أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَتَرَى الۡمَلٰٓئِكَةَ حَآفِّيۡنَ مِنۡ حَوۡلِ الۡعَرۡشِ يُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ‌ۚ وَقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ بِالۡحَـقِّ وَقِيۡلَ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ۞

ترجمہ:

اے رسول مکرم ! آپ دیکھیں گے کہ فرشتے عرش کے گروہ حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کررہے ہیں اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے :

اے رسول مکرم ! آپ دیکھیں گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کررہے ہیں اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور یہ کہائے گا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے (الزمر :75)

اس سے پہلی آیت میں مؤمنین کے ثواب کا ذکر فرمایا تھا اور اس آیت میں فرشتوں کے درجات کا ذکر فرمایا، جس طرح مؤمنین کا اعلیٰ مقام جنت ہے اسی طرح فرشتوں کا اعلیٰ مقام عرش ہے اور فرشتے عرش کے گرد اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا “ امام رازی نے کہا : یہ ضمیر فرشتوں کی طرف راجع ہے یعنی فرشتوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ اس فیصلہ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے گے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٨١)

اور دیگر مفسرین نے کہا : اہل جنت اور اہل نام کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا یا انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردی جائے گا۔ جب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ان کے حق میں گواہی دے گی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی گواہی کے برحق ہونے کی گواہی دیں گے اور مؤمنین کہیں گے : الحمد اللہ رب العٰلمین۔

سورة الزمر کا اختتام

آج بروز بدھ ١٩ رجب ١٤٦٤ ھ ؍١٧ ستمبر ٢٠٠٣ ء بعد نماز عصر سورة الزمر کا اختتام ہوگیا، فالحمدللہ رب العٰلمین۔

اے بارالہْٰ جس طرح آپ نے یہاں تک قرآن مجید کی تفسیر مکمل کرادی ہے قرآن مجید کی بقیہ تفسیر بھی مکمل کرادیں اس سورت کی تفسیر کیدوران میری والدہ محترمہ شفیق فاطمہ رحمھا اللہ کا انتقال ہوگیا، انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی میرے والد کی، میری اور جملہ مؤمنین کی مغفرت فرمائے۔

رب ارحمھما کما ربینی صغیر (بنی اسرائیل : 24) اے میرے رب ! میرے والدین پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ربنا اغفرلی والودالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب (ابراہیم : 41)

اے ہمارے رب ! میری مغفرت فرما اور میرے والدین کی اور تمام مؤمنین کی جس دن حساب لیا جائے میری والدہ بہت عابدہ اور زاہدہ تھیں اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتی تھیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بہت قمربہ تھیں میں ان سطور میں پہلے اپنی والدہ کی وفات کا ذکر کروں گا، پھر قرآن اور حدیث سے ماں کا مقام بیان کروں گ اور آخر میں وہ واقعات ذکر کروں گا جس سے ان کے مقربہ ہونے کا علم ہوتا ہے۔

مصنف کی والدہ کی وفات

٨ جمادی الثانیہ، ١٤٢٤ ھ؍١٧ اگست ٢٠٠٣ ء کو میری امی محترمہ شفیق فاطمہ رحمہا اللہ، اس دارالفناء کے کوچ کرکے دارالبقاء کی طرف روانہ ہوگئیں، انا اللہ وانا الیہ راجعون، وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ٨٦ برس تھی اور اب میری عمر ٦٦ برس ہے، گو یا ٦٦ برس تک میں ان کی شفیق نگاہوں اور مستجاب دعائوں کے زیر سایہ رہا۔

وہ عابدہ زاہدہ خاتون تھیں، شب بیدار اور تہجدگزار تھیں، وہ اس آیت کا مصداق تھیں :

والذین امنو اشدحبا للہ۔ (البقرہ :165) اور ایمان والے اللہ سے سب سے شدید محبت کرتے ہیں۔

