أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِيُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِىۡ عَمِلُوۡا وَيَجۡزِيَهُمۡ اَجۡرَهُمۡ بِاَحۡسَنِ الَّذِىۡ كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

تاکہ اللہ ان (محسنین) سے ان کے کیے ہوئے زیادہ برے کاموں کو دور کردے اور ان کے کیے ہوئے زیادہ نیک کاموں کی ان کو جزاء عطا فرمائے۔

تفسیر:

الزمر : ٣٥ میں فرمایا : ” تاکہ اللہ ان (محسنین) سے ان کے کیے ہوئے زیادہ برے کاموں کو دور کردے اور ان کے کیے ہوئے زیادہ نیک کاموں کی ان کو جزاء عطا فرمائے “

کفارہ کا معنی اور زیادہ نیک کاموں کی تفسیر

یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جن متقین اور محسنین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی ان سے عذاب من کل الوجوہ ساقط ہوجائے گا، اس مطلوب کی تقریر یہ ہے کہ لوگ جب انبیاء (علیہم السلام) کے لائے ہوئے پیغام کی تصدیق کردیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے ان کے کیے ہوئے کبیرہ گناہوں کو مٹا دے گا۔

اس آیت میں ” لیکفر اللہ “ کا لفظ ہے، اس کا مصدر تکفیر ہے اور اس کا حاصل مصدر کفارہ ہے، کفارہ اس چیز کو کہتے ہیں جو گناہ کو چھپالے، جیسے قسم کا کفارہ، قتل خطاء کا کفارہ، عمداً روزے توڑنے کا کفارہ اور ظہار کا کفارہ اور تکفیر کا معنی ہے : کسی گناہ کو اس طرح چھپادینا گویا اس شخص نے وہ گناہ کیا ہی نہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تکفیر میں باب تفعیل سلب ماخذ کے لیے ہو جیسے تمریض کا معنی ہے : مرض کو زائل کرنا، اسی طرح تکفیر کا معنی ہے : کفران نعمت اور ناشکری کے کاموں کو زائل کرنا اور اس کا معنی پہلی آیت سے متصل ہو کر اس طرح ہوگا کہ یہ ان متقین اور محسنین کی جزاء ہے جنہوں نے زیادہ نیک کام اس لیے کیے کہ اللہ ان کے زیادہ نیک کاموں کی وجہ سے ان کے زیادہ برے کاموں کو مٹا دے اور ان کی حسنات کفارہ سیئات ہوجائی۔ اس آیت میں ” اسوء “ کا لفظ ہے، یہ اسم تفضیل کا صیغہ ہے، اس کا معنی ہے : زیادہ بُرا کام اور وہ گناہ کبیرہ ہے اور اس آیت میں ” احسن “ کا لفظ ہے، یہ بھی اسم تفضیل کا صیغہ ہے، اس کا معنی ہے : زیادہ نیک کا اور وہ فرائض اور واجبات کو بہت اچھے طریقہ سے ادا کرنا ہے۔ ان محسنین کو جو بہترین جزاء دی جائے گی اور ان کے برے کاموں کو مٹایا جائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے پیغام کی تصدیق کی اور اپنے اقوال، افعال اور اموال سے اس تصدیق کا ثبوت فراہم کیا، جو بات کہی سچی کہی، جو وعدہ یا عہد کیا اس کو پورا کیا اور ہر کام میں ان کی نیت صادق رہی، یعنی انہوں نے ہر نیک کام جذبہ صادقہ اور عبادت کی نیت سے کیا اور تصدیق کے یہ ثمرات ہرچند کہ بندہ کے افعال اختیار یہ ہیں اور اسی وجہ سے ان پر اجروثواب ملتا ہے لیکن حقیقت میں یہ محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور صدق بندوں کے دلوں میں اللہ کا عطیہ ہے اور وہبی صفت ہے انسان کے نفس کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، حدیث میں ہے : حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے، آپ نے فرمایا : تم اپنے دین میں اخلاص رکھنا (اخلاص اور صدق نیت سے اللہ کی اطاعت کرنا) پھر تم کو کم عمل بھی کافی ہوں گے۔ حاکم نیشاپوری نے کہا : اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت نہیں کیا، لیکن یہ حدیث الاسناد ہے۔ (المستدرک ج ٤ ص ٣٠٦ طبع قدیم، المستدرک رقم الحدیث : ٧٨٤٤ طبع جدید، کنزالعمال ج ٣ ص ٢٣، الترغیب والترہیب للمنذری ج ١ ص ٢٣، حافظ سیوطی نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٢٩٨، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٢٤٤) علامہ عبدالرئوف المناوی المتوفی ١٠٢١ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : روح جب نفس کی شہوات سے خالی ہو اور انسان محض اللہ کی رضا کے لیے عبادت کرے اور اس کی عبادت میں اس کے دل اور اس کے نفس یا اس کی روح کا کوئی حصہ نہ ہو تو وہ صدق ہے اور اس کا عمل مقبول ہوتا ہے اور عمل مقبول کم ہو اور عمل مردود کثیر ہو تو ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ تورات میں مذکور ہے کہ جو عمل میری رضا کے لیے کیا گیا وہ قلیل عمل بھی کثیر ہے اور جس عمل میں میری رضا کی نیت نہیں کی گئی وہ کثیر عمل بھی قلیل ہے، عارفین نے کہا ہے کہ عبادت میں کثرت کے بجائے اخلاص کی نیت کیا کرو، امام غزالی نے کہا : وہ قلیل عبادت جو ریاکاری اور فخر و غرور سے خالی ہو اور اخلاص کے ساتھ ہو اس کی اللہ کے نزدیک بیشمار قدروقمیت ہے اور وہ کثیر عبادت جو صدق اور اخلاص سے خالی ہو اس کی اللہ کے نزدیک کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ ماسوا اس کے کہ اللہ اپنے لطف و کرم سے اس کا تدارک کردے۔ عارفین نے کہا ہے کہ صفاء قلب کے ساتھ جو عمل کیا جائے خواہ کم ہو اس میں اور بغیر صفاء قلب کے کثیر عمل میں وہ فرق ہے جو ایک جوہر اور بہت سیپیوں میں فرق ہوتا ہے۔ امام رازی نے کہا ہے کہ جب کسی عمل کا باعث اور محرک صرف اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اور اس کے دل میں دنیا کی محبت کا ایک ذرہ بھی نہ ہو، حتیٰ کہ اس کا کھانا پینا بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور ان کی محبت کی وجہ سے ہو اور اپنے جسمانی تقاضوں کی وجہ سے نہ ہو، حتیٰ کہ اس کی یہ نیت ہو کہ الر اللہ اور اس کے رسول نے کھانے پینے کا حکم نہ دیا ہوتا تو وہ ہرگز کھانے پینے کو اختیار نہ کرتا تو اس کے عمل میں صدق اور اخلاص ہے اور وہ اللہ اور رسول پر ایمان لانے کے دعویٰ میں مخلص اور صادق ہے۔ (فیض القدیر ج ١ ص ٤١٥۔ ٤١٦، ملخصا و موضحا، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

