مکان بکاؤہے!!

غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

چونکیے مت!

یہ مکان بیچنے کا اعلان نہیں بلکہ مسلمانوں کو پریشان کرنے کا نیا اور کارگر نسخہ ہے۔جس علاقے کے مسلمانوں کو پریشان کرنا ہوتا ہے وہاں کے غیر مسلم اپنے گھروں پر “مکان بکاؤ ہے” لکھ کر بیٹھ جاتے ہیں، باقی کا کام گودی میڈیا کر دیتا ہے۔اس کے بعد حکومت اور انتظامیہ مل کر اس علاقے کے مسلمانوں کا عرصہ حیات اتنا تنگ کر دیتے ہیں کہ مسلمان خود ہی اپنا گھر مکان بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس طرح بیٹھے بٹھائے مسلمانوں کو سبق بھی سکھا دیا جاتا ہے اور شکایت کنندہ غیر مسلم مظلوم کے مظلوم بھی بنے رہتے ہیں۔

_مسلمانوں کے خلاف “مکان بکاؤ ہے” پروپیگنڈے کی سیاسی اور منظم شروعات 2016 میں کیرانہ ضلع شاملی یوپی سے ہوئی تھی۔اچانک ہی کیرانہ کے کچھ غیر مسلموں نے اپنے گھروں پر ‘مکان بکاؤ ہے’ کے بورڈ لگا دیے۔اس وقت بی جے پی لیڈر ‘حکم سنگھ’ وہاں کے ایم پی ہوا کرتے تھے انہوں نے پریس کانفرنس کرکے یہ الزام لگایا کہ مسلمانوں کی دبنگئی اور خوف کی وجہ سے ہندو اپنے مکان بیچنا چاہتے ہیں۔اپنے دعوے کے ثبوت میں انہوں نے تے تین سو چھیالیس خاندانوں کی فہرست بھی جاری کی جو مسلمانوں کے خوف سے اپنا مکان بیچنا چاہتے ہیں یا بیچ کر چلے گئے ہیں۔حالانکہ پولیس،میڈیا اور ہیومین کمیشن کی تحقیق میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا اور الیکشن میں ہار کے بعد بی جے پی نے بھی یہ مدعا ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔

بھلے ہی کیرانہ میں یہ معاملہ ناکام ہوگیا مگر شرپسند عناصر کے ہاتھ ایک شان دار نسخہ لگ گیا تھا۔کیرانہ کے بعد شاملی، بنگال کے آسن سول اور ڈائمنڈ ہاربر، ہریانہ کے میوات اور سیلم پور دہلی میں بھی یہی داؤں آزمایا گیا۔اس پر بس نہیں چلا تو پچھلے سال میرٹھ کے ایک محلے میں یہی پروپیگنڈہ کیا گیا۔حالانکہ کسی ایک جگہ بھی یہ بات صحیح ثابت نہ ہوسکی مگر شرپسند ابھی تک باز نہیں آئے تازہ معاملہ علی گڑھ کے نور پور گاؤں اور رامپور کے قصبہ ٹانڈہ کا ہے جہاں معمولی باتوں کا بتنگڑ بناتے ہوئے “مکان بکاؤ ہے” کے بورڈ لگا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

_چھبیس مئی 2021 کو علی گڑھ کے نور پور گاؤں میں غیر مسلموں کی ایک بارات گاجے باجے کے ساتھ نکل رہی تھی۔جب یہ بارات مسجد کے سامنے پہنچی تو کچھ مسلمانوں نے ان سے جلدی آگے نکل جانے یا بینڈ باجا بند کرنے کی گزارش کی۔اس معقول سی بات پر باراتی بگڑ گئے۔بحث وتکرار کے بعد باراتیوں اور مقامی لوگوں میں ہاتھاپائی ہوگئی۔بس اسی بات کو لیکر غیر مسلموں نے اپنے مکانوں کے باہر “مکان بکاؤ ہے” لکھ کر مسلمانوں کو غنڈہ اور خود کو مظلوم بنا لیا۔

__اٹھائیس مئی رامپور کے قصبہ ٹانڈہ میں کیرم کھیلنے کو لیکر کچھ مسلم اور غیر مسلم لڑکوں میں جھگڑا ہوگیا تھا۔پولیس نے اس معاملے میں تین لوگوں کا چالان بھی کردیا تھا۔مگر غیر مسلم اتنے پر مطمئن نہیں ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے اپنے گھروں پر “مکان بکاؤ ہے” لکھ دیا اور اب میڈیا کے سامنے مسلمانوں کی دبنگئی اور اپنی مظلومیت کے قصے سنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خوف سے اس قدر پریشان ہیں کہ اپنا مکان بیچ کر یہاں سے دور چلے جانا چاہتے ہیں۔