ہر نیک کام اور ہر نعمت خواہ کسی سے ملی ہو اس کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتی تھیں، وہ نقل نماز پڑھ رہی تھی یا اور وظائف پڑھ رہی ہوں، اس دوران کوئی ملنے آجائے تو وہ اس کی طرف بالکل التفات نہیں کرتی تھیں، ایک دفعہ وہ دن میں نوافل پڑھ رہی تھیں کہ میری خالہ (امی کی بڑی بہن) ان سے ملنے آگئیں، سلام پھیرنے کے بعد جب وہ دوبارہ نیت باندھنے لگیں تو خالہ بیگم نے ان سے کہا : ابھی تو تم نے نماز پڑھی تھی، پھر نماز پڑھنے لگیں، امی نے بہت ناگواری سے کہا : آپ میری نماز کو نہ ٹوکا کریں، ان کا سب سے زیادہ دل اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگتا تھا، انہوں نے اپنے بچپن سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور وفات سے چند سال پہلے تک قرآن مجید پڑھاتی رہی، ان گنت لڑکوں اور لڑکیوں کو انہوں نے قرآن مجید پڑھایا، میں نے بھی قرآن مجید ان ہی سے پڑھا تھا اور جب تک ان کے پڑھائے ہوئے قرآن مجید پڑھتے رہیں گے ان کو ثواب پہنچتا رہے گا، وہ خود قرآن مجید کی بہت زیادہ تلاوت کرتی تھیں، ایک دن میں سترہ سترہ پارے تلاوت کرلیا کرتی تھیں، سورة یٰسین، سورة رحمن، سورة واقعہ، سورة ملک اور سورة مزمل بہت دل گداز اور دل سوز آواز میں پڑھتی تھیں، قاری غلام رسول صاحب کی ترتیل سے پڑھا ہوا قرآن مجید جو ٧٥ کیسٹ میں تھا، وہ میں نے امی کو لا کردے دیا تھا، وہ قرآن مجید کو ان کیسٹس سے قرآن مجید سنتی رہتی تھیں، پھر ایک وقت آیا کہ ان کی سماعت اس قدر کمزور ہوگئی کہ وہ کیسٹس سے بھی نہیں سن سکتی تھیں اور ہر وقت ملول اور افسردہ رہتی تھیں کہ اب میں قرآن مجید پڑھ سکتی ہوں نہ سن سکتی ہوں، میں نے ان کو یہ حدیث سنائی :

حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کے جسم میں کوئی بیماری ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کی حفاظت کرنے والے فرشتوں سے فرماتا ہے : میرا بندہ جو نیک عمل کرتا تھا اس کے صحیفہ اعمال میں ہر روز وہ عمل لکھتے رہو۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٤٦، المعجم الکبیر ْ ١٧ ص ٢٨٤)

نیز حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بندہ کسی اچھے طریقے سے عبادت کررہاہو، پھر وہ بیمار ہوجائے تو جو فرشتہ اس پر مامور ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تندرستی کے ایام میں جو عمل کرتا تھا اس کا وہ عمل لکھتے رہو حتیٰ کہ وہ تندرست ہوائے۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٦٨٩٥، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٣٠٣)

لیکن قرآن مجید پڑھنے اور سننے کی لذت سے جو وہ محروم ہوگئیں تھیں، اس کی وجہ سے ان کا غم نہیں جاتا تھا، اس کے بعد وہ ہر وقت تسبیح پڑھتی رہتی تھیں۔ اس کے باوجود وہ رات کو اٹھتی تھیں اور جس قدر ہوسکتا تھا اس قدر نمازیں پڑھتی تھیں، ان کو ١٩٧٥ ء سے شوکر ہوگئی تھی، وہ بہت سخت پرہیز کرتی تھیں، شوگر کی وجہ سے ان کو کوئی خطرناک عارضہ نہیں ہوا، آخری سات سالوں میں ان کی شوگر لو رہتی تھی اور ڈاکٹروں نے ان کی شوگر کنٹرول کرنے والی دوا بند کرادی تھی، البتہ عمر کے تقاضے سے اور مقوی خوراک نہ کھاسکنے کی وجہ سے بےحد کمزور، نحیف اور لاغر تھیں۔