الزمر : ٣٥ میں علامہ قرطبی کی ” اسوء “ کی تفسیر پر بحث ونظر

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : یہ آیت ان متقین اور محسنین سے مرتبط ہے جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے پیغام کی تصدیق کی اور اللہ اور رسول پر ایمان لائے، اللہ تعالیٰ ان کے زیادہ برے کاموں کے لیے ان کے زیادہ نیک کاموں کو کفار بنادے گا اور اس سے مراد یہ ہے کہ زمانہ ٔ جاہلیت اور زمانہ کفر میں جو انہوں نے شرک کیا تھا اور دوسرے گناہ کیے تھے اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو مٹادے گا اور انہوں نے ایمان لانے کے بعد جو احسن (زیادہ نیک) کام کیے ہیں ان کا اجروثواب عطا فرمائے گا اور وہ اجر وثواب جنت ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ٢٢٩، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی نے اس تفسیر پر یہ اعتراض کیا ہے : ” وصدق بہ کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ حضرت علی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی تو اگر اس آیت کی یہ تفسیر کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان متقین اور محسنین کے زمانہ کفر کے برے کاموں کو مٹا دے گا تو پھر حضرت علی پر یہ تفسیر صادق نہیں آئے گی، کیونکہ حضرت علی (رض) نے اسلام قبول کرنے سے پہلے کفر کیا ہی نہیں تھا۔ “ (روح المعانی جز ٢٤ ص ٧، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٤ ھ) میں کہتا ہوں کہ اس تفسیر پر علامہ آلوسی کا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے، اوّلاً اس لیے کہ قرآن مجید میں محسنین اور متقین کے الفاظ ہیں اور ان کے عموم میں حضرت علی بھی داخل ہیں۔ ثانیاً اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے، خصوصیت مورد کا نہیں ہوتا اور ثالثاً اس لیے کہ قرآن مجید میں ” اسوء “ کا لفظ ہے جس کا معنی ہے : زیادہ بُرا کام، خواہ وہ کفر وشرک ہو یا گناہ کبیرہ ہو، اس کو بالخصوص کفر کے ساتھ مقید کرنا صحیح نہیں ہے، تاہم علامہ قرطبی کی تفسیر بھی صحیح نہیں ہے، انہوں نے اپنی تفسیر میں متقین اور محسنین کو ان لوگوں کے ساتھ مقید کردیا جو کفر وشرک کو ترک کرکے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور انہوں نے ” اسوا “ کو کفر کے ساتھ اور احسن کو ایمان کے ساتھ مقید کردیا، حالانکہ ” اسوا “ کا معنی ہے : زیادہ بُرا کام، خواہ وہ کفر وشرک ہو یا کوئی اور گناہ کبیرہ ہو اور ” احسن “ کا معنی ہے : زیادہ نیک کام، خواہ وہ ایمان لانا یا ایمان لانے کے بعد فرائض اور واجبات کو زیادہ حسن و خوبی سے ادا کرنا ہو، کیونکہ اس آیت کا معنی ہے : ” تاکہ اللہ ان (محسنین) سے ان کے کیے ہوئے زیادہ برے کاموں کو دور کردے اور ان کے کیے ہوئے زیادہ نیک کاموں کی ان کو جزاء عطا فرمائے “ اور یہ آیت جس طرح ان محسنین پر صادق آئی ہے جو کفر کو ترک کرکے اسلام لائے ہوں اسی طرح ان محسنین پر صادق آتی ہے جو گناہ کبیرہ کو ترک کے توبہ اور استغفار کریں اور بڑھ چڑھ کر نیک کام کریں اور محققین نے اس آیت کو اسی طرح عموم پر رکھا ہے۔ علامہ ابوالحیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں : زیادہ برے کاموں سے مراد ہے : اہل جاہلیت کا کفر اور اہل اسلام کے معاصی اور ان کا کفارہ ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان سے عذاب اکمل وجوہ سے ساقط ہوجائے گا اور زیادہ نیک کاموں کی جزاء اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان کو اجروثواب بھی اکمل وجوہ سے حاصل ہوگا۔ (البحرالمحیط ج ٩ ص ٢٠٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٢ ھ) امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ امام ابن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ، علامہ علاء الدین خازن متوفی ٧٢٥ ھ و دیگر محققین نے بھی اس آیت کو عموم پر رکھا ہے، امام ابن جریر کی عبارت یہ ہے : ان محسنین کو ان کے رب نے ان کو نیک کاموں کی یہ جزاء دی ہے کہ انہوں نے دنیا میں جو زیادہ برے کام کیے تھے جن کا صرف ان کے رب کو علم تھا اور جو انہوں نے ظاہر اً برے کام کیے اور ان پر توبہ کی اور استغفار کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ان کو اللہ تعالیٰ نے مٹادیا اور انہوں نے دنیا میں جو زیادہ نیک کام کیے تھے ان پر اللہ تعالیٰ اجروثواب عطا فرمائے گا اور ان سے راضی ہوگا۔ (جامع البیان جز ٢٤ ص ٨، زادالمسیر ج ٧ ص ١٨٣، تفسیر الخازن ج ٤ ص ٥٨ )

الزمر : ٣٥ میں علامہ زمخشری اور علامہ آلوسی کی ” اسوا “ کی تفسیر پر بحث ونظر

علامہ جار اللہ محمود بن عمر زمخشری خوارزمی متوفی ٥٣٨ ھ نے اس آیت کی تفسیر اپنے نظریہ اعتزال کی بناء پر کی ہے، وہ لکھتے ہیں :

