أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اۨلَّذِيۡنَ يُجَادِلُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰٮهُمۡ ؕ كَبُـرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰهِ وَعِنۡدَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ كَذٰلِكَ يَطۡبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلۡبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ۞

ترجمہ:

جو لوگ بغیر کسی ایسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو جھگڑتے ہیں، اللہ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک ایسا جھگڑا سخت غصہ کا موجب ہے اللہ اسی طرح ہر جبار متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے

تفسیر:

جبار اور متکبر کا معنی اور ان کے متعلق احادیث

المومن : ٣٥ میں فرمایا : ” جو لوگ بغیر کسی ایسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو جھگڑتے ہیں، اللہ کے نزدیک اور مؤمنوں کے نزدیک ایسا جھگڑا سخت غصہ کا موجب ہے۔ اللہ اسی طرح ہر جبار متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے “

اس آیت میں جبار متکبر کے الفاظ ہیں، جبر کے معنی ہیں : نقصان کو پورا کرنا، جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس کو اللہ کی طرف سے کوئی درجہ حاصل ہے حالانکہ وہ اس درجہ کا مستحق نہ ہو اس کو جبار کہتے ہیں، اس اعتبار سے یہ لفظ بطور مذمت استعمال کیا جاتا ہے، بادشاہ کو جبار اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے لوگوں پر جبر اور قہر کرتے ہیں اور متکبر اس شخص کو کہتے ہیں جو حق کا انکار کرے اور لوگوں کو حقیر جانے اور فرعون کی قوم کے لوگ ایسے ہی تھے، وہ بنو اسرائیل پر قہر اور جبر کرتے تھے، ان کو حقیر جانتے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ اس آیت میں فرمایا ہے : ” اللہ ہر جابر متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے “ ان کے دلوں پر مہر لگانے کا معنی یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کجی، گمراہی اور کفر ہے وہ ان کے دلوں سے نہیں نکل سکتا اور باہر سے ان کے دلوں میں ہدایت، اخلاص اور ایمان داخل نہیں ہوسکتا۔ پس صاحب عقل کو چاہیے کہ وہ ان اسباب کا دامن تھام لے جو اس کا سینہ کھولنے کے موجب ہوں اور ان اسباب سے مجتنب رہے جو اس کے دل پر مہر لگانے کے موجب ہوں۔

بعض عارفین نے کہا ہے کہ قلب کی اصلاح پانچی چیزوں سے ہوتی ہے : (١) کم کھانا (٢) کم سونا (٣) قرآن مجید اور احادیث میں غور و فکر کرنا اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنا (٤) رات کے آخر پہر میں اٹھ کر اللہ سے توبہ اور استغفار کرنا (٥) اللہ کے نیک بندوں سے محبت کرنا اور ان کی رفاقت کو طلب کرنا۔ اس آیت میں جبار اور متکبر کی مذمت فرمائی ہے، احادیث میں بھی ان کی مذمت ہے :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن بعض لوگوں کی چیونٹیوں کی جسامت میں اٹھایا جائے گا اور لوگ انہیں اپنے قدموں سے روندیں گے، پھر کہا جائے گا : یہ چیونٹیوں کی صورت میں کون لوگ ہیں ؟ تو بتایا جائے گا : یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں تکبر کرتے تھے۔

(مسند البزار رقم الحدیث : ٣٤٢٩، ابام بزار نے کہا : اس سند کے ساتھ حضرت جابر سے یہی حدیث مروی ہے، اس کی سند میں ایک راوی قاسم ہے، وہ قوی نہیں ہے اور اہل علم نے اس سے حدیث کو روایت کیا ہے۔ حافظ الہیثمی نے کہا : القاسم بن عبداللہ العمری متروک ہے۔ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٣٤)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن متکبرین کا حشر چیونٹیوں کی صورت میں کیا جائے گا۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٣٤٣٠، امام بزار نے کہا : ہم نے اس حدیث کا سماع صرف العقیلی از محمد بن راشد سے کیا ہے اور حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند میں بعض ایسے راوی ہیں جن کو میں نہیں پہچانتا مجمع الزوائدج ١٠ ص ٣٣٤)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور آپ نے فرمایا : تکبر حق کا انکار کرنا ہے اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٩٩۔ ١٩٩٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٠٩١، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٤٧٩)

اس حدیث پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اگر کسی مومن کے دل میں تکبر ہو اور وہ جنت میں داخل نہ ہو تو پھر اس آیت کا کیا جواب ہوگا جس میں فرمایا ہے : ” جس نے ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کی وہ اس کی جزاء پائے گا “۔ (الزلزال : ٧) اور اس حدیث کا کیا جواب ہوگا جس میں آپ کا یہ ارشاد ہے : جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩١، الایمان ١٤٨) اس کا جواب یہ ہے کہ جس نے ایمان لانے سے ایک ذرہ بھی تکبر کیا اور وہ کفر پر مرگیا وہ جنت میں بالکل داخل نہیں ہوگا، اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ جنت میں داخل کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ مؤمنین کے دلوں سے تکبر نکال لے گا، قرآن مجید میں ہے :

ونزعنا مافی صدور ھم من غل۔ (الاعراف :34) اور ان کے دلوں میں جو کچھ کینہ ہوگا ہم اس کو دور کردیں گے۔ اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ وہ تکبر کی سزا بھگت کر تکبر سے صاف ہو کر جنت میں داخل ہوں گے۔ اور اس کا چوتھا جواب یہ ہے کہ تکبر کی سزا یہ ہے کہ تکبر کرنے والے کو جنت میں داخل نہ کیا جائے لیکن ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے اور تکبر کی سزا نہ دے۔

اس کا پانچواں جواب یہ ہے کہ تکبر کرنے والا ابتداء متقین کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا، ان کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 35