احساس ذمہ داری

حضرت امام سفيان الثوري (97 – 161هـ) کی عادت تھی کہ اپنے پاس آنے والے طالب علم کو ، پہلے ادب آداب سکھاتے ۔ مؤدب و مھذب ہو جانے کا یقین ہونے پر ہی اس کی تعلیم کا آغاز فرماتے اگر چہ اس میں کئی سال لگ جاتے ۔

آپ کی طلباء کو نصیحت کچھ یوں ہوتی ،

” علماء میں اگر بگاڑ آ گیا تو پھر عام لوگوں کی اصلاح کون کرے گا اور کیسے ؟ ” ۔

پھر شعر سناتے ۔

يا رجال العلم يا ملح البلد ۔

من يُصلِحُ الملحَ إذا الملحُ فسد ؟!

اس شعر میں علماء کو خطاب کر کے انھیں اپنے پورے علاقے کا نمک جیسا مصلح و مؤدب قرار دیا ہے ۔

سردار ، مصلح ، تھوڑے ہو کر بھی سب بگڑا سنوار دینے والے کھانے میں نمک کی طرح تھوڑے ہوتے ہیں ۔

صرف ذرا سا نمک ہی باقی سارے کھانے کا ذائقہ بنا دیتا ہے ، بگاڑ کو درست کر دیتا ہے لیکن اگر نمک ہی خراب ہو چکا ہو تو ؟

نمک متعدد اشیائے خورد و نوش کی حفاظت بھی کرتا ہے ۔

مشاہدہ ہے کہ کچے چمڑے اور گوشت کو خراب ہونے اور گلنے سڑنے سے بچانے کے لیئے اسے نمک لگایا جاتا ہے ۔ لیکن اگر یہ نمک ہی صحیح نہ ہوا تو اسے کون صحیح کرے گا اور کیسے ؟

اسی منظر کو بیان کر کے علماء کو بتایا کہ دیگر عوام کے مقابل آپ کی تعداد بہت قلیل ہو گی لیکن اس قلت کے باوجود اس سب عوام کا ذائقہ ( اخلاق حسنہ) آپ کے وجود سے ہی جڑا ہوا ہے اور ان عوام کو بگاڑ سے محفوظ رکھنے کے لیئے آپ کا معیاری اور بگاڑ سے محفوظ ہونا ضروری ہے ۔ والدین اپنے درست طرز عمل کا مظاہرہ اپنی اولاد کے سامنے نہ کر سکے تو آئندہ نسل کا رویہ کیسے مثبت ہو سکتا ہے ؟

علماء و مشائخ اپنے آپ کو درست رکھنے کی مشقتوں میں نہ پڑے تو ساری عوام کی اصلاح کا کیا ذریعہ رہے گا؟ ، اگر معلمین و اساتذہ ہی فساد و بگاڑ کا شکار بن گئے تو طلباء اور نوجوان پود کے بگاڑ کے آگے بند کون باندھے گا ؟

🤲 یا اللّٰہ ، اس فقیر سے نسبت رکھنے والوں کو ہادی و مھدی ، صالح و مصلح ، منابع خیر و سعادت بنائے رکھنا ۔