

اس مضمون میں چند باتوں پر غور کریں۔واضح ہو جائے گا کہ مذہب اہل سنت میں انتشار کو روکنے کے لئے ہر ایک نے حکمت عملی سے کام لیا۔درج ذیل نکات پر غور کریں۔

1-حافظ ملت علیہ الرحمہ نے خانقاہ رضویہ کی بجائے خانقاہ برکاتیہ کو سرپرستی سونپ دی,تاکہ انتشار نہ ہو۔سادات مارہرہ اہل سنت وجماعت کے سرپرست ہی تسلیم کئے جاتے تھے۔

اس وقت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ جلسہ میں جلوہ افروز تھے اور آپ اہل سنت وجماعت کی سب سے عظیم شخصیت تھے,لیکن حکمت عملی کے سبب انہیں سرپرستی تفویض نہ کی گئی۔نہ ہی مشائخ رضویہ نے کوئی سوال اٹھایا۔

2-مجوزہ اعلی تعلیم گاہ کا نام”جامعہ اشرفیہ”رکھا گیا۔جامعہ برکاتیہ نہیں,حالاں کہ سرپرستی بدل چکی تھی,نیز اس کے پس منظر میں تلخ یادیں بھی موجود تھیں,لیکن تحمل سے کام لیا گیا۔

3-سرپرستی قبول کرنے کے سبب سادات کچھوچھہ نے سادات مارہرہ پر کوئی اعتراض نہ کیا۔اسی طرح ماضی کے حالات کے پیش نظر سادات مارہرہ مطہرہ جامعہ اشرفیہ میں آمد ورفت سے پرہیز کرتے رہے,گرچہ حسب ضرورت عملی تعاون کی کوشش فرماتے رہے۔

4-سادات کچھوچھہ نے جامعہ اشرفیہ پر مقدمہ بازی سے گریز کیا,بلکہ فریقین ایک دوسرے کے حق میں سخت کلامی سے بھی پرہیز کرتے رہے۔

5-جامعہ اشرفیہ کے بالمقابل سکٹھی میں مدرسہ بنایا گیا تو بعض سادات کچھوچھہ وہاں آمد ورفت سے پرہیز کرتے۔

6-گرچہ سکٹھی مدرسہ جامعہ اشرفیہ کے بالمقابل تعمیر کیا گیا تھا,لیکن وہاں جامعہ اشرفیہ کے فارغین استاذ مقرر ہوتے رہے,نیز دیگر مدارس کے بچوں کی طرح سکٹھی مدرسہ کے طلبہ کا بھی اعلی تعلیم کے لئے جامعہ اشرفیہ میں داخلہ ہوتا رہا۔

یہ ایک پر خطر مرحلہ تھا۔علمائے اہل سنت وجماعت نے انتہائی دانش مندی کے ساتھ اس کو سمیٹ لیا۔اس کے بعد علمی اختلاف کا دور آیا تو ہم سب بکھر گئے۔اللہ رحم فرمائے:آمین

عہد اتحاد میں ہم نے دیکھا تھا کہ علمائے کرام کے خطابات رد وہابیہ ورد بدمذہباں پر ہوتے۔عشق نبوی کا درس دیا جاتا اور امام احمد رضا قادری کی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دی جاتی۔ہمیں اپنے ماضی کی طرف لوٹ جانا چاہئے۔

طارق انور مصباحی

Pجاری کردہ۔08:جون 2021