سستا نکاح : مہنگی رسومات

قسط نمبر 3

نکاح کے حوالے سے تحریروں میں رسومات کی مشکلات اور اسلام کی آسانیوں کو بیان کرنا مقصود ہے…

جب بھی آپ شادی بیاہ پر غور و فکر یا تبصرہ کر رہے ہوں تو اسلام اور رسومات کو علیحدہ علیحدہ نظر سے دیکھیے……

پھر جو قابل اعتراض ہو اس کی چھوڑ دیجیے باقی کو قبول کیجئے….

نکاح کے لوازمات کیا ہیں؟

(١) دولہا دولہن کا ایک مجلس میں موجود ہونا..

(٢) اگر دولہا یا دلہن میں سے کوئی اُس مجلس میں موجود نہ ہو تو اُنکا مقرر کیا ہوا وکیل موجود ہو…

(٣) اُس نکاح کیلئے کم از کم 2 شرعی گواہ اُسی مجلس میں موجود ہوں…

(٤) نکاح سے قبل عورت کی رضامندی سے حق مہر کا تعین ( جس کی کوئی معین مقدار نہیں ہر شخص کی مالی حیثیت کے مطابق رقم ہو سکتی ہے)

(٥) نکاح کا خطبہ پڑھنا سنت ہے؛ اگر کوئی عالمِ دین موجود نہ ہو تو کوئی بھی پڑھا لکھا آدمی خطبہ پڑھ لے..

(٦) دولہا دلہن کو ایجاب وقبول کروائیں؛ تو شادی مکمل ہو گئی..

(٧) دوسرے دن بغیر اپنے آپ کو کسی مشقت میں ڈالے چھوٹا سا ولیمہ

لیجئے

اسلام نے ایک مرد و عورت کو پاکیزہ رشتے میں باندھ دیا..

اس کے علاوہ باقی تمام چیزیں رسومات ہیں

اس سے پہلے کہ میں رسومات پر بات کرو ایک چھوٹی سی مثال عرض کر دوں …

آپ نے دیکھا ہو گا بعض اوقات ایک مرد یا عورت کو دوسرا نکاح کرنا پڑ جاتا ہے کسی بھی وجہ سے اور

وہ عمومی طور پر مکمل اسلامی نکاح ہوتا ہے..

(1) نہ دعوتی کارڈ

(2) نہ بینڈ باجا

(3) نہ تین چار سو باراتی

(4) اور ولیمہ بھی آٹھ دس لوگوں کا کھانا کسی ریسٹورنٹ میں

(5) اور نہ لڑکی کی طرف سے جہیز کے لدھے ہوئے ٹرک…..

اگر دوسرا نکاح اسلامی ہو سکتا ہے تو پہلے میں بھی آسانی پیدا کیجئے تاکہ غریبوں کی جوان بیٹیاں گھروں میں نہ بیٹھی رہیں….

رسومات کا جنم کیسے ہوتا ہے؟

بہت سی چیزیں کبھی ضروریات ہوا کرتی تھی لیکن وقت و حالات نے ان کو رسومات بنا دیا.

مثلا تیل و مہندی رسومات نہیں تھی ضروریات تھی، میری نظر میں یہ حقیقی این جی اوز تھیں .

تیل مہندی وا لے دن لوگ بیٹی والے یا بیٹے والے کے گھر میں ضرورت کی چیزیں لے کر جاتے تھے مثلا سوٹ، چاول، چینی، نقدی، وغیرہ اس لیے کہ جب لڑکی والوں کے گھر بارات آئے تو گھر میں ضرورت کی تمام چیزیں غریب سے غریب تر شخص کے گھر میں بھی موجود ہوں.

پھر بارات والے دن لوگ لڑکے کو،، نقدی تحائف ،، دیتے تاکہ جب لڑکی والوں کے گھر جائے تو تمام تر اخراجات غریب شخص کے پاس بھی کچھ رقم موجود ہو.

ولیمے والے دن بھی،، سلامیاں اور تحائف،، دیئے جاتے تاکہ اس دن بھی کسی طرح کی مشکل نہ آئے.

یہ تھی ہماری این جی اوز جن کو آج بگاڑ کر انتہائی بُری اور سخت رسومات بنا دیا گیا.

جہیز جو کہ حسب توفیق ماں باپ کی طرف سے تحائف کا نام تھا آج اس کو ایک لعنت کی حد تک بڑھا دیا گیا.

پھر جہیز کی آڑ میں جو مال و دولت والے سرمایہ دار ہیں انہوں نے بیٹیوں کا حق چھینا چند ہزار یا لاکھ کا جہیز دے کر کروڑوں کی جائیدادوں سے بیٹیوں محروم کردیا.

اور بیٹیوں پر دباؤ ڈالا کہ بھائیوں کے تعلق کو بچانا ہے تو اپنے حقِ وراثت کا مطالبہ نہ کرنا، یہ بدترین لعنت مسلمانوں میں جہیز کی آڑ میں پیدا ہوگئی.

میں حیرت زدہ ہوں کہ ماں باپ بیٹوں کو کیوں نہیں کہتے کہ بہنوں کا تعلق بچانا ہے تو ان کو حق وراثت دے دینا.

تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی اٹلی