أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَسِيۡقَ الَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّهُمۡ اِلَى الۡجَـنَّةِ زُمَرًا‌ؕ حَتّٰٓى اِذَا جَآءُوۡهَا وَفُتِحَتۡ اَبۡوَابُهَا وَقَالَ لَهُمۡ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡهَا خٰلِدِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ در گروہ جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا حتیٰ کہ جب وہ جنت پر پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو جنت کے محافظ ان سے کہیں گے : تم پر سلام ہو، تم پاک اور صاف ہو، تم اس جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجائو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ در گروہ وہ جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا، حتیٰ کہ جب وہ جنت پر پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو جنت کا محافظ ان سے کہیں گے : تم پر سلام ہو، تم پاک اور صاف ہو، تم اس جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجائو اور وہ کہیں گے : تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہم سے کیا ہوا وعدہ سچا کردیا اور ہم کو اس زمین کا وارث بنادیا، ہم جہاں چاہیں جنت میں رہتے ہیں، پس (نیک) عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے (الزمر : 73-74)

قیامت کے دن مؤمنوں کے ثواب کی کیفیت

الزمر : ٧٣ میں فرمایا ہے : ” اور متقین کو گروہ در گروہ جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا “ یعنی شہداء، علماء، عاملین اور عابدین اور زاہدین اور ہر وہ مومن جو اللہ سے ڈرتا ہو اور اس کے احکام پر عمل کرتا ہو اور جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان سے باز رہتا ہے۔ کافرون کو ذلت اور رسوائی کے ساتھ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور متقین کو عزت و کرامت کے ساتھ سواریوں پر سوار کرا کے جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا۔

کافروں کے متعلق فرمایا : جب وہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو ” فتحت ابوابھا “ جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور مؤمنوں کے متعلق فرمایا : جب وہ جنت کے پاس پہنچیں گے تو ” وفتحت ابوابھا “ اور جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے، کافروں کے لیے جو آیت ذکر کی ہے اس سے پہلے وائو کا ذکر نہیں ہے اور مؤمنوں کے لیے جو آیت ذکر کی ہے اس سے پہلے وائو کا ذکر ہے، علامہ ابو عبداللہ قرطبی اس کی توجیہ میں لکھتے ہیں :

کوفیوں نے کہا : مؤمنوں کی آیت میں جو وائو مذکور ہے یہ زائد ہے اور بصریوں نے کہا : یہ کہنا خطاء ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ وائو کو اس لیے ذکر کیا ہے کہ مؤمنوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تاکہ مؤمنوں کی عزت اور کرامت ظاہر ہو اور اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے :

جنت عدن مفتحۃ لھم الابواب (ص :50) دائمی جنتیں جن کے دروازے متقین کے لیے کھلے ہوئے ہوں گے

اور کافروں کے حصہ میں وائو کو حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ وہ دوزخ کے باہر کھڑے ہوں گے اور ان کے پہنچنے کے بعد دوزخ کے دروازے کھولے جائیں گے تاکہ ان کی ذلت اور رسوائی ظاہر کی جائے۔

النحاس نے کہا کہ کافروں کے قصہ میں وائو کو حذف کرنا اور مؤمنوں کے قصہ میں وائو کو ذکر کرنا، اس لیے ہے کہ کافروں کے آنے سے پہلے دوزخ کے دروازے بند تھے اور مؤمنوں کے آنے سے پہلے جنت کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔

بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور عرب جب سات چیزوں کے بعید کسی آٹھویں چیز کا ذکر کریں تو اس کے ساتھ وائو کا ذکر کرتے ہیں اور جب صرف سات چیزوں کا ذکر ہو تو اس کے ساتھ وائو کا ذکر نہیں کرے، اس کی مثال قرآن مجید میں بھی ہے :

التائبون العبدون الحمدون السائحون الرکعون السجدون الامرون بالمعروف۔ (التوبہ :211) یہ سات اوصاف ہں، ان کی درمیان وائو نہیں لیکن اس کے بعد جب آٹھواں وصف ذکر کیا تو اس کے بعد وائو ہے : ” والناھون عن المنکر “

اس کی دوسری مثال یہ ہے :” مسلمت مومنت قنتت تئبت عبدت سئحت ثیبت “ یہاں تک سات اوصاف بغیر وائو کے ذکر فرمائے اور جب آٹھواں وصف آیا تو اس کو وائو کے ساتھ ذکر فرمایا : ” وابکارا “ (التحریم : 5)

اور اس کی تیسری مثال یہ ہے :

” وسیق الذین کفرو الی جھنم زمر حتی اذ جاء و ھا فتحت ابوابھا “ یہاں ” فتحت “ سے پہلے وائو کا ذکر نہیں کیا کیونکہ جہنم کے سات دروازے ہیں، پھر فرمایا : ” وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زمر حتی اذا جائوھا وفتحت ابوابھا “ یہاں ” فتحت “ سے پہلے وائو کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور سات عدد ذکر کرنے کے اور وائو کا ذکر کیا جاتا ہے۔ (الزمر : 71-73)

لیکن اس پر قفال اور قشیری وغیرہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ کہاں سے معلوم ہوگیا ہے کہ سات کا عدد ان کے نزدیک عدد کی انتہا ہے۔ نیز قرآن مجید میں ہے :

” ھواللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلم المومن المھیمن العزز الجبار المتکبر “ (الحشر :23) آیت میں ” المتکبر “ آٹھواں لفظ ہے اور اس کو وائو کے ساتھ ذکر ہیں کیا گیا۔ (تفسیر کبیر ج ٧ ص ٤٤٩، الجامع لا حکام قرآن جز ١٠ ص ٣٤٣ )

سورة حشر کی آیت کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے قواعد اکثری ہوتے ہیں، کلی نہیں ہوتے۔ جہنم کے سات دروازوں کا ذکر اس آیت میں ہے : ” لھا سبعۃ ابواب “ دوزخ کے سات دروازے ہیں۔ (الحجر :44)

اور جنت کے آٹھ دروازوں کا ذکر اس حدیث میں ہے :

حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے جو شخص بھی مکمل وضو کرنے کے بعد پڑھے : ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ “ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٤، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٧٠۔ ١٦٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٤٨، جامع المسانید والسنن مسند عمر بن الخطاب رقم الحدیث : ٤٧٩)

پھر فرمایا : ” جنت کے محافظ ان سے کہیں گے : تم پر سلام ہو، تم پاک اور صاف ہو، تم اس جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجائو “ جنت کے محافظ ان کو سلام کہیں گے، اس میں ان کے لیے ہر قسم کی آفات سے سلامتی کی بشارت ہے، اس کا معنی ہے : تم خطائوں کی کدورت سے اور گناہوں کی خباثت سے پاک اور صاف ہو، تم اس جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجائو، یعنی جنت میں گناہوں سے پاک لوگ ہی داخل ہوں گے اور اگر مؤمنوں کے گناہ ہوں گے تو اللہ تعالٰ مؤمنوں کو دخول جنت سے پہلے گناہوں سے پاک کردے گا، مؤمنوں کی توبہ سے، نبیوں کی خصوصاً سید الانبیاء کی شفاعت سے اور اپنے فضل محض سے یا کچھ سزا دے کر۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 73