قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَيۡنِ وَاَحۡيَيۡتَنَا اثۡنَتَيۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَهَلۡ اِلٰى خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِيۡلٍ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 11
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَيۡنِ وَاَحۡيَيۡتَنَا اثۡنَتَيۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَهَلۡ اِلٰى خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِيۡلٍ ۞
ترجمہ:
وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندہ فرمایا، ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا، آیا اب دوزخ سے نکلنے کی کوئی صورت ہے ؟
تفسیر:
المومن : ١١ کی تفسیر میں امام رازی کا سدی کی تفسیر کو اختیار کرنا۔ امام فخرالدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ نے سدی کے قول کو ترجیح دی ہے، وہ لکھتے ہیں :
کفار نے اپنے لیے دو موتوں کو ثابت کیا ہے، کیونکہ انہوں نے کہا : ” اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں دو مرتبہ مارا “ ان دو موتوں میں ایک موت وہ ہے جس کا دنیا میں مشاہدہ کیا گیا، پس ضروری ہوا کہ ان کی دوسری حیات قبر میں ہو، حتیٰ کہ اس حیات کے بعد جو موت آئے وہ ان کی دوسری موت ہو۔ اب اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اکثر مفسرین نے یہ کہا ہے کہ پہلی موت سے انسان کی اس حالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے جب انسان نطفہ اور علقہ (جما ہوا خون) ہوتا ہے اور دوسری موت سے اس موت کی طرف اشارہ ہے جو انسان کو دنیا میں پیش آتی ہے تو یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ ان دو موتوں سے یہی دو موتیں مراد ہوں (جیسا کہ حضرت ابن عباس اور قتادہ وغیرھما کا قول ہے) اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
کیف تکفرون بالل وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم۔ (البقرہ :28) تم کیوں کر اللہ کا کفر کرو گے حالانکہ تم مردہ تھے، پس تم کو زندہ کیا پھر تم کو مارے گا۔ ” اور تم مردہ تھے “ اس سے مراد انسان کی وہ حالت ہے جب وہ نطفہ اور علقہ تھا۔
اس مسئلہ کی تحقیق اس طرح ہے کہ اماتت (مارنے، موت طاری ہونے) کے دو معنی ہیں : (١) کسی چیز کو مردہ پیدا کرنا (٢) کسی چیز کو پہلے زندگی دینا پھر اس پر موت طاری کرنا، جیسے کوئی شخص کہے : درزی کے لیے اس کی گنجائش ہے کہ وہ ابتداء میرے کپڑے کو بڑا سی کر دے یا وہ پہلے اس کو چھوٹا سیئے پھر اس کو بڑا کرکے سیئے، پس اس طرح کیوں جائز نہیں ہے کہ اس آیت میں بھی یہی مراد ہو کہ اللہ تعالیٰ نے نطفہ کی حالت میں ان کو ابتداء مردہ پیدا کیا اور یہ مراد نہ ہو کہ پہلے ان کو زندہ کیا، پھر بعد میں ان پر موت طاری کی۔
اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ” اماتت “ کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے : مارنا اور موت طاری کرنا اور یہ اس کو مستلزم ہے کہ موت سے پہلے حیات ہو کیونکہ اگر موت پہلے سے حاصل ہو اور پھر اس پر موت طاری کی جائے تو یہ تحصیل حاصل ہے اور ” کنتم امواتا “ کا معنی یہ ہے کہ پہلے سے مردہ تھے، یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری کی ہے اور جس آیت کی ہم تفسیر کررہے ہیں اس میں کفار کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر دوبارہ موت طاری کی اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ موت طاری کرنا اسی وقت صادق ہوگا جب اس سے پہلے حیات ہو۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٩٥۔ ٤٩٤ ملخصا ومحصلا، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
دیگر مفسرین کا حضرت ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر کو اختیار کرنا
قاضی بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ، علامہ ابوالبرکات نسفی متوفی ٧١٠ ھ، علامہ خازن متوفی ٧٦٥ ھ، علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی متوفی ١٢٢٥ ھ اور علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٤٧٠ ھ نے حضرت ابن عباس اور قتادہ وغیرھما کے قول کو ترجیح دی ہے کہ لوگ اپنے آباء کی پشتوں میں (نطفہ کی صورت میں) مردہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں زندہ کیا پھر ان کو دنیا میں موت دی، پھر ان کو قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے زندہ فرمائے گا۔
