قُلۡ يٰقَوۡمِ اعۡمَلُوۡا عَلٰى مَكَانَتِكُمۡ اِنِّىۡ عَامِلٌۚ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 39
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلۡ يٰقَوۡمِ اعۡمَلُوۡا عَلٰى مَكَانَتِكُمۡ اِنِّىۡ عَامِلٌۚ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
آپ کہیے : اے میری قوم ! تم اپنی جگہ عمل کرتے ہو، بیشک میں (بھی) عمل کررہا ہوں، پس عنقریب تم جان لوگے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
آپ کہیے : اے میری قوم ! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو، بیشک میں (بھی) عمل کررہا ہوں، پس عنقریب تم جان لوگے کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی عذاب نازل ہوگا بیشک ہم نے لوگوں کے لیے آپ پر برحق کتاب نازل کی ہے، سو جس نے ہدایت اختیار کی تو اپنے ہی فائدہ کے لیے اور جس نے گمراہی اختیار کی تو اس گمراہی کا وبال اسی پر ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں (الزمر : ٤١۔ ٣٩)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیغام حق سنانے میں کامل جانفشانی کی
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود اور اپنی توحید پر دلائل قائم فرمائے تھے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والوں کو آخرت میں جنت اور دائمی اجر وثواب کی بشارت سنائی تھی اور اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والوں کے لیے دائمی عذاب کی وعید سنائی تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ کے کفر پر اصرار کرنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی تھی جس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے آ یتوں میں فرمایا ہے : فلعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا (الکہف : 6) اگر وہ اس قرآن پر ایمان نہ لائے تو لگتا ہے کہ آپ فرط غم سے جان دے دیں گے لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین (الشعراء : 3) ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ اس قدر مغموم ہیں کہ لگتا ہے کہ آپ جان دے دیں گے فلا تذھب نفسک علیھم حسرت۔ (فاطر : 8) ان پر حسرت اور فرط غم کی وجہ سے کہیں آپ کی جان نہ چلی جائے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے قوی اور مستحکم دلائل کے ساتھ کفار کا رد کردیا اور وہ پھر بھی آپ کی رسالت اور آپ کے پیغام پر ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ” آپ کہیے : اے میری قوم ! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو، بیشک میں (بھی) عمل کررہا ہوں، پس عنقریب تم جان لو گے کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی عذاب نازل ہوگا بیشک ہم نے لوگوں کے لیے آپ پر برحق کتاب نازل کی ہے، سو جس نے ہدایت اختیار کی تو اپنے ہی فائدہ کے لیے اور جس نے گمراہی اختیار کی تو اس گمراہی کا وبال اسی پر ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں “ (الزمر : ٤١۔ ٣٩)
ان آیتوں میں یہ اشارہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی اطاعت اور عبادت کے جس حق کو بھول بیٹھے تھے، قرآن کریم ان کو وہ حق یاد دلارہا ہے، پس جس نے قرآن مجید کے یاد دلانے سے اس حق کو پہچان لیا اور اس کی نصیحت پر عمل کرلیا اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی گزاری تو اس ہدایت کے فوائد اسی کو حاصل ہوں گے، کیونکہ اس ہدایت کے نور سے اس کا دل منور ہوجائے گا۔
اور اس کی حیوانی اور شیطانی صفات کے جو آثار ہیں وہ محور ہوجائیں گے جن کی وجہ سے اس کا دل تاریک ہوسکتا تھا اور ان صفات کی وجہ سے وہ دوزخ میں جاسکتا تھا اور جس شخص نے اپنی گمراہی پر اصرار کیا اور اپنے نفس امارہ کے احکام کی اطاعت کی اور اس پر حیوانی اور شیطانی صفات مذمومہ غالب آگئیں تو وہ شخص جہنم میں جاگرے گا اور اس کی اس روش سے آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی کیونکہ آپ نے اس کو دوزخ سے گھسیٹ کر نکالنے کی بہت کوشش کی اور اس سلسلہ میں بہت مشقت اٹھائی، اس کے باوجود اگر کوئی شخص کفر پر اصرار کرکے دوزخ کو اپنا ٹھکانا بناتا ہے تو آپ اس سلسلہ میں کیا کرسکتے ہیں۔
اس مضمون کی حسب ذیل احادیث سے وضاحت ہوتی ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی، پھر حشرات الارض اور پروانے اس آگ میں گرنے لگے، سو میں تم کو کمر سے پکڑ کر آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں اور لوگ اس آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٨٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٨٧٤)
حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ نے جس علم اور ہدایت جذب کرلیا اور اس نے چارا اور بہت سبزا اگایا اور زمین کا بعض حصہ سخت تھا، اس نے پانی کو روک لیا، جس سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نفع پہنچایا، لوگوں نے وہ پانی خود پیا اور جانوروں کو پلایا اور ان کو (سبزے سے) چرایا اور زمین کا بعض حصہ چٹیل میدان تھا، جس پر جب بارش ہوئی تو زمین کے اس حصہ نے پانی روکا اور جمع کیا اور نہ اس میں سبزا اور گھاس اگائی، یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اس کا فیض پہنچایا اور اللہ تعالیٰ نے جس ہدایت کے ساتھ مجھے مبعوث کیا ہے اس کا علم حاصل کیا اور وہ علم آگے پہنچایا اور یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے اس علم کی طرف سراٹھا کر نہیں دیکھا اور نہ اس ہدایت کی طرف دیکھا جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے اور اس کو قبول نہیں کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٢، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٥٨٤٣ )
اس مثال میں آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ زمین کی تین قسمیں ہیں، اسی طرح لوگوں کی بھی تین قسمیں ہیں، زمین کی پہلی قسم یہ ہے کہ زمین پہلے مردہ ہو، پھر بارش ہونے سے اس میں سبزا پیدا ہوجائے، جس سے انسان مویشی دونوں فائدہ حاصل کریں، اسی طرح لوگوں کی پہلی قسم یہ ہے کہ ان کے پاس ہدایت اور علم پہنچے اور وہ خود بھی علم پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی تعلیم دیں، اس قسم میں فقہاء اور مجتہدین شامل ہیں، زمین کی دوسری قسم یہ ہے کہ وہ بارش کے پانی سے سبزہ تو نہیں اگاتی لیکن وہ پانی کو جمع کرلیتی ہے جس سے ضرورت مند اس پانی کو حاصل کرلیتے ہیں، اسی طرح لوگوں کی دوسری قسم یہ ہے کہ ان احادیث سے مسئل کو مستنبط کرنے کی صلاحیت تو نہیں ہوتی لیکن وہ احادیث کو محفوظ اور منضبط کرلیتے ہیں جس سے مجتہدین استفادہ کرتے ہیں، اس قسم میں محدثین اور راویان حدیث ہیں اور زمین کی تیسری قسم وہ ہے جو نہ سبزہ اگاتی ہے اور نہ پانی کو محفوظ رکھتی ہے اور اسی طرح لوگوں کی تیسری قسم وہ ہے جنہوں نے آپ کے لائے ہوئے دین کو بالکل قبول نہیں کیا اور یہ کفار اور منافقین ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 39
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]