اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُنَادَوۡنَ لَمَقۡتُ اللّٰهِ اَكۡبَرُ مِنۡ مَّقۡتِكُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ اِذۡ تُدۡعَوۡنَ اِلَى الۡاِيۡمَانِ فَتَكۡفُرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 10
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُنَادَوۡنَ لَمَقۡتُ اللّٰهِ اَكۡبَرُ مِنۡ مَّقۡتِكُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ اِذۡ تُدۡعَوۡنَ اِلَى الۡاِيۡمَانِ فَتَكۡفُرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
بیشک (قیامت کے دن) کفار سے بہ آواز بلند کہا جائے گا کہ تمہیں اپنے اوپر جو غصہ آرہا ہے، اس سے کہیں سنگین اللہ کا غصہ ہے جو تم پر اس وقت آتا تھا جب تمہیں (اللہ کی توحید پر) ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تھی پھر تم کفر کرتے تھے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(قیامت کے دن) کفار سے بہ آواز بلند کہا جائے گا کہ تمہیں اپنے اوپر جو غصہ آرہا ہے، اس سے کہیں سنگین اللہ کا غصہ ہے جو تم پر اس وقت آتا تھا جب تمہیں (اللہ کی توحید پر) ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تھی پھر تم کفر کرتے تھے وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندہ فرمایا، ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا، آیا اب دوزخ سے نکلنے کی کوئی صورت ہے ؟ اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ جب صرف اللہ واحد کو پکارا جاتا تھا تو تم کفر کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ کسی کو شریک کرلیا جاتا تھا تو تم اس پر ایمان لاتے تھے، پس فیصلہ صرف اللہ ہی کا ہے جو بہت بلند اور بہت بڑا ہے (المومن : 10-12)
قیامت کے دن کفار کے اپنے اوپر غصہ کی وجوہ
اس سے پہلی آیتوں میں مؤمنون کے مرتبہ اور مقام کا ذکر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حاملین عرش ان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں اور ان آیتوں میں پھر کفار کے اخروی احوال بیان کیے جارہے ہیں، کیونکہ ایک ضد کے احوال سے دوسری ضد کے احوال نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔
المومن : ١٠ میں فرمایا : قیامت کے دن کفار سے بہ آواز بلند کہا جائے گا کہ تمہیں اپنے اوپر جو غصہ آرہا ہے، اس سے کہیں سنگین اللہ کا غصہ ہے جو تم پر اس وقت آتا تھا جب تمہیں (اللہ کی توحید پر) ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تھی پھر تم کفر کرتے تھے۔ “ خلاصہ یہ ہے کہ جب کفار اپنے آپ کو دوزخ کی آگ میں جھلستے ہوئے دیکھیں گے تو انہیں اپنے اوپر سخت غصہ آئے گا، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ جب دنیا میں تمہیں اللہ کی توحید پر ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم اس کا انکار کرتے تھے تو اللہ تم پر اس سے کہیں زیادہ ناراض ہوتا تھا جتنا آج تمہیں اپنے اوپر غصہ آرہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے غضب ہی کا ثمرہ ہے کہ آج تم دوزخ کی آگ میں جھلس رہے ہو۔ کفار کو جو آختر میں اپنے اوپر غصہ آئے گا، مفسرین نے اس کی حسب ذیل توجیہات بیان کی ہیں :
(١) قیامت کے دن جب وہ جنت اور دوزخ کو دیکھیں گے تو انہیں اپنے اوپر غصہ آئے گا کہ کیوں انہوں نے دنیا میں اپنی تکذیب اور اپنے کفر پر اصرار کیا جس کے نتیجہ میں آج وہ دوزخ کی آگ میں جل رہے ہیں۔
(٢) کافر سرداروں کے پیروکار اپنے سرداروں پر غصہ کریں گے کہ کیوں انہوں نے ان کو شرک اور بت پرستی پر لیایا جس کی وجہ سے آج انہیں دوزخ میں عذاب ہورہا ہے اور ان سرداروں کو اپنے پیروکاروں پر غصہ آئے گا ان پیروکاروں نے ان کی مخالفت کیوں نہ کی اور بت پرستی کو کیوں نہ ترک کیا، کیونکہ پیروکاروں کی پیروی کرنے کی وجہ سے آج انہیں دہرا عذاب ہورہا ہے۔
