أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَنۡذِرۡهُمۡ يَوۡمَ الۡاٰزِفَةِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَى الۡحَـنَاجِرِ كٰظِمِيۡنَ ۚ مَالِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ حَمِيۡمٍ وَّلَا شَفِيۡعٍ يُّطَاعُ ۞

ترجمہ:

اور آپ ان کو بہت قریب آنے والے دن سے ڈرائیے جب وفور دہشت سے دل مونہوں کو آجائیں گے، لوگ غم کے گھونٹ بھرے ہوئے خاموش ہوں گے، ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا نہ ایسا سفارشی جس کی سفارش قبول کی جائے

تفسیر:

” الاٰزفۃ “ اور ” کاظمین “ کا معنی

المؤمن : ١٨ میں فرمایا : ” اور ان کو بہت قریب آنے والے دن سے ڈرائیے، جب وفوردہشت سے دل مونہوں کو آجائیں گے۔ “

اس آیت میں ” آزفۃ “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : قریب پہنچنے والی، جس کے آنے کا بہت کم وقت رہ گیا ہو، اس سے مراد قیامت ہے، جیسا کہ ان آیتوں میں فرمایا ہے :

ازفت الازفۃ لیس لھا من دون اللہ کاشفۃ (النجم :57-58) آنے والی گھڑی قریب آپہنچی ہے اللہ کے سوا اس کو اپنے وقت پر کوئی منکشف کرنے والا نہیں ہے اقتربت الساعۃ وانشق القمر (القمر :1) قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہوگیا اس سے مراد یہ ہے کہ کفار کے دوزخ میں داخل ہونے کا وقت قریب آگیا، اس وقت یوں لگے گا جیسے خوف کی شدت سے ان کے دل سینے سے باہر نکل آئیں گے اور بعض مفسرین نے کہا : اس سے مراد موت کا وقت ہے۔ کیونکہ جب کفار موت کے وقت عذاب کے فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کو بہت زیادہ خوف ہوگا اور ان کو یوں لگے گا کہ ان کے دل اچھل کر ان کے حلق میں آگئے ہیں اور شدت خوف کی وجہ سے وہ بالکل گم سم ہوں گے اور دنیا سے جدائی کے غم کو پی کر خاموش ہوں گے اور اس وقت اپنے رنج اور غم کو بیان کرنے کی ہمت نہیں پائیں گے، دلوں کا اچھل کر حلق میں آجانا ایک محاورہ ہے اور اس سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ کسی اچانک افتادہ پیش آنے سے انسان پر بہت زیادہ خوف اور دہشت طاری ہوجاتی ہے اور وہ فرط غم سے لب کشائی کی جرأت بھی نہیں کرسکتا، بعض مفسرین نے کہا : یہ آیت اپنے ظاہر پر محمول ہے، یعنی شدت خوف سے واقعہ میں ان کے دل ان کے سینوں سے نکل کر حلق تک پہنچ جائیں گے اور ان کی زبانیں گنگ ہوجائیں گی۔ اس آیت میں ” کا ظمین “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : غصہ روکنے والے، غصہ پی جانے والے، کظلوم کا اصل معنی ہے سانس روکنا، اس سے مراد ہوتا ہے : خاموش ہونا، کظم النھر کا معنی ہے : نہرکا منہ بند کردیا، کظم الرجل کا معنی ہے : وہ آدمی خاموش ہوگیا، اس آیت میں یہی معنی مراد ہے۔ (الفردات ج ٢ ص ٥٥٨، ملخصا ومحصلا، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

مرتکب کبیرہ کی شفاعت پر معتزلہ کے اعتراض کا جواب

معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں فرمایا ہے کہ ظالموں کا کوئی ایسا شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا جس کی شفاعت قبول کی جائے اور گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے ظالم ہیں، سو اس آیت کے بہ موجب ان کا کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا۔ اس استدلال کے حسب ذیل جوابات ہیں : ١) اس آیت میں فرمایا ہے : ” ولاشفیع یطاع “ ظالموں کا ایسا کوئی سفارشی نہیں ہوگا جس کی شفارش کی اطاعت کی جائے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کی اطاعت کرے۔

٢) اس آیت کا سیاق کفار اور مشرکین کے متعلق ہے، یعنی کفار اور مشرکین کا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہوگا۔

٣) اس کے لیے سفارش قبول کی جائے گی جس کی مغفرت ممکن ہو اور مشرکین کی مغفرت ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے :

ان اللہ لا یغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء۔ (النساء : 48) بیشک اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم جو گناہ ہوگا اس کو بخش دے گا۔

اور گناہ کبیرہ شرک سے کم گناہ ہے، اس لیے اس کی مغفرت ممکن ہے، اس لیے اس کی شفاعت کی جائے گی اور شرک کی مغفرت ممکن نہیں ہے اس لیے اس کی شفاعت ممکن نہیں ہے اور اس آیت میں ظالموں سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ان الشرک لظلم عظیم (لقمان :13) بیشک شرک ظلم عظیم ہے

لہٰذا اس آیت میں مشرکین کی شفاعت کی نفی کی گئی ہے نہ کہ ان مسلمانوں کی جنہوں نے گناہ کبیرہ کرلیا ہے اور ان کی توبہ میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٣٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣١٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤٦٧، الشریعۃ للاجری ص ٣٣٨، المستدرک ج ١ ص ٦٩، ج ٢ ص ٣٨٢، حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ٢٠٠، جامع المسانید والسنن مسند جابر بن عبداللہ رقم الحدیث : ٨٣١)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 18