غیبت کی قدرے تفصیل

آقائے نامدار مدنی تاجدار ﷺ کے نزدیک ہر وہ بات غیبت میں داخل ہے کہ اگر سننے والاسن لیتا تو اس کو بری لگتی۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میںنے نبیٔ اکرم ﷺ سے کہا صفیہ رضی اللہ عنہاکے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ایسی ہیں (یعنی پستہ قد)اس پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر وہ سمندر میں ملایا جائے توسمندر پر بھی وہ غالب آجائے۔ (امام احمد، ترمذی، ابو دائود)

یعنی یہ بھی غیبت میں شمار ہے اور اس کی نحوست کا عالم یہ ہے کہ اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو اس کو متأثر کردے، اس سے ثابت ہوا کہ کسی پستہ قد کو ناٹا، ٹھگنا، اوربَوْنا کہنا بھی غیبت میں داخل ہے جب کہ بلا ضرورت ہواور ضرورت یہ ہو کہ ایک ہی نام کے کئی افراد ہو ں تو شناخت کے طور پرکہہ سکتے ہیں مگر عام حالات میں ایسا کہنا جائز نہیں

یونہی کسی کی آنکھ میں خرابی ہوتی ہے تو اس کو کانااور پائوںسے معذور ہوتو اسے لنگڑا کہتے ہیں یہ بھی غیبت ہے اور ظاہر کرنے کی ضرورت ہو تو یوں کہنا مناسب ہے کہ فلاں شخص جس کی آنکھ میں کچھ خرابی ہے یا جس کا پائوں کچھ خراب ہے۔ غرض کہ حتیّ الامکان مومن بھائی کو تکلیف دینے اور اس کا مذاق اڑانے سے پر ہیز کرے۔ (عامۂ کتب فقہ)

میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو! غیبت کی مذمت اور اس کے نقصانات کو تاجدار کائنات ﷺ نے کس کس طرح سے بتائے اور غیبت کیا ہے ؟ اس کی وضاحت بھی کردی گئی۔ اس وضاحت کے بعد شاید ہی کوئی ملے جو اس برائی کا مرتکب نہ ہو۔ اگر ہم غور کریں تو آج معاشرہ میں اس کو کوئی برائی سمجھتا ہی نہیں بلکہ اب ہر ملاقات میں غیبت ہر گفتگو میں غیبت معمول بن چکا ہے۔ اگر آج بھی ہم اس برائی سے نہ بچے تو پتہ نہیں دنیا وآخرت میں کتنے نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرماکر اور غیبت کوبرائی سمجھ کر بچنے کی توفیق عطافرمائے۔

آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ

بدن کی غیبت

یہ ہے کہ مثلا کہا جائے یہ کتنا لمبا تڑنگا ہے، کالا دھواں ہے، بلی کی آنکھوں والا ہے وغیرہ یہ بدن کی غیبت ہے۔

اخلاق کی غیبت

مثلا کوئی اپنے مسلمان بھا ئی کے بارے میں یو ں کہے کہ بد خو ہے، متکبر ہے، زبان دراز ہے، بزدل ہے، نکمّاہے۔

لباس کی غیبت

کھلے چولے، فقیروں والوں رکھتا ہے، بڑے بھڑکیلے لباس پہنتا ہے غر ضیکہ ہر وہ بات غیبت میں داخل ہے کہ اگر سننے والا سن لیتا تو اسکو بری لگتی۔

کیا غیبت جائز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

طبرانی نے مُعاوِیہ بن حَیدَہْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ لَیْسَ لِلْفَاسِقِ غِیْبَۃٌ‘‘یعنی فاسق و فاجر کے عیب بیان کرنا غیبت نہیں۔ (کنزالعمال )

اسی طرح مظلوم کا حاکم کے سامنے کسی ظالم کے ظالمانہ عیوب بیان کرنا تاکہ اس کی داد رسی ہو سکے،مفتی کے سامنے فتویٰ طلب کرنے کے لئے کسی کے عیوب پیش کرنا۔ مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ نام نہ لے بلکہ یوں کہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کے ساتھ یہ کیابلکہ زیدو عمرو سے تعبیر کرلے جیسا کہ اس زمانے میں استفتاء کی یہی صورت ہے…… پھر بھی اگر نام لے لیا جب بھی جائز ہے اِس میں قباحت نہیں۔ جیسا کہ حدیث پاک میں مذکور ہے۔ ہندہ نے ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق حضور علیہ السلام کی خدمت میں شکایت پیش کی کہ وہ بخیل ہیں اُتنا نفقہ نہیں دیتے جو مجھے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو مگر جب کہ میں ان کی لا علمی میں کچھ لے لوں۔ ارشاد فرمایا تم اتنا لے سکتی ہو جو تمہارے اور بچوں کے لئے کا فی ہو۔ (رد المختار،بہارشریعت )

اسی طرح مسلمانوں کو فتنہ و فساد سے بچانے کے لئے کسی کا عیب ظاہر کرنا اور جو شخص کھُلے عام فسق و فجور اور طرح طرح کے گناہوں کا مرتکب ہو مثلا چوری، ڈاکہ زنی، خیانت اورزناجیسی برائیاں کسی میں ہوں تو اس کا بیان کردینااس نیت سے کہ لوگ نقصان سے محفوظ رہیںاگر اس سے معاشرہ کی اصلاح مقصود ہو تو یہ غیبت نہیں۔ (کتب فقہ)

غیبت کا کفارہ

بیہقی نے دعوات ِکبیر میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے اس کے لئے استغفار کرے اور یو ں کہے ’’ اَللّٰھُمَّ اَغْفِرْ لَنَا وَلَہ ‘‘ اے اللہ ہمیں اور اسے بخش دے۔

میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! عمداً یا سہواً جس کسی کی غیبت ہم سے ہو گئی ہو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم ﷺ کے صدقہ و طفیل معاف فرمائے اور جس کی غیبت ہوئی ہو اس کی اور ہماری مغفرت فرمائے۔

آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ

حکایت سعدیؔ علیہ الرحمۃ

بلبل ِشیراز حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’ گلستاں ‘‘ میں اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ میں ابھی بچہ تھا،سِنِّ شعور کو نہ پہونچا تھا لیکن حال یہ تھا کہ میں عبادت بہت کرتا تھا، شب خیزی اور زہدو عبادت پر حریص تھا اور پر ہیزگار بھی غضب کا تھا۔ ایک شب جب کہ والدمرحوم کی خدمت میں تھا ساری رات عبادت میں گزاردی اور تلاوت قرآن کرتا رہا۔ چند لوگ ہمارے قریب مزے سے سو رہے تھے، میں نے اپنے والد سے کہاکہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اٹھ کر نفل نماز پڑھ لے خواب غفلت میں ایسے غرق ہیں گویا مردہ ہیں، والد گرامی نے فرمایا بیٹے اگر تم ساری رات سوتے تو اس عبادت سے بہتر تھاجسے تم نے ان کی غیبت کر کے ضائع کر دیا۔

نہ بیند مدعی جزخویشتن را

کہ دارد پردئہ پندار، درپیش

اگر چشم دلت را بکشائی

نہ بینی ہیچ کس عاجز تر از خویش

یعنی : مدعی صرف خود کو دیکھتا ہے اس گمان سے جو اس کے اندر ہے اگر دل کا دروازہ کھو لو تو اپنے سے کسی کو عاجز نہ دیکھو گے۔ (گلستاں)

میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو! یہ اللہ والے تھے جو رضاء الٰہی کے لئے عبادت کرتے تھے لیکن اگر ایسا لفظ جس سے خود ستائی اور دوسرے کو حقیر جاننے والی بات ہو تو فورا تائب ہو جاتے اور لوگوں کو توبہ کی جانب راغب کر دیتے اور اگر غلطی سے کسی کو حقیر جان بھی لیا تو غلطی کا احساس ہوتے ہی رجوع بھی کر لیا کرتے لیکن ہمارا حال تو یہ ہے کہ کسی سے اپنے کو کم نہیں سمجھتے اور عبادت و ریاضت نہ کرکے بھی عابد و زاہد کہلوانا پسند کرتے ہیں اور اپنی تعریف اپنے منھ کرنے کی عادت بنا چکے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں نیک بنائے اور نفس ِ اَمّارہ کی شرارتوں سے محفوظ فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ

غیبت سے بچنے کا ایک آسان طریقہ

محقق علی ٰالاطلاق سیدنا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے جب کسی مجلس میں بیٹھو تو کہو ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘‘ اس کی برکت سے اللہ عزوجل تم پر ایک فرشۃ مقرر فرما دے گا جو تم کو غیبت سے بچائے رکھے گااور جب مجلس سے اٹھو تو ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘‘ پڑھ لیا کرواس کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے باز رکھے گا۔

(جذب القلوب الی ٰدیار المحبوب )

میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو! مذکورہ عمل خود بھی کریں اور اسے یاد کرلیں اور اپنے گھر والوں، نیز دوست واحباب کو اس عمل کا عادی بنا دیں۔ اللہ دونوں جہاں میں اس کا صلہ عطا فرمائے گا۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ

٭٭٭