أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَّذِيۡنَ يَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَمَنۡ حَوۡلَهٗ يُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيُؤۡمِنُوۡنَ بِهٖ وَيَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا‌ ۚ رَبَّنَا وَسِعۡتَ كُلَّ شَىۡءٍ رَّحۡمَةً وَّعِلۡمًا فَاغۡفِرۡ لِلَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاتَّبَعُوۡا سَبِيۡلَكَ وَقِهِمۡ عَذَابَ الۡجَحِيۡمِ ۞

ترجمہ:

وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں وہ سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس پر امان رکھتے ہیں اور مؤمنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے سو تو ان لوگوں کی مغفرت فرما جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستہ کی اتباع کی ہے اور تو ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو ان کے گرد ہیں وہ سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مؤمنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر محیط ہے، سو تو ان لوگوں کی مغفرت فرما جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستہ کی اتباع کی ہے اور تو ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے اے ہمارے رب ! تو ان کو دائمی جنتوں میں داخل فرمادے جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے بھی جو مغفرت کے لائق ہوں، بیشک تو بہت غالب اور بےحد حکمت والا ہے اور تو ان کو گناہوں سے بچا اور اس دن تو جس کو گناہوں کے عذاب سے بچا لے گا تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایا اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے (المومن : 7-9)

ربط آیات

اس سے پہلی آیتوں میں یہ بتایا تھا کہ کفار اور مشرکین مؤمنوں سے بہت زیادہ عداوت اور دشمنی رکھتے ہیں اور ان کی بدخواہی میں لگے رہتے ہیں اور ان آیتوں میں یہ بتایا کہ ملائکہ مقربین اور حاملین عرش جو بہت افضل مخلوق ہیں، وہ مومنوں سے بہت الفت اور محبت رکھتے اور ان کی خیرخواہی میں مشغول رہتے ہیں گویا کہ یہ بتایا کہ اگر یہ مشرکین آپ کے متبعین کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں تو آپ پرواہ نہ کریں کیونکہ افضل اور اعلیٰ مخلوق آپ کے پیروکاروں کو فائد پہنچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

حاملین عرش کی صورت اور ان کی تعداد

علامہ ابوالقاسم محمود بن عمرالزمخشری الخوارزمی المتوفی ٥٣٨ ھ لکھتے ہیں :

روایت ہے کہ حاملین عرش کے پیر سب سے نچلی زمین میں ہیں اور ان کے سر عرش سے اوپر نکلے ہوئے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر سے نظریں اوپر نہیں اٹھا رہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ تم اپنے رب کی عظمت میں تفکر نہ کرو، لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ملائکہ میں تفکر کرو۔ کیونکہ ملائکہ میں سے ایک مخلوق ہے جس کو اسرافیل کہا جاتا ہے، عرش کے کے کونوں میں سے ایک کونا اس کی گدی پر ہے اور اس کے دونوں قدم سب سے نچلی زمین پر ہیں اور اس کا سر سات آسمانوں سے باہر نکلا ہوا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے بہت حقیر اور چھوٹا ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ چڑیا کے برابر ہوجاتا ہے اور حدیث میں ہے :

اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ حاملین عرش کو سلام کیا کریں اور ایک قول یہ ہے کہ عرش کے گرد ستر ہزار فرشتوں کی صفیں ہیں، انہوں نے اپنے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور وہ بہ آواز بلند لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے اور ستر ہزار فرشتے صف باندھے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک ایسی تسبیح کررہا ہے جو دوسرا نہیں کررہا۔ (انکشاف ج ٤ ص ١٥٦۔ ١٥٥، تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٨٧، الجامع لا حکام القرآن جز ١٥ ص ٢٦٣، کتاب العظمۃ ص ١٧٠، الکشف والبیان لثعلبی ج ٨ ص ٢٦٦ )

اس حدیث کی سند بہت ضعیف ہے، اس کا ایک راوی یحییٰ بن سعید الحمصی ہے، وہ متروک اور مہتم ہے اور اس کا ایک راوی احوص بن حکیم ہے، وہ بھی متروک ہے۔ احادیث مرفوعہ میں اس متن کی کوئی اصل نہیں ہے۔

علامہ شمس الدین محمد بن عبدالرحمن سخاوی متوفی ٩٠٢ ھ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :

اس نوح کی متعدد احادیث ہیں اور سب کی اسانید ضعیف ہیں۔ (المقاصد الحسنۃ ص ١٧٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٠٧ ھ)

علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی متوفی ١١٦٢ ھ نے بھی یہی لکھا ہے۔ (کشف الخفاء ومزیل الالباس ج ١ ص ٣١١، مکتبۃ الغزالی، دمشق)

قرآن مجید اور حدیث صحیح میں یہ تصریح ہے کہ حاملین عرش کی تعداد آٹھ ہے، قرآن مجید میں ہے :

والملک علی ارجا ئھا ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذ شمنیۃ (الحاقہ : 17)

آسمانوں کے کناروں پر فرشتے ہوں گے اور آپ کے رب کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے

اور حدیث میں ہے :

حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں بطحاء میں تھا، وہاں ایک جماعت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود تھے، ناگاہ ایک بادل گزرا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دیکھ کر پوچھا، تم اس کو کیا کہتے ہو ؟ مسلمانوں نے کہا : سحاب، آپ نے فرمایا : اور مزن بھی کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں : مزن بھی کہتے ہیں۔ فرمایا : اور عنان بھی کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! ہم عنان بھی کہتے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین میں کتنا فاصلہ ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم نہیں جانتے، آپ نے فرمایا : ان کے درمیان اکہتر، بہتر یا تہتر سال کا فاصلہ ہے۔ پھر اس آسمان کے اوپر جو دوسرا آسمان ہے، ان کے درمیان بھی اتنا ہی فاصلہ ہے، حتیٰ کے آپ نے سات آسمان گنوائے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے، اس کی اوپری سطح اور اس کی گہرائی کے درمیان بھی اتنا ہی فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر اٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت میں ہیں (حاملین عرش) جن کے گھروں سے ان کے گھٹنوں تک کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے اور ان کی پیٹھوں کے اوپر عرش ہے، اس کے اوپر کی سطح اور نچلی سطح کے درمیان بھی اتنا فاصلہ ہے جتنا ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ ہے، پھر عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٢٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٢٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٣، صحیح ابن خزیمہ ج ١ ص ١٠٢۔ ١٠١، المستدرک ج ٢ ص ٥٠١، السنۃ لا بن ابی عاصم رقم الحدیث : ٥٧٧)

قرآن مجید اور حدیث صحیح میں حاملین عرش کی جو تعداد بیان کی گئی ہے وہ زمخشری اور ثعلبی وغیرہ کی بیان کردہ تعداد پر راجح ہے۔

اس کے بعد فرمایا : ” وہ فرشتے مومنوں کے لیے استغفار کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے، سو تو ان لوگوں کی مغفرت فرما جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستہ کی اتباع کی ہے اور تو ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے “ (المومن : 7)

امام رازی کی طرف سے نبیوں کے اوپر فرشتوں کی فضیلت کی ایک دلیل

امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

بکثرت علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ فرشتے بشر سے افضل ہوتے ہیں، کیونکہ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ فرشتے جب اللہ کے ذکر اور اس کی حمدوثناء سے فارغ ہوتے ہیں تو پھر وہ مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وہ خود اپنے لیے مغفرت طلب کرنے سے مستغنی ہوتے ہیں، کیونکہ اگر ان کو اپنے لیے بھی مغفرت طلب کرنے کی ضرورت ہوتی تو وہ سب سے پہلے اپنے لیے مغفرت طلب کرتے جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے اپنے لیے مغفرت طلب کی، پھر اپنے والدین کے لیے اور سب مومنوں کے لیے، قرآن میں ہے :

ربنااغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب (ابراہیم :41) اے ہمارے رب ! میری مغفرت کر اور میرے والدین کی اور تمام مومنوں کی جس دن حساب لیا جائے

پس فرشتے اگر مغفرت طلب کرنے کے محتاج ہوتے تو سب سے پہلے اپنے لیے استغفار کرتے اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے لیے مغفرت طلب کی تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ فرشتے اپنے لیے مغفرت طلب کرنے کے محتاج نہیں ہے اور انبیاء (علیہم السلام) مغفرت طلب کرنے کے محتاج ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا :

واستغفر لذنبک۔ (محمد :19) اور آپ اپنے بظاہر خلاف اولیٰ کاموں کے لیے مغفرت طلب کیجئے

اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ فرشتے اپنے لیے مغفرت طلب کرنے سے مستغنی ہیں تو فرشتوں کا بشر سے افضل ہونا ثابت ہوگیا۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٨٩، ملخصا، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی کی دلیل کا مصنف کی طرف سے جواب