اس پر امام رازی کا یہ اعتراض ہے کہ نطفہ کی حالت میں جو موت ہے اس پر موت کا معنی تو صادق آتا ہے جیسا کہ ” کنتم امواتا “ میں ہے، لیکن اماتت (مارنا، موت طاری کرنا) کا معنی صادق نہیں آتا، کیونکہ موت طاری کرنا اس کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے پہلے زندگی ہو، پس ” امتنا اثنتین “ المومن : ١١ میں اس کا معنی ہے : ” دنیا کی زندی کے بعد موت طاری کی “۔ اس کا جواب علامہ نسفی اور علامہ ابو الحیان اندلسی وغیرہ نے یہ دیا ہے کہ ” کنتم امواتا “ اور نطفہ کی حالت میں جو موت ہے اس پر اماتت (موت طاری کرنے) کا معنی مجازاً اصادق آتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ سبحان ہے وہ ذات جس نے مچھر کا چھوٹا اور ہاتھی کا بڑا جسم بنایا اور جیسے کنواں کھودنے والے سے کہا جاتا ہے کہ کنویں کا منہ تنگ رکھنا اور اس کی تہ کو کشادہ رکھنا، اس کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ پہلے اللہ نے مچھر کا بڑا جسم بنایا پھر اس کو چھوٹا کیا یا ہاتھی کا پہلے چھوٹاجسم بنایا پھر اس کو بڑا کیا، بلکہ ابتداء مچھر کا چھوٹ اور ہاتھی کا بڑا جسم بنایا۔
” امتنا اثنتین “ میں (تونے ہم پر دو بار موت طاری کی) موت طاری کرنے کا مجازی معنی مراد ہے، یعنی تو نے ہمیں نطفہ کی صورت میں ابتداء مردہ پیدا کیا۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ جب ایک مخلوق کو چھوٹا اور بڑا دونوں صفات کے ساتھ بنانا جائز ہے تو خالق اور صانع کی مرضی ہے کہ وہ اس کو ابتداء خواہ چھوٹا بنا دے جیسے مچھر کو چھوٹ بنایا، خواہ ابتداء بڑا بنا دے جیسے ہاتھی کو بڑا بنایا، اسی طرح کنواں کھودنے والا ابتداء، خواہ کنویں کا منہ تنگ کھودے خواہ فراخ کھودے، پس اسی طرح ” امتنا ائنتین “ (تونے ہم پر دو بار موت طاری کی) میں موت طاری کرنے کا مجازی معنی مراد ہے۔ یعنی تو نے نطفہ کی حالت میں ہمیں ابتداء، مرادہ پیدا کیا۔ (تفسیر بیضاوی مع الخفاجی ج ٨ ص ٢٤٥۔ ٢٤٤، مدارک التنزیل علی ھامش الخازن ج ٤ ص ٦٨۔ ٦٧، البحر المحیط ج ٩ ص ٢٤٢۔ ٢٤١، تفسیر مظہری ج ٨ ص ٢٤٧۔ ٢٤٦، روح المعانی جز ٢٤ ص ٨١)
مذکورہ مفسرین کے جواب کا صحیح نہ ہونا
مذکورہ مفسرین کا یہ جواب صحیح نہیں ہے اور اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :
١) ” امتنا اثنتین “ کا حقیقی معنی مارنا اور موت طاری کرنا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ پہلے زندگی دی جائے پھر اس کو زائل کیا جائے، اس کو بلاوجہ ابتداء مردہ پیدا کرنے کے مجازی معنی پر محمول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ مجاز پر اس وقت محمول کیا جاتا ہے جب حقیقت محال ہو اور یہاں حقیقت محال نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم اس آیت کو حضرت ابن عباس اور قتادہ وغیرہ کے قول کے موافق کرنا چاہتے ہیں تو میں کہوں گا کہ اللہ کے کلام کو حضرت ابن عباس اور قتادہ وغیرہ کے قول تابع کرنا جائز نہیں ہے جب کہ اس قول کی حضرت ابن عباس کی طرف نسبت بھی سند صحیح سے ثابت نہیں ہے۔ نہ کسی حدیث کی کتاب میں اس کا ذکر ہے، اس لیے ان مفسرین کی یہ تاویل صحیح نہیں ہے۔
٢) ” امتنا اثنتین “ کا معنی ہے تو نے ہم کو دوبارہ مارا اور دوسری موت کا معنی بالاتفاق ” زندگی دے کر مارنا “ اور ” زوال حیات “ ہے، اب اگر پہلی موت کا معنی ابتداء مردہ پیدا کرنا ہو تو اس آیت میں بیک وقت اماتت کے دو معنوں کا مراد لینا لازم آئے گا، ” ابتداء مردہ پیدا کرنا “ یہ مجازی معنی ہے اور ” حیات کو زائل کرنا “ یہ حقیقی معنی ہے اور ایک لفظ سے دو معنوں کا ارادہ کرنا اور حقیقت اور مجاز کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے ان مفسرین کی یہ تاویل صحیح نہیں ہے۔
