أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لٰـكِنِ الَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّهُمۡ لَهُمۡ غُرَفٌ مِّنۡ فَوۡقِهَا غُرَفٌ مَّبۡنِيَّةٌ ۙ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُۖ وَعۡدَ اللّٰهِ‌ ؕ لَا يُخۡلِفُ اللّٰهُ الۡمِيۡعَادَ ۞

ترجمہ:

لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے (جنت میں) بالا خانے ہیں، ان کے اوپر اور بالا خانے بنے ہوئے ہیں، ان کے نیچے سے دریا جاری ہیں، یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا

الزمر : ٢٠ میں فرمایا : ” لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے، ان کے لیے (جنت میں) بالاخانے ہیں، ان کے اوپر اور بالا خانے بنے ہوئے ہیں، ان کے نیچے سے دریا جاری ہیں، یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا “

جنت کے بالا خانے

اس آیت میں ان لوگوں پر انعام واکرام کا بیان ہے جنہوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا، انہوں نے شرک کیا نہ گناہ کبیرہ یا صغیرہ کیا۔ وہ ظاہری بتوں کی عبادت سے بھی مجتنب رہے اور باطنی بت یعنی نفس امارہ کی اطاعت اور عبادت سے بھی مجتنب رہے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف اپنے نفس کی خواہشوں پر عمل نہیں کیا ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کے لیے جنت میں بالا خانے بنے ہوئے ہیں اور ان بالا خانوں کے اوپر اور بالاخانے بنے ہوئے ہیں، اس سے پہلی آیت الزمر : ١٦ میں فرمایا تھا کہ کفار کے لیے دوزخ میں آگ کے سائبان ہیں اور ان کے اوپر اور آگ کے سائبان ہیں اور یہ اس لیے فرمایا تھا کہ ان کو ان کے اوپر اور نیچے ہر طرف سے زیادہ سے زیادہ آگ کا عذاب پہنچتا رہے اور جنت میں جو بالا خانے اوپر ہوں گے اور جو نیچے ہوں گے وہ اہل جنت کو زیادہ سے زیادہ نعمتیں اور راحتیں پہنچانے کے لیے ہوں گے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ بالا خانے تو اوپر بنے ہوئے ہوتے ہیں تو جو عمارت ان کے نیچے بنی ہوگی اس پر بالا خانے کا اطلاق کس طرح درست ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ عمارت نچلی منزل کے اہل جنت کے اعتبار سے بالا خانہ ہوگی۔

جنت کے بالا خانوں کے متعلق یہ حدیث :

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جنت اپنے اوپر بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح مشرق یا مغرب سے آسمان کے اوپر چمکتے ہوئے ستارہ کو دیکھا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل جنت کے درجات اور مراتب میں فرق ہوگا، صحابہ کرام نے پوچھا : یارسول اللہ ! یہ (بالاخانے) انبیاء (علیہم السلام) کی منازل ہیں، جن تک ان کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچے گا، آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، ان میں وہ لوگ ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٥٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٣١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٩، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٨٣٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٧٢٤، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعیدالخدری رقم الحدیث : ٦٠٠)

وعد اور وعید کا فرق

اس کے بعد فرمایا : ” یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ “ اللہ تعالیٰ نے توبہ کرنے والوں سے مغفرت کا وعدہ کیا ہے اور اطاعت کرنے والوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے اور جو اس کے دیدار کے مشتاق ہیں اور محب صادق ہیں ان سے اپنے قرب، اپنی رضا اور اپنے دیدار کا وعدہ فرمایا ہے۔ وعدہ اور وعید میں فرق ہے، انعام واکرام کی خبر دینے کو وعد کہا جاتا ہے اور سزا کی خبر دینے کو وعید کہا جاتا ہے، وعد کے خلاف کرنا بخل ہے اور یہ اللہ کے لیے جائز نہیں ہے اور وعید کے خلاف کرنا کرم ہے اور یہ اللہ کے لیے جائز ہے، اشاعرہ کہتے جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے سزک کی خبر دی ہے اگر وہ اس کے خلاف کرے اور سزا نہ دے تو یہ اس کا کرم ہے اور یہجائز ہے، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ خبر کے خلاف نہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ وہ خبرکاذب تھی اور کذب اللہ تعالیٰ پر محال ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے خالف وعید جائز نہیں ہے، اشاعرہ اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں : کافروں کی سزا کی جو اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے وہ حتمی اور لازمی ہے اور گناہ گار مسلمانوں کے عذاب کی جو خبر دی ہے وہ حتمی نہیں ہے بلکہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اگر میں چاہوں، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم شاھون (الماعون : ٥۔ ٤)

ان نمازیوں کے لیے عذاب ہوگا جو اپنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں اس جگہ یہ شرط ملحوظ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کو عذاب ہوگا ورنہ نہیں ہوگا یا اگر اللہ کو معاف نہ کرے تو ان کو عذاب ہوگا ورنہ نہیں ہوگا اور اس شرط کے ملحوظ ہونے پر دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید کی بہت آیات میں اللہ تعالیٰ نے گنہگا روں کو بخشنے اور معاف کرنے کا ذکر فرمایا ہے، مثلاً فرمایا :

ان اللہ یغفرالذنوب جمعیا۔ (الزمر : ٥٣) اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ پس جن آیات میں گنہگار مسلمانوں کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اگر یہ شرط ملحوظ نہ رکھی جائے تو مغفرت کی آیات کے خلاف ہوگا، اس آیت کی زیادہ تحقیق ہم نے آل عمران ٩ میں کی ہے، دیکھئے بتیان القرآن ج ٢ ص ٦٩۔ ٦٨)

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 20