قرآن و حدیث سے مال کا مقام

ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن وفصلہ فی عامین ان اشکرلی ولوالدیک الی المصیر (لقمان : 14) اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اس کو پیٹ میں اٹھایا اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے (اور ہم نے یہ حکم دیا کہ) میرا اور والدین کا شکر ادا کرو، میری ہی طرف لوٹنا ہے ماں اور باپ دونوں کی اطاعت واجب ہے، لیکن ماں کی اطاعت کا حق چار میں سے تین حصہ ہے اور باپ کی اطاعت کا حق ایک حصہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری ماں، اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری ماں، اس نے پوچھا : پھر کون ہے ؟ فرمایا : تمہاری ماں ! اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ فرمایا : تمہارا باپ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٨ )

حضرت جاہمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں، آپ نے پوچھا : کیا تمہاری ماں ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : پھر اس کے ساتھ چمٹے رہو، کیونکہ جنت اس کے پیروں کے پاس ہے، وہ پھر دوبارہ کسی اور وقت گئے، پھر سہ بارہ کسی اور وقت گئے تو آپ نے یہی جواب دیا۔ (سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٨، مسند احمد ج ٣ ص ٤٢٩، طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٤ ص ٢٩٩، رقم الحدیث : ١٥٥٣٨، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ، اس حدیث کی سند حسن ہے، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٩ ص ٢٦، مصنف عبدالرزاق، رقم الحدیث : ٩٢٩٠، تاریخ بغداد ج ٣ ص ٣٢٤، المستدرک ج ٢ ص ١٠٤، شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٨٣٣، الاحاد والمثانی رقم الحدیث : ١٣٧١، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٢٠٤، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٤٧٤، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٩٣٥)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (جمع الجوامع ج ٤ ص ١٨٥، رقم الحدیث : ١١١٢٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اپنی ماں کی دو آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا تو یہ بوسہ اس کے لیے (دوزخ کی) آگ سے حجاب بن جائے گا۔ (شعب الایمان ج ٦ ص ١٨٧، رقم الحدیث : ٧٨٦١ )

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن مظعون (رض) کے فوت شدہ جسم کو بوسہ دیا اور آپ کی آنکھوں سے آسوبہہ رہے تھے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١٦٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩٨٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٥٦ )

الحمد للہ رب العٰلمین ! اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نے ان تمام احادیث پر عمل کیا ہے، میں امی سے رخصت ہوتے وقت ہمیشہ ان کے پائوں کو ہاتھ لگاتا تھا کہ یہ میری جنت ہیں اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیتا تھا اور ان کی وفات کے بعد کئی بار میں نے ان کے ماتھے پر اور ان کے پیروں پر بوسہ دیا، اس وقت وہ کفن میں ملفوف تھیں، ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اشک بار آنکھوں سے ان کے لیے دعا کی اور تدفین کے بعد دعا کی، ان کی نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں علماء اور طلباء شامل تھے اور ان سب کی آنکھوں میں آنسو تھے جن کی تعداد آٹھ سو کے لگ بھگ تھی اور اس میں بھی ان کی مغفرت کی بشارت ہے۔

جن احادیث سے امی کی مغفرت متوقع ہے

حدیث میں ہے :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان بھی فوت ہو اور اس کی نماز جنازہ میں چالیس مسلمان ایسے ہوں جو اللہ سے بالکل شرک نہ کرتے ہوں اللہ تعالیٰ اس میت کے حق میں ان کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٤٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١٧٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٨٩، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٤ ص ٣٠، شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٢٤٩، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٥٠٥، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٣١١٣)

