يَوۡمَ تُوَلُّوۡنَ مُدۡبِرِيۡنَۚ مَا لَكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ عَاصِمٍۚ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 33
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يَوۡمَ تُوَلُّوۡنَ مُدۡبِرِيۡنَۚ مَا لَكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ عَاصِمٍۚ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ ۞
ترجمہ:
جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے، تمہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اور جس کو اللہ گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے
تفسیر:
المومن : ٣٣ میں فرمایا : ” جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے، تمہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے “۔
جس دن کفار پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے، اس سے مراد بھی قیامت کا دن ہے، جس دن وہ ایک دوسرے کو پکاریں گے، پھر دوبارہ ان کو اس دن کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا : ” تمہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا “ اور ان کی زبردست گمراہی اور پرلے درجہ کی جہالت پر متنبہ کرتے ہوئے فرمایا : ” اور جس کو اللہ گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے “
اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہی ان کو گمراہ کیا ہے تو پھر اس گمراہی میں ان کا کیا قصور ہے ؟ اس کا جواب ہم اپنی اس تفسیر میں کئی بار لکھ چکے ہیں، ایک جواب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے گمراہی کو اختیار کیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان میں گمراہی کو پیدا کردیا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں ایسی گستاخیاں کیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر ان کے اندر گمراہی کو راسخ کردیا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 33