جبری شادی اور تصورِ اسلام

دوسری قسط

اس تحریر کو پڑھنے سے پہلے تین باتیں ذہن میں رکھیے

(1)ایک ہے اسلام

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے؛ جو انسانیت کی نمائندگی کرتا ہے..

(2)دوسرا ہے کلچر

کلچر کسی ملک کا نہیں ہوا کرتا بلکہ علاقائی نمائندگی کرتا ہے؛ کلچر کسی کامل نظام کا نام نہیں…

(3)اور تیسرا انفرادی تربیت

انفرادی تربیت میں علم بھی ہوتا ہے جہالت بھی؛ انسانیت بھی ہوتی ہے اور حیوانیت بھی؛

اخلاق بھی ہوتا ہے اور بداخلاقی بھی….

جہاں آپ کو بد اخلاقی اور حیوانیت نظر آئے تو اسلام پر نہیں بلکہ اس کی تربیت پر انگلی اٹھائیں…

اب آتے ہیں مضمون کی طرف

اسلام میں جبری شادی کا تصور؟

(1)اول

مرد و عورت کو یہ حق دیا گیا کہ نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ لیں…

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.

ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں.. النساء، 4: 3

اس کی تفسیر میں مفسرین کرام نے فرمایا کیا یہ مرد کے لئے بھی ہے عورت کے لئے بھی….

(2) دوم

پھر اگر لڑکا لڑکی نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا تو

خصوصی طور پر عورت کو ایک حق دیا گیا کہ لڑکی اپنے لیے مہر کا مطالبہ کرے ؛ شرعی طور پر اس کا تعین عورت کے مطالبے پر ہے…

اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا

فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةًؕ

( پ ۵ ،النسآء: ۲۴)

جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہو، ان کے مہر مقرر شدہ اُنھیں دو….

اور یہ بھی حکم دیا کہ مجبوری میں نہیں بلکہ خوشی سے دو

وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-

عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو…

(3) سوم

پھر مرد و عورت کو ایک حکم دیا گیا کہ کفو(برابری) دیکھو…

یہ برابری علم میں رتبہ میں برادری اور قوم میں بھی ہو سکتی ہے….

کفو میں شادی کرنے والا بہت سے طعن و تشنیع سے بچ جاتا یا بچ جاتی ہے….

(4)چہارم

خاندانی نظام کی بقا کے لیے ولی(سربراہ) کی اجازت کو بھی اہمیت دی تاکہ بزرگوں کے تجربے سے کسی شخص کو پہچاننے میں مشکل نہ ہو…

نا تجربہ کار لڑکی کہیں غلط فیصلہ نہ کر بیٹھے

لیکن یہ بات یاد رہے فقہ حنفی میں ولی کی اجازت کے بغیر بالغ لڑکی کا نکاح ہو جاتا ہے…

ہر عاقل بالغ لڑکے، لڑکی کو جس طرح اپنے مال میں تصرف کا حق ہے اسی طرح اپنی ذات کے فیصلوں کا بھی ہے….

(5)پنجم

اور بوقت نکاح کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکی نے اقرار نہیں کیا تو نکاح نہیں ہوا..

صحیح بخاری

‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَيْفَ إِذْنُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تَسْكُتَ.

ترجمہ:

ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے مشورہ نہ لیا جائے؛ اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی( مطلب یہ کہ وہ تو شرماتی ہے) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی…

اس حدیث مبارکہ کو پڑھنے کے بعد تھوڑا سا غور کیجئے اگر لڑکی سرے سے انکار کر رہی ہے تو ہم کس طرح اس کا زبردستی نکاح کر سکتے ہیں…

اس کے لیے ضروری ہے کہ شروع سے بچوں کی تربیت کا ماحول پیدا کیجیے….

(6)ششم

بالفرض اگر نابالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح کر دیا گیا نکاح تو ہو جائے گا مگر لڑکی کے پاس یہ اختیار رہے گا کہ وہ بالغ ہوتے ہی چاہے تو نکاح فسخ (منسوخ ) کر دے…

(7) ہفتم

بالغ مرد و عورت کا نکاح کردیا گیا؛ اور بعد معلوم ہوا کہ مرد میں کچھ ایسی خامیاں ہیں کہ عورت کو کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہیں تو وہ خلع کا حق رکھتی ہے…

حدیث مبارکہ

خَنْسَائَ بِنْتِ خِذَامٍ الْأَنْصَارِيَّةِ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهْيَ ثَيِّبٌ فَکَرِهَتْ ذَلِکَ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِکَاحَها

خنساء بنت خذام انصاریہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح کردیا اور میں ثیبہ تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے میرا نکاح فسخ کردیا۔ صحیح بخاری:جلد سوم

ایک اور روایت

مسند احمد بن حنبل

جَاءَتْ فَتَاةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ يَرْفَعُ بِي خَسِيسَتَهُ فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا قَالَتْ فَإِنِّي قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ لِلْآبَاءِ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ

ترجمہ:

حضرت عائشہ ؓ سے سے مروی ہے کہ ایک نوجوان عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میرے باپ نے میرا نکاح اپنے بھتیجے کے ساتھ کردیا ہے، وہ میرے ساتھ گھٹیا باتیں کرتا ہے، نبی ﷺ نے اسے اپنے معاملے کا اختیار دے دیا، سو کہنے لگی کہ میرے باپ نے جو نکاح کردیا ہے، میں اسی کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ آپ عورتوں کو بتادیں کہ باپ کو اس معاملے میں جبر کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

آخری بات

ان تمام اختیارات کو استعمال کیا جاسکتا ہے جو اوپر بیان ہوئے؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دوسرے پہلو کا بھی خیال کرنا چاہیے۔ والدین کے جائز جذبات و خواہشات کا لحاظ و پاس رکھنا بھی ممکنہ حد تک لازم ہے..

یہ بات بڑی شقاوت و سنگدلی اور بدبختی ہے؛ وہ والدین جن کی محنت و محبت سے انسان پلتا بڑھتا اور ترقی کرتا ہے بیاہ شادی کے معاملہ میں ان کی رضامندی و مشورے کو اہمیت ہی نہ دی جائے اور ان کو اس موقع پر ناراض کر دیا جائے۔ اس لیے ان کے حقوق و جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا اور ان سے رہنمائی لینا خوش بختی ہے….

تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی