أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰقَوۡمِ لَـكُمُ الۡمُلۡكُ الۡيَوۡمَ ظٰهِرِيۡنَ فِى الۡاَرۡضِ فَمَنۡ يَّنۡصُرُنَا مِنۡۢ بَاۡسِ اللّٰهِ اِنۡ جَآءَنَا ؕ قَالَ فِرۡعَوۡنُ مَاۤ اُرِيۡكُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَمَاۤ اَهۡدِيۡكُمۡ اِلَّا سَبِيۡلَ الرَّشَادِ‏ ۞

ترجمہ:

اے میری قوم ! آج تمہاری حکومت ہے کیونکہ تم اس ملک پر غالب ہو، لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا ؟ فرعون نے کہا : میں تمہیں وہی (راستہ) دکھا رہا ہوں جو میں خود دیکھ رہا ہوں اور میں تمہیں صرف کامیابی کی راہ دکھا رہا ہوں

تفسیر:

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس مرد مومن کے قول کا یہ حصہ نقل فرمایا :

” اے میری قوم ! آج تمہاری حکومت ہے، کیونکہ تم اس ملک پر غالب ہو، لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا ؟ فرعون نے کہا : میں تمہیں وہی راستہ دکھا رہا ہوں جو میں خوددیکھ رہا ہوں اور میں تمہیں کامیابی کی راہ دکھارہا ہوں “ (المومن :29)

اس مرد مومن کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بچانے کی ایک اور کوشش

یعنی اے میری قوم ! آج سر زمین مصر میں تمہارا اقتدار ہے اور اس وقت تمہاری ٹکر کی کوئی قوم نہیں ہے، لیکن اگر ہم پر اللہ کا عذاب آگیا تو ہماری مدد کو کون آئے گا ؟ سنو ! تم حضرت موسیٰ کو قتل کرکے اپنے دامن اور چین کو برباد نہ کرو، اس مرد مومن کے خطاب سے یہ معلوم ہوگیا کہ وہ اسرائیلی نہیں تھا قبطی تھا اور فرعون کی قوم سے تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر ان کی نبوت پر ایمان لاچکا تھا، اس نے اپنے اس قول میں ملک اور اقتدار کی نسبت اپنی قوم کی طرف کی، تاکہ اس کی خوم خوش ہو اور عذاب کا محل اور مورد بننے کی اپنی طرف نسبت کی تاکہ ان کے دل مطمئن ہوں اور یہ سمجھیں کہ یہ شخص واقعی ہمارا خیرخواہ ہے اور اس کے لیے اسی نفع کے حصول کی کوشش کررہا ہوں جو نفع اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ فرعون نے اس مرد مومن کی نصیحت سن کر کہا : میں نے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا میرے نزدیک وہی بہتر ہے تاکہ اس فتنہ کا مادہ جڑ سے ختم ہوجائے اور میں نے تم سے جو کہا ہے تمہاری کامیابی اسی میں ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 29