وہ مان گئے تو وصل کا ہو گا مزہ نصیب

شہنشاہ سخن استاذ زمن علامہ حسن رضا بریلوی 

❤️❤️❤️

وہ مان گئے تو وصل کا ہو گا مزہ نصیب

دل کی گرہ کے ساتھ کھلے گا مرا نصیب

❤️❤️❤️

کھائیں گے رحم آپ اگر دل بگڑ گیا

ہو جائے گا ملاپ اگر لڑ گیا نصیب

❤️❤️❤️

خنجر گلے پہ سر تہِ زانوے دل رُبا

اے مجرمانِ عشق تمہارے خوشا نصیب

❤️❤️❤️

پچھلے کو لطفِ وصل سے فرقت ہوئی ہمیں

سویا سحر کو رات کا جاگا ہوا نصیب

❤️❤️❤️

شب بھر جمالِ یار ہو آنکھوں کے رُوبرو

جاگیں نصیب جس کو ہو یہ رَت جگا نصیب

❤️❤️❤️

اے دل وہ حال سن کے ہوئے برہم اور بھی

اب کوئی کیا کرے تری قسمت ترا نصیب

❤️❤️❤️

قسمت کے چین سے بھی اذیت ہے ہجر میں

تڑپا میں ساری رات جو سویا مرا نصیب

❤️❤️❤️

بے درد دل عدو کی گلی اور یہ ذلتیں

اس درد کی تجھے نہ کبھی ہو دوا نصیب

❤️❤️❤️

پہرا دیا ہے دولتِ بیدارِ حسن کا

سوئے جو وہ بغل میں تو جاگا مرا نصیب

❤️❤️❤️

پہنچا کے میری خاک درِ یار تک صبا

رُخصت ہوئی یہ کہہ کر اب آگے ترا نصیب

❤️❤️❤️

محرومِ دید جلوہ گہِ یار سے چلے

اس سے زیادہ اور دکھائے گا کیا نصیب

❤️❤️❤️

اے دل وہ تجھ سے کہتے ہیں میری بَلا ملے

ایسے ترے نصیب کہاں اے بَلا نصیب

❤️❤️❤️

دشمن کی آنکھ اور ترا روے پُر ضیا

اس تیرہ بخت کا یہ چمکتا ہوا نصیب

❤️❤️❤️

دل کا قرار ہے تو اُنھیں پہلوؤں میں ہے

اے کاش ہو نصیب مرا غیر کا نصیب

❤️❤️❤️

میناے مے نے سر کو جھکا کر کیا سلام

تم بھی دعا دو حضرتِ زاہد بڑا نصیب

❤️❤️❤️

اُس خاکِ دَر کا کنگرۂ عرش پر دماغ

اُس رَہ گزر کے ذرّوں کا چمکا ہوا نصیب

❤️❤️❤️

اے دل عدُو کا سینہ ہے اور دستِ یار ہے

تیرے ہی آبلوں کا ہے پھوٹا ہوا نصیب

❤️❤️❤️

جب دردِ دل بڑھا تو اُنھیں رحم آ گیا

پیدا ہوئی چمک تو چمکنے لگا نصیب

❤️❤️❤️

پہنچے ہم اُن کے پاس نہ فریاد کان تک

کس کس کرم کا شکر کریں نا رَسا نصیب

❤️❤️❤️

وہ شہ نشیں میں رہ کے کھنڈر کیا کریں پسند

ٹوٹے ہوئے دلوں کا ہے پھوٹا ہوا نصیب

❤️❤️❤️

پہنچا دیا ہے تجھ کو لبِ گور ہجر میں

اے دل ہو دشمنوں کا ترے نارسا نصیب

❤️❤️❤️

تشریف لائے ہیں وہ مجھے سن کے جاں بلب

کس وقت دردِ دل کی ہوئی ہے دوا نصیب

❤️❤️❤️

دشمن کو لطفِ وصل، حسنؔ کو غمِ فراق

ہر شخص کا جدا ہے مقدر، جدا نصیب

❤️❤️❤️