(٣) جب دوزخ میں ابلیس کافروں سے یہ کہے گا : ” میں نے تم پر کفر کرنے کے لیے کوئی جبر نہیں کیا تھا سو اس کے کہ میں نے تم کو کفر کرنے کی دعوت دی سو تم نے میری دعوت قبول کرلیا، لہٰذا تم مجھے ملامت نہ کرو، تم اپنے آپ کو ملامت کرو۔ “ (ابراہیم : 22) اس وقت کافروں کو اپنے اوپر شدید غصہ آئے گا کہ انہوں نے ابلیس کی دعوت کیوں قبول کی اور کیوں اس وجہ سے دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوئے۔ کفار سے بلند آواز میں یہ خطاب جہنم کے محافظ کریں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غیب سے ان کو ندا کی جائے، باقی اس آیت میں یہ فرمایا ہے : ” اللہ کو ان پر جو غصہ ہوگا وہ ان کے غصہ سے کہیں زیادہ ہے “ غصہ کا معنی ہے : خون کا جوش میں آٹا اور یہ اللہ کے لیے محال ہے، اس لیے یہاں اس کا لازمی معنی مراد ہے یعنی ان پر انکار کرنا اور ان کو زجر توبیخ کرنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔
المومن : ١٠ کے بعض تراجم
المومن : ١٠ کا ترجمہ بہت مشکل اور پیچیدہ ہے اور بہت سے مترجمین کا کیا ہوا ترجمہ غیر واضح ہے، ہم قارئین کی علمی ضیافت کے لیے بعض تراجم نقل کررہے ہیں اور آخر میں ایک بار پھر اپنا ترجمہ ذکر کریں گے کیونکہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔
شیخ محمود حسن دیو بندی متوفی ١٣٣٩ ھ لکھتے ہیں :
جو لوگ منکر ہیں ان کو پکار کر کہیں گے : اللہ بیزار ہوتا تھا زیاہ اس سے جو تم بیزار ہوئے ہو اپنے جب سے، جس وقت تم کو بلاتے تھے یقین لانے کو، پھر تم منکر ہوتے تھے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں :بے شک جنہوں نے کفر کیا ان کو ندا کی جائے گی کہ ضرور تم سے اللہ کی بیزاری اس سے بہت زیادہ ہے جیسے تم آج اپنی جان سے بیزار ہو جب کہ تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تو تم کفر کرتے۔
شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٤ ھ لکھتے ہیں : جو لوگ کافر ہوئے (اس وقت) ان کو پکارا جاوے گا کہ جیسے تم کو (اس وقت) اپنے سے نفرت ہے اس سے بڑھ کر خدا کو (تم سے) نفرت تھی جب کہ تم (دنیا میں) ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر تم نہیں مانا کرتے تھے۔
محدیث اعظم ھند کچھو چھوی متوفی ١٣٨٣ ھ لکھتے ہیں : بیشک جنہوں نے کفر کیا پکار دیئے جائیں گے کہ یقینا اللہ کی بیزاری کہیں زیادہ بڑی ہے تمہاری خود اپنی ذات سے بیزاری سے کہ جب بلائے جاتے تم ایمان کی طرف تو انکار کردیتے۔
علامہ احمد سعید کا ظمی متوفی ١٤٠٦ ھ لکھتے ہیں :بے شک (قیامت کے دن) کافروں کو پکار کر کہا جائے گا کہ ضرور اللہ کی خفگی بہت بڑی ہے تمہاری اپنی خفگی سے تمہاری جانوں پر جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم کفر کرتے تھے۔
جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری متوفی ١٤١٩ ھ لکھتے ہیں : بیشک جن لوگوں نے کفر کیا انہیں ندا دی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی (تم سے) بیزاری بہت زیادہ ہے اس بیزاری سے جو تمہیں اپنے آپ سے ہے۔ (یاد ہے) جب تم بلائے جاتے ایمان کی طرف تو تم کفر کیا کرتے۔
ہم نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح سے کیا ہے : (قیامت کے دن) کفار سے بہ آواز بلند یہ کہا جائے گا کہ تمہیں اپنے اوپر جو غصہ آرہا ہے اس سے کہیں سنگیں اللہ کا غصہ ہے تو تم اس وقت آتا تھا جب تمہیں (اللہ کی توحید پر) ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تھی پھر تم کفر کرتے تھے۔ الزمر : ١١ میں فرمایا : ” وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندہ فرمایا، ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا، آیا اب دوزخ سے نکلنے کی کوئی صورت ہے ؟ “
دو موتوں اور دو حیاتوں کی تفسیر میں متقدمین کے اقوال
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو موتیں اور دو حیاتیں دی ہیں، اس کی متعدد تفسیریں ہیں۔
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
قتادہ اور صحاک، حضرت ابن عباس (رض) اور ابو مالک بیان کرتے ہیں کہ لوگ اپنے آئاء کی پشتوں میں (نطفہ کی صورت میں) مردہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں زندہ کیا، پھر ان کو دنیا میں موت دی، پھر قیامت کے دن ان کو احساب کتاب کے لیے زندہ کرے گا۔
اور سدی نے بیان کیا : اس کو دنیا میں موت دی گئی، پھر ان کو قبر میں زندہ کیا گیا اور ان سے سوال کیا گیا اور خطاب کیا گیا، پھر اس کے بعد ان کو قبر میں موت دی جائے گی، پھر ان کو آخرت میں زندہ کیا جائے گا۔
ابن زید نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے لوگوں کو نکال کر ان کو موت دی، پھر ان کی مائوں کے رحموں میں ان کو زندہ کیا پھر دنیا میں ان کو موت دی، پھر آخرت میں ان کو زندہ کرے گا۔ (جامع البیان جز ٢٤ ص ٦١۔ ٦٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ، علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی المتوفی ٦٦٨ ھ اور دیگر مفسرین نے دو موتوں اور دو حیاتوں کے یہی محمل بیان کیے ہیں۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١٤٦، الجامع لاحکام القرآن ص ٢٦٦۔ ٢٦٥ )
حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤، حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ، علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ نے بھی بغیر کسی ترجیح اور بحث کے ان تین اقوال کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٨٠، الدرالمنثور ج ٧ ص ٢٤٠، روح البیان ج ٨ ص ٢٢٠ )
ان اقوال میں قبر میں حیات کا ذکر آگیا ہے، اس لیے ہم قبر میں حیات کے ثبوت میں ایک حدیث کا ذکر کررہے ہیں۔
قبر میں حیات کے حصول پر دلیل یہ حدیث ہے : حضرت البراء بن عازب (رض) سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے :
فتعادروحہ فی جسدہ فیاتیہ ملکان فیجلسہ۔ الحدیث
پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جائے گی، پھر اس کے پاس دو فرشتے آئیں گے جو اس کو بٹھادیں گے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٥٣، مسند احمد ج ٤ ص ٢٨٧ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٠ ص ٥٠٣۔ ٤٩٩، رقم الحدیث : ١٨٥٣٣، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٩٢۔ ٣٨٠۔ ٣٧٤۔ ٣١٠ ج ١٠ ص ١٩٤، صحیح ابن خزیمہ ص ١١٩، المستدرک ج ١ ص ٣٨۔ ٣٧، شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٩٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٤٩، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٥٢٢١، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٥٠۔ ٤٩ )
دو موتوں اور دو حیاتوں پر اعتراضات کے وجوابات
اس آیت میں جو دو موتوں اور دو حیاتوں کا ذکر کیا گیا ہے اس پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ یہ کفار کا قول ہے، اس لیے یہ دو موتوں اور دو حیاتوں پر دلیل نہیں بن سکتا، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ان کا یہ قول غلط ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کے اس قول کو وہیں رد فرما دیتا ۔ اس پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ایک حیات دنیا میں ہے اور دوسری حیات قبر میں ہوگی اور تیسری حیات آخرت میں ہوگی، اس طرح تین حیاتیں ہوگئیں اور یہ اس آیت کے خلاف ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قبر میں جو حیات ہوگی وہ غیر ظاہر اور غیر محسوس ہوگی، اس لیے کفار نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ مؤمنین جنت میں داخل ہونے کے بعد کہیں گے :
افما نحن بمئتین الا موتتنا الاوالی وما نحن بمعذبین (الصفت : 58-59) آیا ہم اب مرنے والے نہیں ہیں سوا ہماری پہلی موت کے اور نہ ہم کو عذاب دیا جائے گا پس سورة الصفت میں صرف ایک موت کا ذکر ہے اور سورة المؤمن میں دو موتوں کا ذکر ہے اور چونکہ الصفت میں مؤمنین کے قول کا ذکر ہے اور المؤمن میں کفار کے قول کا ذکر ہے، اس لیے مؤمنین کے قول کو ترجیح دینی چاہیے۔ لہٰذا قیامت سے پہلے صرف ایک موت کا ثبوت ہوگا اور دو موتوں کا ثبوت نہیں ہوگا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جنت میں مؤمنین صرف اس موت کا ذکر کریں گے جو ہر شخص پر الگ الگ طاری کی گئی اور وہ ایک ہی موت ہے اور قیامت میں صور پھونکنے کے بعد جو موت آئے گی وہ اجتماعی موت ہوگی اور ہر شخص کی الگ الگ موت نہیں ہوگی۔
ان جوابات سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ جو لوگوں پر دو بار موت طاری کرے گا اس سے مراد پہلی موت وہ ہے جو دنیا میں انسان کی روح قبض کیے جانے سے محقق ہوتی ہے اور یہ ہر انسان کی انفرادی موت ہے اور دوسری موت وہ ہے جو قیامت کے دن صور پھونکنے سے عام لوگوں کی موت واقع ہوگی اور یہ تمام انسان کی اجتماعی موت ہے اور دو حیاتوں سے مراد ایک وہ حیات ہے جو انسان کے پیدا ہونے کے بعد ہوتی ہے اور ہر انسان کی انفرادی حیات ہے اور دوسری حیات وہ ہے جب قیامت کے بعد سب لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور یہ تمام انسانوں کی اجتماعی حیات ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 10