اگر تم یہ سوال کرو کہ اسوأ (زیادہ برے کام) اور احسن (زیادہ نیک کام) کی ان کے کیے ہوئے کاموں کی طرف اضافت کی کیا توجیہ ہے ؟ اور ان کاموں کی تفضیل کا کیا معنی ہے ؟ تو میں کہوں گا : اس میں تفضیل کا معنی ملحوظ نہیں ہے، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ الاشج بنو مروان میں اعدل تھا یعنی سب سے زیادہ عدل کرنے والا تھا (الاشج کا لغوی معنی ہے : جس کے سر پر چوٹ لگی ہو اور اس سے مراد عمربن عبدالعزیز ہیں کیونکہ ان کے سر میں چوٹ لگی تھی اور جملہ میں اعدال کا تفضیل والا معنی مراد نہیں ہے، ورنہ یہ معنی ہوگا کہ تمام بنومروان عدل کرنے والے تھے اور عمر بن عبدالعزیز ان میں سب سے زیادہ عدل کرنے والے تھ، حالانکہ تمام مروانی ظالم اور فاسق تھے، اس لیے اس جمعلہ میں اعدل، عادل کے معنی میں ہے اور اس میں تفضیل ملحوظ نہیں ہے) اس طرح اسوأ میں بھی تفضیل ملحوظ نہیں ہے اور اس کا معنی زیادہ برے کام یعنی گناہ کبیرہ نہیں ہے بلکہ اس کا معنی ہے : صرف ُ رے کام یعنی گناہ صغیرہ رہا یہ کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو اسم تفضیل سے کیوں تعبیر فرمایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان محسنین سے جو صغیرہ گناہ اور لغزشیں صادر ہوتیں تو وہ اپنے بلند درجہ کی وجہ سے ان کو بھی کبائر میں سے شمار کرتے اور اسوأ یعنی زیادہ برے کام قرار دیتے اور جو حسن (نیک کام) وہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ انے کے حسن اخلاص کی وجہ سے ان کو احسن قرار دیتا ہے، اس لیے ان کے حسن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے احسن فرمایا، خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے برے کاموں (صغائر) کو زیادہ برے (کبائر) ان کے اعتبار سے فرمایا کہ وہ اپنے برے کاموں کو زیادہ برے رقار دیتے تھے اور ان کے نیک کاموں کو زیادہ نیک اپنے اعتبار سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے حسن اخلاص کی وجہ سے ان کے عام نیک کاموں کو بھی زیادہ نیک قرار دیتا ہے۔ (الکشاف ج ٤ ص ١٣١، موضحا ومفصلاً ، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٧ ھ) علامہ زمخشری کی اس نکات آفریں تفسیر کے حسن اور اس کی خوبی میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن ان حسین نکات میں ان کی بدعقیدگی چھپی ہوئی ہے، کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ عتالیٰ کبائر کو بغیر توبہ کے معاف نہیں فرمائے گا، اس لیے انہوں نے کہا اس آیت میں اسوأ سے حقیقت میں کبائر مراد نہیں ہیں صغائر مراد ہیں، لیکن وہ محسنین اپنے بلند درجہ کی وجہ سے ان صغائر کو بھی کبائر گردانتے تھے، اس لیے ان کے اعتبار سے ان کے صغائر کو اسوأ فرمایا۔ علامہ آلوسی علامہ زمخشری کی عبارت کی تہ تک نہیں پہنچ سکے، انہوں نے کہا کہ علامہ زمخشری کی مراد یہ ہے کہ وہ متقین اپنے تقویٰ میں اس قدر کامل ہیں کہ ان کے کاموں میں کوئی بُرائی صرف فرضاً ہی داخل ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں کو اسوأ فرمایا ہے اس کا معنی ہے : ان متقین نے بالفرض جو برے کام کیے، پس معلوم ہوا کہ زمخشری کی یہ تفسیران کے نظریہ اعتزال پر مبنی نہیں ہے۔ (واضح رہے کہ علامہ زمخشری معتزلی ہیں اور معتزلہ کے نزدیک اگر گناہ کبیرہ کا مرتکب توبہ نہ کرے تو اس کی مغفرت ممکن نہیں ہے) (روح المعانی جز ٢٤ ص ٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ) علامہ زمخشری کی تفسیر اس لیے صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے اسوأ (زیادہ برے کام، یعنی گناہ کبیرہ) بلا ضرورت شرعی مجاز پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ ” یہ اسم تفضیل کا صیغہ ہے مگر اس تفضیل کا معنی مراد نہیں ہے اور یہ اس طرح ہے جیسے لوگ کہتے ہیں کہ الاشج (عمر بن عبدالعزیز) بنو مروان میں اعدل ہے، لہٰذا اسوأ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں “ اور جب یہاں اسوء کا حقیق معنی (گناہ کبیرہ) لینا درست ہے تو پھر اس کو مجاز پر محمول کرنا درست نہیں ہے اور حقیقی معنی مراد لینا اس لیے درست ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا اور اس سے کم گناہ کو معاف فرما دیتا ہے خواہ گناہ صغیرہ ہو یا گناہ کبیرہ اور خواہ ان گناہوں پر توبہ کی ہو یا نہ کی ہو، قرآن مجید میں ہے : ان اللہ لایغفرآن یشرک بہ ویغفر مادون ذالک لمن یشاء۔ (النساء ٤٨) بیشک شرک کو نہیں بخشے گا اور اس سے کم جو گنا ہوگا اس کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ لا تقظوا من رحمۃ اللہ ط ان اللہ یغفر الذنوب جمعیا۔ (الزمر : ٥٣) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ اور علامہ زمخشری کی دوسری غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اسوأ کو مجاز پر محمول کرنے کے لیے قرآن اور حدیث سے دلائل دینے کے بجائے اس کو لوگوں کے اس قول پر قیاس کیا ہے کہ ” الاشج بنو مروان میں اعدل ہے، اس قول میں اعدل، عادل کے معنی میں ہے اور تفضیل اور عدل کی زیادتی مراد نہیں ہے، لہٰذا اسوأ میں برے کام کی نفس الامر اور واقع میں زیادتی کا ارادہ نہیں کیا گیا بلکہ محسنین کے نزدیک زیادتی مراد ہے “ اور قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر لوگوں کے اقوال سے قرآن مجید کے معنی متعین کرنا باطل ہے، خصوصاً جب کہ وہ معنی قرآن مجید کی صریح آیات کے خلاف ہو۔ علامہ زمخشری کی تائید میں علامہ آلوسی نے کہا ہے کہ اسوأ سے مراد یہ نہیں ہے کہ نفس الامرا اور واقع میں وہ زیادہ برے کام ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ متقین کے جو کام بالفرض زیادہ برے ہوں اللہ تعالیٰ ان کو بھی معاف کردے گا، میں کہتا ہوں کہ یہ تفسیر اور تاویل بھی غلط ہے کیونکہ ان متقین اور محسنین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی تصدیق کی اور ظاہر ہے یہ متقین نبی اور رسول تو نہیں ہیں اور ان سے گناہ کبیرہ کا صدور متعذر اور بعید نہیں ہے، پھر اس تاویل کی کیا ضرورت ہے کہ اگر بالفرض ان سے گناہ کبیرہ ہوگئے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی معاف فرمادے گا، سب سے بڑے متقی اور محسن تو صحابہ کرام ہیں، کیا بعض صحابہ نے زیادہ برے کام نہیں کیے، جن پر حد جاری ہوئی، انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا، پھر عام متقین کے لیے زیادہ برے کام کرنا کب محال ہے، جو قرآن مجید کے صریح لفظ میں تاویل کی جائے اور اس کے بغیر شرعی دلیل کے مجاز پر محمول کیا جائے۔