میری امی جمعہ کی شب تقریباً ساڑھے گیارہ بجے رات فوت ہوئیں اور جمعہ کی شب فوت ہونے میں بھی ان کی مغفرت کی بشارت ہے :

حضرت عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مسلمان بھی جمعہ کے دن فوت ہوتا ہے یا جمعہ کی شب فوت ہوتا ہے، اللہ اس کی قبر کے فتنہ سے محفوظ رکھتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٧٤، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٥٥٩٤، مسند احمد ج ٢ ص ١٦٩ طبع قدیم، مسند احمد ج ١١ ص ١٤٧، رقم الحدیث : ٦٥٨٢، مؤسسۃ الرسالہ، ١٤٢٠ ھ، الترغیب والترہیب للمنذری ج ٤ ص ٣٧٣، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ١٤٦٧، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢١٠٤٥ )

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دن فوت ہوجائے اس کو عذاب قبر سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ (المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٢٧١، الکامل لابن عدی ج ٧ ص ٢٤٤٣ )

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن فوت ہو یا جمعہ کی شب فوت ہو اس کو عذاب قبر سے محفوظ رکھتا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس پر شہداء کی مہر ہوگی۔ (حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ١٨١، رقم الحدیث : ٣٦٢٩، تقریب البغیۃ ج ١ ص ٤٣٣، رقم الحدیث : ١٢١٦)

جن واقعات سے امی کے مقرب ہونے کا پتا چلتا ہے

اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری امی کا بہت بڑا درجہ تھا، اللہ تعالیٰ ان کی دعائوں کو قبول فرماتا تھا اور ان کی خواہشوں کو بھی پورا فرماتا تھا، کوئی دس سال پہلے کی بات ہے، آدھی رات کو میری اچانک آنکھ کھل گئی اور دل میں سخت بےچینی تھی، لگتا تھا کہ کسی کی یاد آرہی ہے، میں سوچتا رہا کہ مجھے کس کی یاد آرہی ہے، کئی نام لیے لیکن دل مطمئن نہیں ہوا، آخر میں سوچا کہ امی کی وجہ سے دل بےچین ہے، میں نے فیصلہ کیا کہ کل میں امی کے پاس جائوں گا، پھر دل مطمئن ہوگیا اور میں سو گیا، دوسرے روز میں امی کے پاس پہنچا تو امی نے کہا : میں نے رات تہجد میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ کل نجمی (میرا گھریلو نام) کو میرے پاس بھیج دینا۔ امی کی ایک خواہش تھی کہ ان کو چلتے پھرتے موت آئے، کسی کی محتاج نہ ہو، سو ایسا ہی ہوا، ان کی خواہش تھی کہ ان کی وفات کے وقت ان کی بڑی بیٹی بھی موجود ہوں، مجھے رات 12 بجے موبائل پر فون کرکے میری چھوٹی بہن نے بتایا کہ امی کا انتقال ہوگیا، میں بڑی بہن کو فون کرتا رہا لیکن ان کا فون خراب تھا، انہوں نے نیا گھر لیا تھا، وہ میرا دیکھا ہوا نہیں تھا، بڑی مشکل سے رات کو اڑھائی بجے میں نے اپنی خالہ زاد بہن کو فون کرکے ان کا پتا معلوم کیا اور میں اپنے ایک کرم فرما محترم محمد شمیم خان کے ساتھ اللہ پر بھروسا کرکے رات تین بجے ان کا گھر ڈھونڈنے نکلا، ہم اس علاقہ میں گھر ڈھونڈ رہے تھے کہ ایک شخص جو دس سال پہلے شمیم صاحب کے ساتھ سعودی عرت میں کام کرچکا تھا وہ ان کی آواز سن کر چونکا اور اس نے شمیم صاحب کو پہچان لیا، وہ اس علاقہ میں رہتا تھا، اس کے تعاون سے ہم نے گھر ڈھونڈلیا اور اس طرح حیرت انگیز طریقہ سے امی کی یہ خواہش پوری ہوئی اور میں نے بڑی بہن کو امی کے پاس پہنچادیا۔