امام رازی نے اکثر علماء کے حوالے سے جس نظریہ کا ذکر کیا ہے، یہ معتزلہ کا نظریہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ فرشتے مطلقاً بشر سے افضل ہیں حتیٰ کہ نبیوں اور رسولوں سے بھی افضل ہیں، اس کے برعکس اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) تمام فرشتوں سے افضل ہیں، حتیٰ کہ رسل ملائکہ یعنی جبریل، اسرافیل، عزرائیل اور میکائیل (علیہم السلام) سے بھی افضل ہیں، امام رازی نے نبیوں فرشتوں کی افضیلت کی یہ دلیل قائم کی ہے کہ فرشتوں نے اپنے لیے استغفار نہیں کیا اور انبیاء علیہم لاسلام کو اپنے لیے میرے نزدیک امام رازی کی یہ دلیل کئی وجہ سے مخدوش ہے۔

(١) تمام انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں، ان سے کسی گناہ کا صدور نہیں ہوا، صغیرہ گناہ کا نہ کبیرہ گناہ کا، سہواً نہ عمداً ، صورتاً نہ حقیقتاً قبل از نبوت نہ بعد از نبوت، رہا انبیاء (علیہم السلام) کو مغفرت طلب کرنے کا حکم دینا اور ان کا اپنے لیے مفغرت طلب کرنا، سو یہ امر تعبدی ہے، اس میں عقل اور قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے، جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کعبہ کی تعظیم کرنا اور کعبہ کا طواف کرنا، حالانکہ آپ کعبہ سے افضل ہیں اور جیسے موزوں کے اوپر کے حصہ کا مسح کرنا، حالانکہ گندگی لگنے کا احتمال تو موزوں کے نچلے حصہ پر ہے اور جیسے پانی نہ ہونے کی صورت میں تمیم کرنا، حالانکہ چہرے اور ہاتھوں پر خاک اور مٹی ملنا صفائی کی ضد ہے لیکن یہ تمام احکام تعبدی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے سو ہم یہ کام کریں گے خواہ ان کی کوئی وجہ اور حکمت ہماری عقل میں نہ آئے، ہماری بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کے ہر حکم کے سامنے سرجھکادیں۔

(٢) انبیاء (علیہم السلام) کو استغفار کرنے کا حکم دیا اور باوجود معصوم ہونے کے انہوں نے استغفار کیا، سو اس حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے ان کو اجر وثواب ملے گا اور ان کے درجات بلند ہوں گے اور معصومین کا استغفار کرنا ان کے درجات میں بلندی اور اضافہ کے لیے ہی ہوتا ہے۔

(٣) فرشتوں نے اپنے لیے استغفار نہیں کیا، مؤمنوں کے لیے استغفار کیا۔ اپنے لیے فرشتوں کے استغفار کرنے کی یہ وجہ نہیں ہے کہ ان کو اپنے لیے استغفار کرنے کی احتیاج نہیں ہے اور وہ اپنے لیے استغفار کرنے سے مستغنی ہیں جیسا کہ امام رازی نے ذکر فرمایا ہے۔ بلکہ انہوں نے اپنے لیے اس وجہ سے مغفرت طلب نہیں کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے لیے مغفرت طلب کرنے کا حکم نہیں دیا تھا مؤمنوں کے لیے اس وجہ سے مغفرت طلب کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مؤمنوں کے لیے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا تھا، فرشتے کوئی کام اپنی طرف سے اور اپنے اختیار سے نہیں کرتے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہیں، کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کا اختیار اللہ تعالیٰ نے صرف جنات اور انسانوں کو دیا ہے، اسی لیے ان کو جزاء اور سزا ملے گی، فرشتے اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے، یہ وہی کرتے ہیں، جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

یخافون ربھم من فوقھم ویعفلون مایومرون (النحل :50) فرشتے اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے علیھا ملئکۃ غلاظ شداد لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون مایومرون (التحریم :6)