اس آیت کی تفسیر میں یہ علامہ قرطبی، علامہ زمخشری اور علامہ آلوسی کے ذکر کردہ نکات پر تبصرہ تھا، یہ بحث نامکمل رہے گی اگر امام رازی کے نکات پر تبصرہ نہ کیا جائے، سو اب ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی تائید سے امام رازی کے نکات پر تبصرہ کرتے ہیں۔

الزمر : ٣٥ میں امام رازی کی ” اسوأ“ کی تفسیر پر بحث ونظر

امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : جب محسنین نے انبیاء علہیم السلام کے پیغام کی تصدیق کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے زیادہ برے اعمال کو مٹا دیا اور وہ برے اعمال ان کے ایمان لانے سے پہلے کا کفر وغیرہ ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو سب سے اچھی قسم کا ثواب پہنچائے گا۔ (اس تفسیر پر وہی کلام ہے جو ہم اس سے پہلے علامہ قرطبی کی تفسیر پر کرچکے ہیں) اس کے بعد امام رازی لکھتے ہیں : مقاتل نے کہا : اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کی جزاء عطا فرمائے گا اور ان کے برے اعمال کی ان کو سزا نہیں دے گا اور یہ مقاتل مرجئہ کا شیخ ہے اور مرجئہ یہ کہتے ہیں کہ ایمان کے ہوتے ہوئے برے کاموں سے کوئی ضرر نہیں ہوگا، جیسے کفر کے ہوتے ہوئے نیک کاموں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اس نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اس نے کہا کہ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے انبیاء اور رسل کی تصدیق کی تو اللہ اس سے اس کے کیے ہوئے برے کاموں کو مٹا دے گا اور اس آیت میں اسوأ (زیادہ برے کام) کو کفر سابق پر محمول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس آیت کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ متقین کے اسوأ (زیادہ برے کام) اس حال میں مٹائے گئے ہیں جس حال میں وہ تقویٰ سے متصف تھے یعنی شرک سے مجتنب تھے اور اس صورت میں واجب ہے کہ اسوأ سے مراد وہ کبائر ہوں جن کا ان متقین نے ایمان لانے کے بعد ارتکاب کیا ہو، پس یہ آیت اس بارے میں نص صریح ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے کے بعد ان کے کیے ہوئے زیادہ برے کاموں کو مٹا دیتا ہے اور وہ زیادہ برے کام گناہ کبیرہ ہیں، پس واضح ہوگیا کہ ایمان لانے کے بعد گناہ کرنے سے کوئی ضرر نہیں ہوگا۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٥٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ) امام رازی نے مقاتل کے اس استدلال کا کوئی جواب نہیں دیا، ان پر لازم تھا کہ وہ مقاتل کی اس دلیل کا رد کرتے تاکہ کوئی یہ وہم نہ کرتا کہ مرجئہ کا مسلک برحق ہے، جب ہی ان کی اس دلیل کا امام رازی ایسے متکلم سے کوئی جواب نہیں ہوسکا۔ اور میں اللہ کی توفیق اور اس کی تائید سے یہ کہتا ہوں کہ قرآن مجید کی کسی ایک آیت کو پڑھ کر کوئی نتیجہ اخذ کرنا یا کوئی قاعدہ وضع کرلینا صحیح نہیں ہے، جب تکہ کہ اس موضوع پر قرآن مجید کی تمام آیتوں کو نہ پڑھ لیا جائے۔ مثلاً بعض آیات میں کفار کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بعض آیات میں ان کے ساتھ سختی کرنے اور جہاد کا حکم دیا گیا ہے، مثلاً سورة بقرہ میں ہے۔

فاعفوا واصفحو حتی یاتی اللہ بامرہ۔ (البقرہ : 109) پس معاف کرو اور درگز کرو حتیٰ کہ اللہ اپنے حکم کو لے آئے۔ فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم۔ (التوبہ : 5) پس تم مشرکین کو قتل کردو جہاں بھی تم ان کو پائو۔

اسی طرح انگوری شراب کے متعلق پہلے فرمایا : یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیرو منافع للناس۔ (البقرہ : 219) یہ آپ سے خمر (انگور کی شراب) اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ کیسے ان دونوں میں بہت گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ اور اس کے بعد فرمایا : انما الخمروا المیسرو الانصاف والازلام رجس من عمل الشیطن۔ (المائدہ :90) خمر، جوا، بت اور فال کے تیر، سب ناپاک ہیں، شیطان کے کاموں میں سے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں برے کاموں پر سزا دینے کا بھی ذکر ہے اور ان کو معاف کرنے کا بھی ذکر ہے، سزا دینے کی آیات کو پڑھ کر یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ کبیرہ پر لازماً سزا دے گا اور معاف نہیں کرے گا جیسا کہ زمخشری اور دیگر معتزلہ کا عقیدہ ہے اور معاف کرنے کی آیتوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکلانا غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ کبیرہ کو لازماً معاف کردے گا اور سزا نہیں دے گا جیسا کہ مقاتل اور دیگر مرجئہ کا عقیدہ ہے اور مذہب حق اہل سنت و جماعت کا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض گنہگار مسلمانوں کو ان کی توبہ سے معاف کردے گا، بعض کو نبیوں اور خصوصاً ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے معاف فرمائے گا اور بعض کو اپنے فضل محض سے معاف فرمائے گا اور بعض کو سزا دے کر پھر معاف فرما دے گا۔ بعض نماز نہ پڑھنے والے مسلمانوں کو سزا دینے کے متعلق یہ آیات ہیں : فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم شاھون الذین ھم یرآء ون ویمنعون الماعون (الماعون :4-7) ان نمازیوں کے لیے ویل (جہنم کی جگہ) ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور استعمال کی چیزوں کے دینے سے منع کرتے ہیں

