أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ جَآءَكُمۡ يُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ بِالۡبَيِّنٰتِ فَمَا زِلۡـتُمۡ فِىۡ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمۡ بِهٖ ؕ حَتّٰٓى اِذَا هَلَكَ قُلۡتُمۡ لَنۡ يَّبۡعَثَ اللّٰهُ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ رَسُوۡلًا ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٌ مُّرۡتَابٌ ۞

ترجمہ:

اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، پس تم ان کی لائی ہوئی نشانیوں میں شک ہی نہیں کرتے رہے حتیٰ کہ جب وہ وفات پاگئے تو تم نے کہا : اب اللہ ان کے بعد ہرگز کوئی رسول نہیں بھیجے گا، اور اللہ اسی طرح اس کو گمراہ کرتا ہے جو حد سے متجاوز ہو، شک میں مبتلا ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، پس تم ان کی لائی ہوئی نشانیوں میں شک ہی نہیں کرتے رہے حتیٰ کہ جب وہ وفات پاگئے تو تم نے کہا : اب اللہ ان کے بعد ہرگز کوئی رسول نہیں بھیجے گا، اور اللہ اسی طرح اس کو گمراہ کرتا ہے جو حد سے متجاوز ہو، شک میں مبتلا ہو جو لوگ بغیر کسی ایسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو جھگڑتے ہیں، اللہ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک ایسا جھگڑا سخت غصہ کا موجب ہے اللہ اسی طرح ہر جبار متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے (المومن :34-35)

حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کے زمانہ کے کافروں میں مماثلت

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل مصر سے خطاف فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تمہارے پاس حضرت یوسف (علیہ السلام) دلائل اور معجزات لے کر آئے تھے، اہم معجزہ یہ تھا کہ وہ خواب کی تعبیر بتاتے تھے اور ان کے صدق اور ان کی عصمت پر ایک نوزائیدہ بچے نے شہادت دی تھی، مصر کے بادشاہ کے فوت ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا تھا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں جو مصر کا بادشاہ تھا یہ وہی فرعون تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا (مصر کے بادشاہوں کا لقب فرعون تھا) یا یہ فرعون اس کی اولاد میں سے تھا، ابن قتبیہ نے ” کتاب المعارف “ میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کے درمیان نو سو سال کا عرصہ ہے اور حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کے درمیان چار سو سال کا عرصہ ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل مصر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے : ” اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے “۔ اس زمانہ میں صرف ایک بوڑھی عورت تھی، جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا زمانہ پایا تھا اور وہ ان کی قبر کہ پہچانتی تھی اس کے علاوہ اور کوئی شخص اس زمانہ کا نہ تھا، لہٰذا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے آباء و اجداد کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہودیوں سے خطاب کرکے فرمایا :

قل فلم تقتلون انبیاء اللہ من قبل ان کنتم مومنین (البقرہ :91) آپ کہیے : اگر تم واقعی گزشتہ (آسمانی) کتابوں پر ایمان رکھتے ہو تو تم اس سے پہلے اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے تھے ؟ اور اس آیت میں ان یہودیوں کے آباء و اجداد مراد ہیں کیونکہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جو یہودی تھے انہوں نے نبیوں کو قتل نہیں کیا تھا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے اہل مصر قبطیوں کو مخاطب کرکے فرمایا : ” اور اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے “ حالانکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ان قبطیوں کے باپ دادا کے پاس آئے تھے۔ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ اب یہ بھی لازم نہیں آتا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں جو فرعون تھا یہ وہی جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا۔

تمام اگلے اور پچھلے انسانوں کی یہ سرشت رہی ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی نبی بھیجا گیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا، ماسوا ان چند لوگوں کے جن کو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت دی، اسی وجہ سے مصر کے اکثر لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان نہیں لائے تھے اور جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی تو انہوں نے کہا کہ اب ان کے بعد کوئی اللہ کا رسول نہیں آئے گا اور جس طرح یہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہوگئے تھے اسی طرح ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کی گمراہی میں مبتلا رہنے دیتا ہے جو اس کی نافرمانی کرنے میں حد سے تجاوز کرنیوالے ہوں اور اس کے برحق دین میں اور اس کے نبیوں کے معجزات دیکھنے کے باوجود ان کی نبوت میں شک کرتے ہوں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 34