دوزخ کے اوپر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، اللہ انہیں جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو یہ حکم دیتا کہ تم اپنے لیے مغفرت طلب کرو تو وہ ضرور اپنے لیے مغفرت طلب کرتے، لہٰذا فرشتوں کا اپنے لیے مغفرت طلب نہ کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مغفرت طلب کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور انبیاء (علیہم السلام) کا اپنے لیے مغفرت طلب کرنا اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا تھا، سو انبیاء کا اپنے لیے استغفار کرنے اور فرشتوں کا اپنے لیے استغفار نہ کرنے سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ انبیاء اپنی مغفرت طلب کرنے کے محتاج ہیں اور فرشتے اپنی مغفرت طلب کرنے سے مستغنی ہیں لہٰذا فرشتے انبیاء سے افضل ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ امام رازی کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ ان کا یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء فرشتوں سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ امام رازی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس نظریہ کو دلائل سے رد کردیتے لیکن شاید ان کی اس طرف توجہ نہیں ہوسکی کیونکہ قسام ازل نے یہ سعادت صرف میرے لیے لکھ دی تھی۔ فالحمدللہ رب العٰلمین

آیا فرشتوں کی شفاعت سے صرف ثواب میں اضافہ ہوتا ہے یا بغیر توبہ کے گناہ بھی ………… معاف ہوتے ہیں ؟

معتزلہ کا عقیدہ یہ ہے کہ فرشتوں کی شفاعت سے مؤمنوں کے ثواب میں تو اضافہ ہوگا لیکن بغیر توبہ کے فرشتوں کی شفاعت سے ان کے گناہ کبیرہ معاف نہیں ہوں گے، فرشتوں نے کہا : ” سو تو ان لوگوں کی مغفرت فرما جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستہ کی اتباع کی ہے “ اور جن مسلمانوں نے گناہ کبیرہ کیا اور اس پر توبہ نہیں کی وہ ان کی اس شفاعت میں داخل نہیں ہیں۔

ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حاملین عرش مؤمنوں کے لیے استغفار کرتے ہیں اور جو مومن گناہ کبیرہ پر توبہ کیے بغیر مرگیا وہ مؤمنین کے عموم میں داخل ہے، اور فرشتوں کی شفاعت اس کو شامل ہے اور اس آیت میں جو فرمایا ہے : ” تو ان لوگوں کی مغفرت فرما جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستہ کی اتباع کی ہے “ اس سے مراد ہے جنہوں نے کفر سے توبہ کی ہے اور اسلام کے راستہ کی اتباع کی ہے اور یہ معنی ان مؤمنوں کو بھی شامل ہے جو بغیر توبہ کے مرگئے اور اس توبہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ انہوں نے گناہ کبیرہ سے توبہ کی ہو کیونکہ گناہ کبیرہ سے توبہ کے بعد تو معتزلہ کے نزدیک اس کی مغفرت واجب ہے، اس کے لیے شفاعت کی حاجت نہیں ہے، نیز معتزلہ کہتے ہیں کہ المومن : ٨ میں فرمایا ہے : ” فرشتے کہیں گے : تو ان کو ان دائمی جنتوں میں داخل فرمادے جس کا تو نے ان سے وعد فرمایا ہے “ اور جو مومن گناہ کبیرہ کرکے بغیر توبہ کے مرگیا، اس سے تو اللہ تعالیٰ نے دائمی جنتوں کا وعدہ نہیں کیا، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی دائمی جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے، قرآن مجید میں ہے :

فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ (الزلزال :7-8)

پس جس شخص نے ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کی ہے وہ اس کی جزاء پائے گا اور جس شخص نے ایک ذرہ کے برابر بھی بُرا کام کیا ہے وہ اس کی سزا پائے گا پس جو مومن گناہ کبیرہ کرنے کے بعد بغیر توبہ مرگیا اس سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی جزاء پائے گا اور ایمان کی جزاء دائمی جنت ہے اور اس نے بُرائی کی ہے وہ اس کی سزا کا مستحق ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں کو بخشنے اور معاف کرنے کی بھی بشارت دی ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا کو معاف کردے اور وہ بغیر سزا پائے جنت میں چلا جائے اور اس آیت میں جو فرمایا ہے : ” جس نے ایک ذرہ کے برابر بھی بُرائی کی وہ اس کی سزا پائے گا “ اس کا معنی ہے کہ اگر اللہ نے اس کو معاف نہ کیا تو وہ اپنی بُرائی کی سزا پائے گا اور سزا بھگت کر پھر جنت میں چلا جائے گا اور وہ اپنے ایمان کی وجہ سے ضرور جنت میں جائے گا، یہ اس سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف کردے گا اور وہ بغیر سزا پائے جنت میں چلا جائے گا۔

