أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاتَّبِعُوۡۤا اَحۡسَنَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِيَكُمُ الۡعَذَابُ بَغۡتَةً وَّاَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اور تمہارے رب کی طرف سے تم پر جو احکام نازل کیے گئے ان میں سے سب سے اچھے احکام پر عمل کرو، اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو

تفسیر:

احسن نازل شدہ چیز کی متعدد تفسیریں

الزمر : ٥٥ میں فرمایا : ” اور تمہارے رب کی طرف سے تم پر جو احکام نازل کیے گئے ہیں، ان میں سب سے اچھے احکام پر عمل کرو، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو “

فرمایا : ” تمہارے رب کی طرف سے جو سب سے اچھی چیز نازل کی گئی ہے اس کی اتباع کرو اس کی کئی تفسیریں ہیں : ایک یہ کہ اس سے مراد قرآن ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کی اتباع کرو، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا۔ (الزمر :23)

اللہ نے سب سے احسن کلام نازل فرمایا جس کی آیتیں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔

اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کو لازم رکھو اور اس کی معصیت سے مجتنب رہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے افعال بیان فرمائے ہیں :

(١) برے کام بیان فرمائے تاکہ ان کو ترک کیا جائے۔

(٢) مکروہ کام بیان فرمائے تاکہ ان سے اعراض کیا جائے اور نہایت عمدہ کام بیان فرمائے تاکہ ان پر عمل کیا جائے۔

اور اس کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان احکام کا بھی ذکر ہے جو منسوخ ہوچکے ہیں اور ناسخ احکام کا بھی ذکر ہے۔ سو ناسخ پر عمل کیا جائے اور منسوخ پر عمل نہ کیا جائے۔

یہ اس آیت کی تین تفسیریں ہیں جن کو امام رازی نے بیان فرمایا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٦٦) اسی طرح دیگر مفسرین نے بھی صرف یہی لکھا ہے اور میرے ناقص ذہن میں اس آیت کی ایک اور تفسیر ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں دو قسم کے احکام ہیں، ایک وہ ہیں جو فی نفسہٖ صحیح اور درست ہیں لیکن زیادہ بہتر اور احسن نہیں ہیں، پس تم احسن اور زیادہ اچھے احکام پر عمل کرو۔

مثلاً رمضان میں کوئی شخص بیمارہو یا سفر میں ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ان دنوں میں روزے نہ رکھے اور بعد میں ان کی قضاء کرے اور اگر وہ ان ایام میں روزے رکھ لے تو اس کے لیے زیادہ بہتر ہے، قرآن مجید میں ہے :

فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخرط (الی قولہ تعالی) وان تصوموا خیرلکم۔ (البقرہ : 184)

تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ دوسرے ایام میں ان کی جگہ روزے رکھے اور اگر تم روزے رکھ لو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔

اسی طرح نفلی صدقات کو دکھا کردینا جائز ہے لیکن چھپا کردینے میں زیادہ فضیلت ہے، قرآن مجید میں ہے :

ان تبدوا الصدقت فنعماھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیرلکم۔ (البقرہ :271) اگر تم صدقات کو ظاہر کرو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر تم صدقات مسکینوں کو چھپا کردو تو وہ زیادہ بہتر ہے۔

اسی طرح مقروض کو اتنی مہلت دینا واجب ہے کہ وہ قرض کو آسانی کے ساتھ ادا کرسکے اور قرض خواہ، مقروض کو قرض کی رقم معاف کردے تو یہ زیادہ بہتر ہے، قرآن مجید میں ہے :

وان کان ذوعسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ وان تصدقوا خیرلکم ان کنتم تعلمون (البقرہ :280) اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو اس کی خوشحالی تک اس کو مہلت دینا ہے اور (اگر) تم قرض کی رقم اس پر صدقہ کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم کو علم ہو

وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفاواصلح فاجرہ علی اللہ ط انہ لا یحب الظلمین (الشوریٰ :40) زیادتی کا بدلہ اتنی ہی زیادتی ہے، پس جس نے معاف کردیا اور نیکی کی، اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے، بیشک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا

یہ چند مثالیں ہیں جن میں قرآن مجید میں ایک کام کا حکم دیا ہے جو صحیح اور درست ہے اور اس کے ساتھ ہی دوسرے کام کا بھی حکم دیا ہے جو اس سے زیادہ اچھا اور احسن ہے اور الزمر : ٥٥ میں ہمیں قرآن مجید کے احسن کاموں پر عمل کی ترغیب دی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 55