اس سلسلہ میں دوسری انہونی یہ ہوئی کہ میں رات کو اپنا موبائل آف کردیتا تھا، امی کی وفات سے ایک ہفتہ پہلے میری چھوٹی بہن صبیحہ نے مجھے فون کرکے کہا کہ آپ موبائل آف نہ کیا کریں، پھر میں نے موبائل آف نہیں کیا، اگر اس رات میرا موبائل آف ہوتا تو رات بارہ بجے صبیحہ بن مجھے مدرسے کے فون پر اطلاع دیتیں اور رات بارہ بجے مدرسہ کے فون کو اٹینڈ کرنتے والا کوئی نہ ہوتا اور شاید پھر میرے بہنوئی امی کی تجہیز وتکفین کرتے اور مجھے یہ سعادت نہ ملتی اور امی کی یہ خواہش پہری نہ ہوتی کہ ان کی تجہیز وتکفین ان کے بیٹے کریں، وہ بار بار کہتی تھیں اور دعا کرتی تھیں کہ میرے بیٹے میری تجہیز وتکفین اور تدفین کریں۔

اس سلسلہ میں دوسری انہونی یہ ہوئی کہ میرے چھوٹے بھائی محمد خلیل، ریاض میں تھے، امی کی خواہش یہ تھی کہ ان کی تدفین میں ہم دونوں شریک ہوں، جمعہ کی شب رات بارہ بجے میرے پاس صبیحہ کا فون آیا تھا کہ امی فوت ہوگئی ہیں، اس کے دس منٹ بعد میرے بھائی محمد خلیل کا فون آیا کہ آپ تدفین مؤخر کردیں، میں ہر صورت ہفتہ کو کراچی پہنچوں گا، اگلے دن جمعہ تھا، جمعہ کو سعودی عرب میں تمام دفاتر بند ہوتے ہیں اور جب تک ان کے پاسپورٹ پر ایگزٹ ری اینٹری ویزا نہ لگ جائے وہ سعودی عرب سے نکل نہیں سکتے تھے، بھائی کا پاسپورت کمپنی کے آفس میں تھا، اس کے لیے ایک فارم بھرنا پڑتا ہے، وہ فارم بھی آفس میں تھا، آفس جمعہ کی وجہ سے بند تھا، اس فارم پر ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر کے دستخط ہونا لازمی تھے، وہ ڈائریکٹر اس وقت جرمنی میں تھا، اس کا موبائل نمبر بھائی کے پاس نہ تھا، اس کے سیکرٹری کے پاس اس کے موبائل نمبر تھا، وہ جمعہ کی چھٹی کی وجہ سے اردن روانہ ہوچکا تھا نیز اس دن ریاض سے کراچی کی کوئی فلائٹ نہیں تھی، بظاہر یہ ایسے عوارض تھے کہ بھائی کا ہفتہ کے دن کراچی پہنچنا ناممکن تھا اور ہم تدفین میں زیادہ تاخیر کرنا نہیں چاہتے تھے، لیکن اللہ اپنے نیک بندوں کی خواہش پوری کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رکاوٹ دور کردیتا ہے، بھائی کو معلوم ہوا کہ ڈائریکٹر کے سیکرٹری کی فلائٹ کسی وجہ سے ملتوی ہوگئی ہے، وہ بس سے اردن جارہا تھا، بھائی نے اس کو موبائل پر فون کیا، اس نے ڈائریکٹر کا فون نمبر لیا، پھر ڈائریکٹر سے بات کی، اس نے غیر معمولی تعاون کیا، بھائی نے متعلقہ یمنی شخص کی مدد سے آفس کھلوایا، اپنا پاسپورت نکلوایا اور وہ فارم نکلوا کر عربی میں بھروایا، ادھر ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر نے اپنے ایک دوست کے ذمہ لگایا تو وہ جمعہ کی نماز کے بعد بھائی کا پاسپورٹ لے کر پاسپورٹ آفس گیا، پاسپورٹ آفس کھلوا کر اس پر ری اینٹری ایگزٹ ویزا لگوایا اور شام چار بجے بھائی کو پاسپورٹ جس پر ایگزٹ ری اینٹری ویزا لگا ہوا تھا دے دیا، ریاض سے کراچی کی کوئی فلائٹ نہیں تھی، جدہ سے تھی، بھائی نے جدہ اپنے دوست کو فون کیا، انہوں نے بھائی کا ٹکٹ لیا، بھائی ریاض سے جدہ پہنچے اور جدہائرپورٹ پر اپنے دوست سے ٹکٹ لے کر جہاز میں سوار ہوگئے اور ہفتہ کی صبح ساڑھے چار بجے کراچی پہنچ گئے اور ساڑھے آٹھ بجے میں نے امی کی نماز جنازہ پڑھائی اور دس بجے ہم تدفین سے فارغ ہوگئے۔