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

مطرف بن عبداللہ نے کہا : اللہ کے بندوں میں سے مؤمنوں کے سب سے بڑے خیر خواہ مبالئ کہ ہیں اور اللہ کی مخلوق میں سے مؤمنوں کا سب سے بڑا بدخواہ شیطان ہے اور یحییٰ بن معاذ رازی نے اپنے اصحاب سے اس آیت کی تفسیر میں کہا : کیا لوگوں نے اس آیت کا معنی سمجھ لیا ہے، اس آیت سے زیادہ امید افزاء اور کوئی آیت نہیں ہے، بیشک اگر ایک فرشتہ بھی تمام مؤمنوں کی مغفرت کی دعا کرے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی مغفرت کس قدر عام ہوگی جب تمام فرشتے اور حاملین عرش مل کر مؤمنین کے لیے استغفار کریں گے۔ خلف بن ہشام نے کہا : میں نے یہ آیت سلیم بن عیسیٰ کے سامنے پڑھی ” ویسغفرون للذین امنوا “ تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، انہوں نے کہا : اللہ اپنے بندوں پر کس قدر کریم ہے، مؤمنین اپنے بستروں پر سوتے ہوئے ہوتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے مغفرت طلب کررہے ہوتے ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ٢٦٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

میں کہتا ہوں کہ فرشتوں کی دعا کی دو وجہوں سے قبولیت زیادہ متوقع ہے، ایک وجہ یہ ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات مانے اللہ بھی اس کی بات مانتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

اجیب دعوۃ الداع اذ دعان فلیستجیبوالی۔ (البقرہ :186) جب دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو وہ بھی تو میری بات مانا کریں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ بھی ان کی دعا ضرور قبول فرمائے گا، دوسری وجہ یہ ہے کہ فرشتے ہمارے پس پشت ہمارے لیے دعا کرتے ہیں اور جو غائب کے لیے دعا کی جائے اس کی قبولیت زیادہ متوقع ہے، حدیث میں ہے : حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی کی دعا اس قدر جلدی قبول نہیں ہوتی جتنی جلدی ایک غائب کی دعا دوسرے غائب کے لیے قبول ہوتی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٨٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥٣٥، مصنف ابن ابی شبیہ ج ١٠ ص ١٩٨، الادب المفردر قم الحدیث : ٦٢٣ )

حاملین عرش کی دعا کے نکات

حاملین عرش نے مؤمنوں کے لیے جو مغفرت کی دعا کی اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا میں یہ کہا : ” اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے، سو تو ان لوگوں کی مغفرت فرما “۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے مطلوب کا ذکر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کی جائے، نیز فرشتوں نے اپنی دعا میں کہا : ” تو ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے اور ان کو دائمی جنتوں میں داخل فرمادے “ اس سے معلوم ہوا کہ جاہل صوفیاء کا یہ کہنا غلط ہے کہ دوزخ کے عذاب سے بچا لے اور حصول جنت کی دعا کرنا، کم درجہ کے لوگوں کی دعا ہے، حاملین عرش اللہ تعالیٰ کے مقربین ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ مؤمنین کے لیے دوزخ سے نجات اور جنت کے حصول کی دعا کرتے ہیں۔

فرشتوں نے انسان کی تخلیق سے پہلے انسان کے متعلق یہ کہا تھا کہ یہ زمین میں خون ریزی اور فساد کرے گا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان سے مؤمنوں کے لیے مغفرت کی دعا کرائی تاکہ تخلیق آدم پر ان کے اعتراض کا مداوا ہوجائے، فرشتوں نے دعا کے موقع پر ” اللھم “ نہیں کہا، بلکہ ” ربنا “ کہا اور انبیاء (علیہم السلام) نے بھی زیادہ تر دعا کے مواقع پر ” ربنا “ ہی کہا ہے، کیونکہ ” اللھم “ کا معنی ہے : اے للہ ! اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا ذکر ہے اور ” ربنا “ کا معنی ہے : اے ہمارے رب ! اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا ذکر ہے، اے ہمیں پالنے والے ! ہم اللہ تعالیٰ کو متوجہ کرتے ہیں کہ جس طرح تو نے ہمیں وجود عطا کیا، ہماری پرورش کی، ہمیں ضرر سے محفوظ رکھا اور ہمیں فوائد عطاکیے، ہماری اس دعا کو قبول فرمالے اور ہمیں دائمی ضرر سے بچا لے اور دائمی فوائد عطا فرمادے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 7