أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ذٰلِكُمۡ بِاَنَّهٗۤ اِذَا دُعِىَ اللّٰهُ وَحۡدَهٗ كَفَرۡتُمۡ ۚ وَاِنۡ يُّشۡرَكۡ بِهٖ تُؤۡمِنُوۡا ؕ فَالۡحُكۡمُ لِلّٰهِ الۡعَلِىِّ الۡكَبِيۡرِ ۞

ترجمہ:

اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ جب صرف اللہ واحد کو پکارا جاتا تھا تو تم کفر کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ کسی کو شریک کرلیا جاتا تھا تو تم اس پر ایمان لاتے تھے، پس فیصلہ صرف اللہ ہی کا ہے جو بہت بلند اور بہت بڑا ہے

تفسیر:

المومن : ١٢ میں فرمایا : ” اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ جب صرف اللہ واحد کو پکارا جاتا تھا تو تم کفر کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ کسی کو شریک کرلیا جاتا تھا تو تم اس پر ایمان لاتے تھے، پس فیصلہ صرف اللہ ہی کا ہے جو بہت بلند اور بہت بڑا ہے “

خوارج کی تعریف اور ان کا مصداق

اس آیت میں فرمایا ہے : ” فیصلہ صرف اللہ کا ہے “ خوارج اس آیت کے ظاہر پر اعتقاد رکھتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ فیصلہ صرف اللہ کا ہے اور اگر کوئی اور فیصلہ کرے تو وہ کافر ہے۔

خوارج کوفہ کے زاہدوں کی ایک جماعت تھی، جو حضرت علی (رض) کی اطاعت سے اس وقت نکل گئے جب حضرت علی (رض) اور حضرت معاویہ (رض) کے درمیان دو فیصلہ کرنے والوں کو مقرر کیا گیا، اس کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت علی (رض) اور حضرت معاویہ (رض) کے درمیان جنگ طول پکڑ گئی تو دونوں فریق اس پر متفق ہوگئے کہ خلافت کس کا حق ہے ؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت عمرو بن العاص (رض) کو مقرر کردیا جائے اور دونوں فریق ان کا فیصلہ پر راضی ہوں گے اس وقت خوارج نے کہا : ” حکم صرف اللہ کا ہے “ حضرت علی (رض) نے فرمایا : یہ کلمہ برحق ہے لیکن انس سے جس معنی کا ارادہ کیا گیا ہے وہ باطل ہے، خوارج کی تعداد بارہ ہزار تھی، انہوں نے حضرت علی کی خلافت کا انکار کیا اور اپنی مخالفت کا جھنڈا نصف کردیا اور خون ریزی اور ڈاکے مارنا شروع کردیئے حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ یہ لوگ اپنے فیصلہ سے رجوع کرلیں۔ مگر یہ لوگ جنت کرنے کے سوا کسی بات سے راضی نہیں ہوئے۔ پھر حضرت علی (رض) نے نہروان کے علاقہ میں ان سے جنگ کی، نہروان لوگ جنگ کرنے کے سوا کسی بات سے راضی نہیں ہوئے۔ پھر حضرت علی (رض) نے نہروان کے علاقہ میں ان سے جنگ کی، نہروان بغداد کے قریب ایک شہر ہے، حضرت علی (رض) نے ان میں سے اکثر کو قتل کردیا اور ان میں سے بہت کم زندہ بچے۔ خلاصہ یہ ہے کہ خوارج ایک گمراہ فرقہ ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جو شخص گناہ صغیرہ کا مرتکب ہو یا مستحب کا تارک ہو وہ بھی کافر ہے، بعض احادیث میں ان کی بدعقیدگی اور گمراہی کی طرف اشارہ ہے اور بعض میں ان کی گمراہی میں تصریح ہے۔

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کچھ تقسیم فرما رہے تھے، آپ کے پاس بنو تمیم کا ایک شخص آیا جس کو ذوالخویصرہ کہتے تھے، اس نے کا کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عدل کیجئے۔ آپ نے فرمایا : تم پر افسوس ہے اگر میں عدل نہیں کروں گا تو پھر کون عدل کرے گا (رض) اگر میں نے (بالفرض) عدل نہیں کیا تو پھر میں ناکام اور نامراد ہوجائوں گا، حضرت عمر (رض) نے کہا : یارسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑادوں، آپ نے فرمایا : اس کو چھوڑ دو کیونکہ اس کے ایسے اصحاب ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلہ میں حقیر جانے گا اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے مقابلہ میں حقیر جانے گا، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے اور قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اس تیر کے پھل کو دیکھا جائے گا تو اس میں کوئی چیز نہیں ہوگی، پھر اس کے پٹھے کو دیکھا جائے جو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر لگایا جاتا ہے، تو وہاں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کی نضی کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ (نضی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) اسی طرح اگر اس کے پَر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا، حالانکہ گوبر اور خون سے وہ تیر گزر چکا ہے، یہ لوگ مسلمانوں کے افضل طبیہ کے خلاف بغاوت کریں گے اور شر اور فساد پھیلائیں گے۔

خوارج کے متعلق احادیث

حضرت ابوسعید خدری (رض) نے فرمایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے ان (خوارج) سے جنگ کی تھی۔ اس وقت میں بھی حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا، حضرت علی (رض) نے اس شخص کو تلاش کرنے کا حکم دیا جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بیان فرمایا تھا، اس کو تلاش کیا گیا، پھر وہ لایا گیا۔ میں نے اس کو دیکھا تو اس کا پورا حلیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان کردہ اوصاف کے مطابق تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦١٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٦٤، سنن ابودائود درقم الحدیث : ٤٧٦٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٧٨، جامع المسانید مسند ابی سعید الخدری رقم الحدیث : ١٢٢٢ )

عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے خوارج کا ذکر کرکے فرمایا : ان میں سے ایک ایسا شخص ہے جس کا ہاتھ ناقص ہے یا کٹا ہوا ہے اور اگر تم اس خوشی میں نیک اعمال کو ترک نہ کرو تو میں تمہیں وہ حدیث بیان کروں جس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اس حدیث کو سنا ہے ؟ حضرت علی (رض) نے تین بار فرمایا : ہاں ! رب کعبہ کی قسم !۔ (اس حدیث کی سند صحیح ہے) (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦٧، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٨٦٥٢، مصنف ابن ابی ثینبہ ج ١٥ ص ٣٠٤۔ ٣٠٣، مسند احمد ١ ص ٨٣)

حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خوارج دوزخ کے کتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٣، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آخر زمانہ میں یا اس امت میں سے ایک قوم نکلے گی، وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، ان کی علامت سر (یا مونچھیں) منڈانا ہے، جب تم ان کو دیکھو تو تم ان کو قتل کردو۔ (اس حدیث کی سند صحیح ہے)

(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٦٦۔ ٤٧٦٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٥، مسند احمد ج ٣ ص ٢٢٤۔ ١٩٧ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٠ ص ٣٣٦، مؤسسۃ الرسالۃ، ١٤١٨ ھ، المستدرک ج ٢ ص ١٤٧، جامع المسانید والسنن مسندانس رقم الحدیث : ٢٦١٦)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 12