زکوٰۃ نہ دینے والے مسلمانوں کی سزا کے متعلق یہ آیات ہیں : یایھا الذین امنو ان کثیرا من الاحبار والرھبان لیا کلون اموال الناس بالباطل و یصدون عن سبیل اللہ والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ لا فبشرھم بعذاب الیم (التوبہ :34) اے ایمان والو ! بیشک بکثرت علماء اور پیر لوگوں کا مال ناحق کھاجاتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے سو آپ ان کو درد ناک عذاب کی خبر پہنچادیجئے۔ بعض سود خور مسلمانوں کی سزا کے متعلق یہ آیات ہیں : یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وزرو اما بقی من الربوا ان کنتم مومنین فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ۔ (البقرہ : 278-279) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم واقعی ایمان والے ہو اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تم اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجائو۔ یہ وہ آیات ہیں جن میں گناہ کبیرہ کرنے والے مسلمانوں کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اور یہ آیات مرجئہ کے مذہب کو باطل کرتی ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد مومنوں کو کسی گناہ سے ضرر نہیں ہوگا خواہ ان کا گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ ہو۔ اور جن آیات میں مسلمانوں کے گناہ کبیرہ کو بغیر توبہ کے معاف کرنے کی بشارت دی گئی ہے ان کو بھی ہم نے علامہ زمخشری کے مذہب کے رد میں ذکر کیا ہے اور اسی سلسلہ کی سورة زمر کی زیر تفسیر آیت : ٣٥ ہے : وان ربک الذومغفرۃ للناس علی ظلمھم۔ (الرعد : 6) بیشک آپ کا رب لوگوں کو ان کے ظلم (گناہ کبیرہ) کے ارتکاب کے حال میں بھی بخشنے والا ہے۔ اور ایسی تمام آیات معتزلہ کے خلاف محبت ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر گناہ کبیرہ کے مرکتب نے توبہ نہیں کی تو اللہ تعالیٰ پر اس کو عذاب دینا لازم ہے اور اس کی مغفرت ہرگز نہیں ہوگی۔ اور جو آیت ان دونوں کے مذہب کو باطل کرتی ہے اور مذہب اہل سنت کے برحق ہونے کی دلیل ہے وہ یہ ہے : فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ (الزلزال : 7-8) سو جس شخص نے ایک ذرہ کے برابر بھی نیک کام کیا وہ اس کی جزاء پائے گا اور جس شخص نے ایک ذرہ کے برابر بھی بُرا کام کیا وہ اس کی سزا پائے گا اگر ایمان کے بعد گناہ کبیرہ سے ضرر نہ ہوتا تو انبیاء (علیہم السلام) گناہوں سے کیوں منع کرتے اور بعض صحابہ پر زنا، چوری اور تہمت کی حدود کیوں جاری ہوتیں ؟ خلاصہ یہ ہے کہ بعض آیات میں مسلمانوں کو گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر سزا کی وعید سنائی ہے، اس لیے گناہ کے ارتکاب محرک اور باعث کے وقت ان آیات کو یاد کرکے ارتکاب معصیت سے باز رہنا چاہیے اور خوف خدا سے معصیت کو ترک کردینا چاہیے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ان الذین یغسون ربھم بالغیب لھم مغفرۃ واجر کبیر (الملک : 12) بیشک جو لوگ اپنے رب سے تنہائی میں ڈرتے ہیں ان کے لیے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے ان الذین اتقوا اذا مسھم طئف من الشیطن تذکروا فاذا ھم تبصرون (الاعراف :201) بیشک جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں جب ان کے دل میں شیطان کی طرف سے گناہ کی کوئی تحریک آتی ہے تو اچانک وہ خدا کو یاد کرتے ہیں، پھر ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور جب وہ کسی لغزش میں مبتلا ہو کر گناہ کر بیٹھتے ہیں تو پھر وہ نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہ کی معافی طلب کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون اولئک جزآھم مغفرۃ من ربھم وجنت تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا ط ونعم اجر العملین (آل عمران : 135-136) اور جو لوگ جب کوئی بےحیائی کا کام کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کر گزریں تو وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو بخشے گا اور وہ اپنے کیے ہوئے کاموں پر دانستہ اصرار نہیں کرتے ان لوگوں جزاء کے رب کی طرف سے بخشش ہے اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے سے دریا جاری ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور نیک کاموں کا کیا ہی اچھا اجروثواب ہے اور اگر کسی وجہ سے مسلمان گناہ کبیرہ پر توبہ نہ کرپائیں تو ان کے لیے انبیاء علہیم السلام کی عموماً اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصاً شفاعت ہے اور اگر کسی سبب سے ان کی شفاعت بھی نہ ہوسکے تو ان کے کلمہ پڑھنے کی برکت سے محض اللہ کے فضل سے ان کی مغفرت متوقع ہے اور اگر وہ اس سے بھی محروم رہیں تو پھر وہ اپنے گناہ کی سزا بھگت کر بخش دیئے جائیں گے کیونکہ جس نے ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی نیکی کی تو وہ اس کی جزاء پائے گا۔ سو یہ ہے اہل سنت کا مذہب، جو قرآن مجید کی ان تمام آیات کے مطابق ہے، نہ معتزلہ کی طرح جنہوں نے صرف سزا کی آیات کو پڑھ کر کہا کہ اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ وہ گنہگار کو سزا دے اور نہ مرجئہ کی طرح جنہوں نے صرف گناہوں کے مٹانے کی آیات کو پڑھ کر کہا کہ اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ وہ مسلمان گنہگاروں کو سزا نہ دے، اللہ تعالیٰ مالک علی الاطلاق ہے، جس کو چاہے معاف کردے اور جس کو چاہے سزا دے، اس پر کچھ لازم نہیں ہے۔ ہماری اس تحقیق کے مطابق الزمر : ٣٥ کا ترجمہ اور تفسیر اس طرح ہے :” تاکہ اللہ ان (محسنین) سے ان کے کیے ہوئے زیادہ برے کاموں (گناہ کبیرہ) کو دور کردے اور ان کے کیے ہوئے زیادہ نیک کاموں کی ان کو جزاء عطا فرمائے “ اور ان محسنین کے کیے ہوئے گناہ کبیرہ اس سے عام ہیں کہ وہ گناہ انہوں نے اسلام لانے سے پہلے کیے ہوں یا اسلام لانے کے بعد کیے ہوں، امام رازی، علامہ قرطبی اور علامہ آلوسی نے ان گناہوں کو قبل از اسلام کے ساتھ مقید کیا، علامہ زمخشری نے کہا : ان گناہوں سے مراد صغائر ہیں اور مقاتل نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا کہ مسلمان مرتکب کبیرہ کو بالکل سزا نہیں ہوگی، ہمارے نزدیک یہ تمام تفاسیر غلط ہیں۔ اس ضمن میں اب ہم اردو کی بعض مشہور تفاسیر پر بھی تبصرہ کررہے ہیں تاکہ یہ بحث مکمل ہوجائے۔