حالیہ دونوں معاملات میں درج فہرست ذات (SC) کے لوگ شامل ہیں۔جو بہ خوشی ان شرپسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جنہوں نے آج تک انہیں برابری کا حق نہیں دیا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کوئی دلت تنظیم اس معاملے پر آگے نہیں آئی ہے۔دلت لیڈران کو چاہیے کہ وہ آگے آکر اپنی قوم کو شرپسندوں کی کٹھ پتلی بننے سے بچائیں تاکہ سماجی انصاف کی مہم کمزور نہ پڑے۔

پروپگنڈے کی حقیقت

جن علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد بیس فیصد سے کم ہوتی ہے وہاں کے مسلمان اکثریت کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ان کی مرضی کے بغیر مسجد بنا سکتے ہیں نہ مدرسہ۔حتی کہ عید الاضحٰی کے موقع پر قربانی تک نہیں کر سکتے۔قربانی کے لیے انہیں دوسرے گاؤں جانا پڑتا ہے۔آبادی کا تناسب اگر دس فیصد کے آس پاس یا کم ہو تب تو مسلمان اپنے گھر میں نہ مذہبی محفل کر سکتا ہے اور نہ ہی بڑے جانور کا گوشت پکا سکتا ہے۔

ہاں! جن علاقوں میں مسلم آبادی تیس فیصد یا زائد ہوتی ہے وہاں مسلمان قدرے آزادی سے اسلامی معاشرت کے ساتھ رہتے ہیں۔اس لیے اب ان علاقوں کے خلاف “مکان بکاؤ ہے” جیسے پروپیگنڈے شروع کیے گیے ہیں۔حالانکہ ایسے تمام معاملات تحقیقات کے بعد غلط ہی ثابت ہوئے ہیں۔ابھی تک ایک بھی معاملہ ثابت نہیں ہوسکا۔اس کے باوجود پورے ملک میں شر پسند عناصر اور موقع پرست سیاسی لیڈر یہ کھیل مزے کے ساتھ کھیل رہے ہیں تو اس کے پیچھے دو بنیادی باتیں سمجھ میں آتی ہیں:

1- مسلم اکثریتی علاقوں میں سیاست ومعیشت میں مسلمان قدرے مضبوط نظر آتے ہیں اس لیے شرپسند عناصر ایسے ایشوز اٹھا کر انہیں تجارتی نقصان پہنچانا اور اپنی پارٹیوں میں نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

2- دوسری اہم وجہ وہ ذہنیت ہے جو کسی جگہ بھی مسلمان کو چین وسکون سے دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔اس لیے مسلم اکثریتی بستیاں ان کی نظروں میں کھٹکتی ہیں۔کیوں کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں تو انہیں مسجد/مدرسہ بنانے اور قربانی تک کی اجازت نہیں ہوتی لیکن اب اکثریتی بستیوں میں بھی مسلمانوں کے مفروضہ ظلم وستم کی آڑ لیکر وہاں بھی اپنا دبدبہ اور تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔مکان بیچنے کا پروپیگنڈہ اسی سازش کا تازہ ہتھیار ہے۔

اس کھیل میں میڈیا شر پسند عناصر کا بھرپور ساتھ دیتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کرتا ہے۔میڈیا کی مانیں تو ایسا لگتا ہے کہ مسلمان اس قدر دبنگ اور طاقت ور ہیں جن کے خوف سے غیر مسلم سانس لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔حالانکہ اسے ایک لطیفہ ہی کہا جائے گا کہ کیوں کہ حکومت، انتظامیہ ،میڈیا اور تمام تر وسائل پر غیر مسلموں کا ہی دبدبہ وتسلط ہے۔مسلمان تو یہاں اپنے وجود اور دو وقت کی روٹی کے لیے ہی جدوجہد کر رہے ہیں وہ بھلا کسی کو دھمکانے اور ڈرانے کی طاقت کہاں سے لائے گیں؟

میڈیا نے اس ملک کے لوگوں کے دل ودماغ پر ایسا قبضہ کیا ہے وہ اتنی معمولی بات نہیں سمجھ پاتے کہ مسلمان اس ملک میں محض پندرہ فیصد ہیں۔مالی، سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے ملک کی سب سے پس ماندہ قوم ہیں۔جس قوم کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہو۔ملک کی سب سے پس ماندہ قوم ہو بھلا وہ یہاں کی حکمراں اور طاقت ور اکثریت کو کس طرح ڈرا دھمکا سکتی ہے؟

مگر جب عقل غیروں کے قبضے میں ہو تو اسے کچھ بھی سمجھایا/سکھایا جاسکتا ہے۔ایسا ہی آج کل میڈیا کر رہا ہے اور مسلم دشمنی میں لوگ دن کو رات اور رات کو دن کہے جارہے ہیں۔

27 شوال المکرم 1442ھ

9 جون 2021 بروز بدھ