کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 19 رکوع 2 سورہ الفرقان آیت نمبر 35 تا 44
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵)
اور بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے بھائی ہارون کو وزیر کیا
فَقُلْنَا اذْهَبَاۤ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِیْرًاؕ(۳۶)
تو ہم نے فرمایا تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جس نے ہماری آیتیں جھٹلائیں (ف۶۳) پھر ہم نے اُنہیں تباہ کرکے ہلاک کردیا
(ف63)
یعنی قومِ فرعون کی طرف چنانچہ وہ دونوں حضرات ان کی طرف گئے اور انہیں خدا کا خوف دلایا اور اپنی رسالت کی تبلیغ کی لیکن ان بدبختوں نے ان حضرات کو جھٹلایا ۔
وَ قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ وَ جَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰیَةًؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًاۚۖ(۳۷)
اور نوح کی قوم کو (ف۶۴) جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا (ف۶۵) ہم نے ان کو ڈبو دیا اور اُنہیں لوگوں کے لیے نشانی کردیا (ف۶۶) اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
(ف64)
بھی ہلاک کر دیا ۔
(ف65)
یعنی حضرت نوح اور حضرت ادریس کو اور حضرت شیث کو یا یہ بات ہے کہ ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب ہے تو جب انہوں نے حضرت نوح کو جھٹلایا تو سب رسولوں کو جھٹلایا ۔
(ف66)
کہ بعد والوں کے لئے عبرت ہوں ۔
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا(۳۸)
اور عاد اور ثمود (ف۶۷) اور کنوئیں والوں کو (ف۶۸) اور ان کے بیچ میں بہت سی سنگتیں (ف۶۹)
(ف67)
اور عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم اور ثمود حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ان دونوں قوموں کو بھی ہلاک کیا ۔
(ف68)
یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم تھی جو بُت پرستی کرتے تھے اللہ تعالٰی نے ان کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے سرکشی کی حضرت شعیب علیہ السلام کی تکذیب کی اور آپ کو ایذا دی ، ان لوگوں کے مکان کنوئیں کے گرد تھے اللہ تعالٰی نے انہیں ہلاک کیا اور یہ تمام قوم مع اپنے مکانوں کے اس کنوئیں کے ساتھ زمین میں دھنس گئی ۔ اس کے علاوہ اور اقوال بھی ہیں ۔
(ف69)
یعنی قومِ عاد و ثمود اور کنوئیں والوں کے درمیان میں بہت سی اُمّتیں ہیں جن کو انبیاء کی تکذیب کرنے کے سبب سے اللہ تعالٰی نے ہلاک کیا ۔
وَ كُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْاَمْثَالَ٘-وَ كُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِیْرًا(۳۹)
اور ہم نے سب سے مثالیں بیان فرمائیں (ف۷۰) اور سب کو تباہ کرکے مٹادیا
(ف70)
اور حُجّتیں قائم کیں اور ان میں سے کسی کو بغیر اِنذار ہلاک نہ کیا ۔
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِؕ-اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَاۚ-بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا(۴۰)
اور ضرور یہ (ف۷۱) ہو آئے ہیں اس بستی پر جس پربرا برساؤ برسا تھا (ف۷۲) تو کیا یہ اُسے دیکھتے نہ تھے (ف۷۳) بلکہ انہیں جی اُٹھنے کی اُمید تھی ہی نہیں (ف۷۴)
(ف71)
یعنی کُفّارِ مکّہ اپنی تجارتوں میں شام کے سفر کرتے ہوئے بار بار ۔
(ف72)
اس بستی سے مراد سدوم ہے جو قومِ لوط کی پانچ بستیوں میں سب سے بڑی بستی تھی ان بستیوں میں ایک سب سے چھوٹی بستی کے لوگ تو اس خبیث بدکاری کے عامل نہ تھے ، جس میں باقی چار بستیوں کے لوگ مبتلا تھے اسی لئے انہوں نے نجات پائی اور وہ چار بستیاں اپنی بدعملی کے باعث آسمان سے پتّھر برسا کر ہلاک کر دی گئیں ۔