الزمر : ٣٥ میں بعض اور دو تفاسیر پر تبصرہ

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : اللہ تعالیٰ متقین ومحسنین کو ان کے بہتر کاموں کا بدلہ دے گا اور غلطی سے جو بُرا کا ہوگیا معاف کرے گا۔ شاید ” اسوا “ اور ” احسن “ صیغہ تفضضیل اس لیے اختیار فرمایا کہ بڑے درجہ والوں کی ادنی بھلائی اوروں کی بھلائیوں سے اور ادنی برائی اوروں کی برائیوں سے بھاری سمجھی جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (حاشیہ عثمانی ص ٦١٥، مطبوعہ مملکت سعودی عربیہ)

یہ تفسیر بھی صحیح نہیں ہے، اللہ تعالیٰ صرف بہتر کاموں کی جزاء نہیں دے گا بلکہ تمام نیک کاموں کی جزاء دے گا اور صرف غلطی سے کیے جانے والے برے کاموں کو معاف نہیں کرے گا بلکہ دانستہ کیے جانے والے برے کاموں کو بھی معاف فرمائے گا، توبہ سے بھی معاف فرمائے گا اور بغیر توبہ کے بھی۔ نیز یہ زمخشری کی تفسیر کا چربہ ہے جس کا ہم پہلے رد کرچکے ہیں۔ سید ابوالاعلی مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے وہ بدترین اعمال جو جاہلیت میں ان سے سرزد ہوئے تھے ان کے حساب سے محو کردیئے جائیں گے اور ان کو انعام ان اعمال کے لحاظ سے دیا جائے گا جو ان کے نامہ اعمال میں سب سے بہتر ہوں گے۔ (تفہیم القرآن ج ٤ ص ٣٧٣، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ١٩٨٣ ء) یہ تفسیر بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ زمانہ جاہلیت کے گناہوں کو بھی معاف فرمائے گا اور زمانہ اسلام کے گناہوں کو بھی معاف فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ تمام نیک کاموں کی جزاء عطا فرمائے گا، البتہ زیادہ نیک کاموں پر خصوصی انعام واکرام سے نوازے گا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 35