أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَوَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلِهِمۡؕ كَانُوۡا هُمۡ اَشَدَّ مِنۡهُمۡ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِى الۡاَرۡضِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوۡبِهِمۡؕ وَمَا كَانَ لَهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّاقٍ ۞

ترجمہ:

کیا ان کافروں نے زمین میں سفر نہیں کیا تاکہ یہ اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام دیکھ لیتے جو ان سے یادہ طاقت ور تھے اور زمین میں ان کے اثرات بھی بہت زیادہ تھے، اس کے باوجود اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا اور ان کو اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ تھا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

کیا ان کافروں نے زمین میں سفر نہیں کیا تاکہ یہ اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام دیکھ لیتے جو ان سے یادہ طاقت ور تھے اور زمین میں ان کے اثرات بھی بہت زیادہ تھے، اس کے باوجود اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا اور ان کو اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس اللہ کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تھے، پھر بھی انہوں نے کفر کیا تو اللہ نے ان پر گرفت کی، بیشک وہ بہت قوت والا، سخت عذاب والا ہے (المومن : 21-22)

کفار مکہ کو دنیا کے عذاب سے ڈرانا

اس سے پہلے آیتوں میں اللہ تعالیٰنے کفار مکہ کو عذاب آخرت سے ڈرایا تھا اور ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو دنیا کے عذاب سے ڈرایا ہے، کیونکہ کفار مکہ، مکہ کی سرزمین سے شام اور یمن کی طرف سفر کرتے رہتے تھے اور وہاں پچھلی کافر قوموں کی تباہی اور بربادی کے آثار تھے، عاد، ثمود اور ان جیسی دوسری قوموں کے، اور قریش ان اطراف سے اور ان راستوں سے گزرتے تھے۔

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو یہ بتایا ہے کہ عقل مند وہ ہوتا ہے جو دوسروں سے عبرت حاصل کرے کیونکہ سابقہ کفار ان موجودہ کافروں سے جسمانی طور پر بھی بہت طاقت ور تھے اور ان کے علاقوں میں بھی ان کی شوکت اور سطوت کے بہت آثار اور نشانات تھے، انہوں نے بہت مضبوط اور مستحکم قلعے بنائے تھے اور بڑی بڑی عمارتیں بنائی تھیں، ان کے عظیم السان محلات تھے اور ان کے پاس لشکر جرار تھے اور جب انہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ آسمانی عذبا بھیج کر ان کو ہلاک کردیا، حتیٰ کیہ ہی موجود کفار بھی اپنے سفروں کے درمیان ان کی تباہی اور ہلاکت کے آثار کو دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو ان کے احوال سے ڈرایا کہ اگر وہ اپنے کفار اور ہمارے نبی (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب بےساز نہ آئے تو ان کو بھی اسی طرح ہلاک کردیا جائے گا جس طرح پچھلے زمانہ کے کافروں کو ہلاک کردیا گیا تھا اور جب ان پر اللہ کا عذاب آیاتو ان کو اس عذاب میں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کی وجہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر حجت تمام کردی تھی اور اپنی توحید کا پیغام دے کر رسولوں کو ان کے پاس بھیجا تھا، پھر جب انہوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا اور وہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 21