امی کی تعزیت کے لیے کراچی کے جو مشاہیر اور قابل ذکر علماء میرے پاس آئے ان کے اسماء یہ ہیں : قائد ملت اسلامی سینٹر علامہ شاہ احمد نورانی، مفتی محمد حسن حقانی، شاہ فرید الحق، مفتی منیب الرحمن، مہتمم دارالعلوم نعیمیہ، مولانا غلام محمد سیالوی، مولانا غلام دستگیر افغانی، مولانا غلام ربانی، مفتی منظور احمد فیضی، مفتی ابوبکر صدیق، مفتی فیض رسول، مولانا محمد الیاس رضوی اور کراچی کے دینی مدارس کے دیگر علماء اور فضلاء، صاحب زادہ محمد حبیب الرحمن اور بریں فورڈ برطانیہ سے اور ثمینہ بہن اور مولانا عبدالمجید نے برسٹل برطانہ سے اور سید محسن اعجاز نے لاہور سے ٹیلی فون کے ذریعہ تعزیت کی، مولانا الیاس قادری بانی دعوت اسلامی نے دبئی سے مکتوب بھیجا، مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیم، مولانا محب اللہ نوری نے بصیر پور سے، مولانا غلام نصیر الدین نے لاہور سے، مولانا محمد حفیظ نیازی ایڈیٹر ماہنامہ رضاء مصطفیٰ نے گوجرانوالہ سے، مولانا محمد عارف چشتی نے لندن سے اور دیگر احباب نے تعزیتی کاتب لکھے، میں ان سب علماء اور احباب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری غم گساری کی، میں اپنے قارئین سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایک بار سورة فاتحہ اور تین بار سورة اخلاص پڑھ کر میری امی کو ثواب پہنچائیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کریں۔

اور آخر میں مولانا محمد نصیر اللہ نقشبندی، محترم محمد شمیم خان اور مولانا محمد اعظم نورانی صاحب کے لیے دعا کرتا ہوں جو آدھی رات کو اٹھ کر نماز فجر تک امی کی تجہیز وتکفین کے سلسل ہمیں میرے ساتھ رہے اور سید معراج بھائی کے لیے دعا کرتا ہوں جنہوں نے تدفین کے مراحب میں میری مدد کی اور خصوصاً شفیق بھائی کے لیے دعا گو ہوں جنہوں نے قدم قدم پر میری غم گساری کی۔ قاری عامر حسین، سید محمد علی، مولانا عبدالمجید ہزاروی، مولانا وکیل حسین، حافظ اکرام اللہ، حافظ محمد اویس، حافظ محمد جمشید، حافظ محمد فاروق، بابر نفیس، سید امجد اور سید عمیر کے لیے دعا گو ہوں جنہوں نے اس سلسلہ میں بہت تعاون کیا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 75