(ف73)
کہ عبرت پکڑ تے اور ایمان لاتے ۔
(ف74)
یعنی مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کے قائل نہ تھی کہ انہیں آخرت کے ثواب و عذاب کی پرواہ ہوتی ۔
وَ اِذَا رَاَوْكَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًاؕ-اَهٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا(۴۱)
اور جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں نہیں ٹھہراتے مگر ٹھٹھا(مذاق) (ف۷۵) کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول بناکر بھیجا
(ف75)
اور کہتے ہیں ۔
اِنْ كَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا لَوْ لَاۤ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْهَاؕ-وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا(۴۲)
قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے خداؤں سے بہکادیں اگر ہم ان پر صبر نہ کرتے (ف۷۶) اور اب جانا چاہتے ہیں جس دن عذاب دیکھیں گے (ف۷۷) کہ کون گمراہ تھا (ف۷۸)
(ف76)
اس سے معلوم ہوا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اور آپ کے اظہارِ معجزات نے کُفّار پر اتنا اثر کیا تھا اور دینِ حق کو اس قدر واضح کر دیا تھا کہ خود کُفّار کو اقرار ہے کہ اگر وہ اپنی ہٹ پر جمے نہ رہتے تو قریب تھا کہ بُت پرستی چھوڑ دیں اور دینِ اسلام اختیار کریں یعنی دینِ اسلام کی حقانیت ان پر خوب واضح ہو چکی تھی اور شکوک و شبہات مٹا ڈالے گئے تھے لیکن وہ اپنی ہٹ اور ضد کی وجہ سے محروم رہے ۔
(ف77)
آخرت میں ۔
(ف78)
یہ اس کا جواب ہے کہ کُفّار نے یہ کہا تھا کہ قریب ہے کہ یہ ہمیں ہمارے خداؤں سے بہکا دیں ، یہاں بتایا گیا کہ بہکے ہوئے تم خود ہو اور آخرت میں یہ تم کو خود معلوم ہو جائے گا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بہکانے کی نسبت مَحض بےجا ہے ۔
اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ(۴۳)
کیا تم نے اُسے دیکھا جس نے اپنے جی کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا (ف۷۹) تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے (ف۸۰)
(ف79)
اور اپنی خواہشِ نفس کو پُوجنے لگا اسی کا مطیع ہو گیا وہ ہدایت کس طرح قبول کرے گا ۔ مروی ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ ایک پتّھر کو پُوجتے تھے اور جب کہیں انہیں کوئی دوسرا پتھر اس سے اچھا نظر آتا تو پہلے کو پھینک دیتے اور دوسرے کو پوجنے لگتے ۔
(ف80)
کہ خواہش پرستی سے روک دو ۔
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَؕ-اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠(۴۴)
یا یہ سمجھتے ہو کہ ان میں بہت کچھ سُنتے یا سمجھتے ہیں (ف۸۱) وہ تو نہیں مگر جیسے چوپائے بلکہ اُن سے بھی بدتر گمراہ (ف۸۲)
(ف81)
یعنی وہ اپنے شدتِ عناد سے نہ آپ کی بات سنتے ہیں نہ دلائل و براہین کو سمجھتے ہیں بہرے اور ناسمجھ بنے ہوئے ہیں ۔
(ف82)
کیونکہ چوپائے بھی اپنے ربّ کی تسبیح کرتے ہیں اور جو انہیں کھانے کو دے اس کے مطیع رہتے ہیں اور احسان کرنے والے کو پہچانتے ہیں اور تکلیف دینے والے سے گھبراتے ہیں ، نافع کی طلب کرتے ہیں ، مُضِر سے بچتے ہیں ، چراگاہوں کی راہیں جانتے ہیں ، یہ کُفّار ان سے بھی بدتر ہیں کہ نہ ربّ کی اطاعت کرتے ہیں نہ اس کے احسان کو پہچانتے ہیں ، نہ شیطان جیسے دشمن کی ضرر رسانی کو سمجھتے ہیں ، نہ ثواب جیسی عظیم المنفعت چیز کے طالب ہیں ، نہ عذاب جیسے سخت مُضِر مہلکہ سے بچتے ہیں ۔