٣) اگر یہ تکلف کیا جائے کہ ہم یہاں عموم مجاز مراد لیتے ہیں، یعنی مطلقاً موت خواہ ابتداء ہو جیسے نطفہ کی صورت میں اور خواہ زوال حیات ہو جیسے دنیا کی موت ہے تو میں کہوں گا کہ جب اس تکلف بعید کے بغیر قرآن مجید کی اس آیت کا معنی درست ہے تو اس بعید تکلف کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس آیت میں فرمایا ہے : ” تو نے ہم پر دوبارہ موت طاری کی “ ایک بار دنیا میں زندگی دے کر موت طاری کی اور دوسری بار قبر میں زندہ کیا اور پھر صور قیامت سے موت طاری کی اور یہ اماتت کا حقیقی معنی ہے اور دوبارہ زندہ کیا، ایک بار دنیا میں زندہ کیا اور دوسری بار قیامت کی موت کے بعد زندہ کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ تم قبر کی زندگی بھی مانتے ہو اس طرح تین زندگیاں ہوگئیں اور قرآن مجید میں دوبارہ زندہ کرنے کا ذکر ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ قبر کی زندگی غیر ظاہر، غیر محسوس اور غیر مشاہد ہے، اس لیے کفار نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت ابن عباس کی طرف منسوب، سدی اور ابن زید کی تفسیر کا صحیح نہ ہونا
میرے نزدیک دو بار مارنے اور دو بار زندہ کرنے کی تفسیر میں مذکورہ تینوں قول درست نہیں ہیں، حضرت ابن عباس کی طرف منسوب اور قتادہ وغیرہ کا قول اس لیے درست نہیں ہے کہ انہوں نے کہا : پہلی بار مارنا نطفہ کی حالت میں موت ہے، حالانکہ مارنے کا معنی حیات کو زائل کرنا ہے، ابتداء مردہ پیدا کرنا نہیں ہے، جیسا کہ تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے اور اس قول کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں تین موتیں ہوجائیں گی، ایک موت نطفہ کی حالت میں، دوسری موت دنیا کی زندگی کے بعد طبعی موت اور تیسری موت صور اسرافیل سے قیامت کی موت حالانکہ قرآن مجید میں دو بار موت طاری کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔
امام رازی نے اس آیت کی تفسیر میں سدی کے قول کو اختیار کیا ہے، سدی نے کہا : ان کو دنیا میں موت دی گئی، پھر ان کو قبر میں زندہ کیا گیا، پھر اس کے بعد ان کو قبر میں موت دی جائے گی اور پھر ان کو آخرت میں زندہ کیا جائے گا۔
سدی کا یہ قول اس لیے صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے دنیا میں زندہ کرنے کا شمار نہیں کیا اور قبر کی زندگی کا شمار کیا ہے، حالانکہ دنیا کی زندگی ظاہر اور مشاہد ہے اور قبر کی زندگی غیر ظاہر اور غیر مشاہد ہے اور اگر ان کے قول میں دنیا کی زندگی کا بھی اعتبار کرلیا جائے تو پھر تین بار زندہ کرنا لازم آئے گا اور یہ قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں دوبارزندہ کرنے کا ذکر ہے۔
ابن زید کا قول اس لیے درست نہیں ہے کہ انہوں نے کہا : ان کو زندہ کرنے کا معنی ہے حضرت آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالنا اور ان سے اپنی ربوبیت کا عہد لینا، پھر اس کے بعد ان کو مارنا، پھر ان کو دنیا میں زندہ کرنا، پھر ان کو مارنا، پھر قیامت میں ان کو زندہ کرنا اور اس تفسیر کے اعتبار سے ان کو تین بار زندہ کرنا لازم آئے گا اور اگر قبر کی حیات کو بھی شامل کرلیا جائے تو پھر چار مرتبہ زندہ کرنا لازم آئے گا اور یہ قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں صرف دو بار زندہ کرنے کا ذکر ہے۔
المٔومن : ١١ کی تفسیر میں مصنف کا موقف
اس لیے اس آیت کی صحیح تفسیر نہ وہ ہے جو حضرت ابن عباس کی طرف منسوب ہے اور جس کو قاضی بیضاوی، علامہ ابو الحیان اور علامہ آلوسی وغیرہ نے اختیار کیا ہے اور نہ اس کی وہ تفسیر صحیح ہے جو سدی نے کی ہے اور جس کو امام رازی نے اخیار کیا ہے اور نہ ابن زید کی تفسیر صحیح ہے، (اس کو کسی نے اختیار نہیں کیا) اس کی صحیح تفسیر صرف یہ ہے کہ دو بار مارنے سے مراد ہے دنیا میں زندگی دے کر مارنا اور صور اسرافیل سے مارنا اور دوبارہ زندہ کرنے سے مراد ہے دنیا میں زندگی دینا اور قیامت کے بعد زندہ کرنا۔ میں نے عمیق غور و فکر کے بعد اس آیت کا یہی معنی سمجھا ہے، اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کے رسول کا فیضان ہے اور اگر یہ غلط ہے تو یہ میری فکر کی غلطی ہے، اللہ اور اس کا رسول اس سے بَری ہیں۔ والحمدللہ رب العٰلمین
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 11